سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض کرنا کیسا ؟

مجیب:مفتی ہاشم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-8646

تاریخ اجراء:07رمضان المبارک1440ھ/13مئی2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اعتراض کرنا کیسا ہے ؟

       سائل: اشتیاق عطاری (لاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اعتراض کرنا یا آپ سے سوء عقیدت رکھنا بدمذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے،کیونکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی رسول ہیں اورتمام صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اہلِ خیر و صلاح اور عادل ہیں ، ان کا جب ذکر کیا جائے، تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرام کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے تمام صحابہ کا تذکرہ خیر کے ساتھ کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ پھر جن اصحاب کے لیے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے نام لے کر دعائیں فرمائیں ان میں سے ایک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں اورحضور نبی اکرم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نےصحابہ پر طعن کرنے سے منع فرمایا ہے۔

    اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا﴿وَ مَا لَکُمْ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَ لِلہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ لَا یَسْتَوِیۡ مِنۡکُمْ مَّنْ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوۡا ؕ وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ؕ وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴾ترجمہ کنز الایمان:’’اور تمہیں کیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو، حالانکہ آسمانوں اور زمین میں سب کا وارث اللہ ہی ہے،  تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا،وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے  اللہ جنّت کا وعدہ فرماچکا  اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔

 (پارہ 27،سورۃ الحدید،آیت10)

    تفسیر قرطبی میں اس آیت کے تحت فرمایا ”فِيهِ خَمْسُ مَسَائِلَ الخامسة- قوله تعالى: (وكلا وعد اللہ الحسنى) أي المتقدمون المتناهون السابقون، والمتأخرون اللاحقون، وعدهم اللہ جميعا الجنة مع تفاوت الدرجات.“ ترجمہ:اس میں پانچ مسائل کا ذکر ہے ۔پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان :اللہ تعالیٰ نے سب سے حسنیٰ کا وعدہ فرمالیا ہے یعنی سبقت کرنے والے پہلے اور بعد میں شامل ہونے والے متاخرین اللہ تعالیٰ نے ان سب سے درجات کے فرق کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمالیا ہے۔

(الجامع لاحكام القرآن(تفسيرقرطبی)، جزء17،صفحہ205،207،مطبوعہ کوئٹہ)

    تفسیر مظہری میں ہے:”وَكُلًّا ۔۔۔اى كل واحد من الفريقين من الصحابة الذين أنفقوا قبل الفتح والذين أنفقوا بعده وَعَدَ اللہ الْحُسْنى ، لا يحل الطعن فى أحد منهم ولا بد حمل مشاجراتهم على محامل حسنة واغراض صحيحۃ او خطأ فى الاجتهاد ۔۔۔وَاللہ بِما تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ  عالم بالبواطن كعلمه بالظواهر فيجازى كلا على حسبه.“ترجمہ:اور تمام یعنی وہ صحابہ کرام جنہوں نے قبل فتح  مکہ خرچ کیا اور جنہوں نے بعد فتح  مکہ خرچ کیا ان دونوں گروہوں میں سے ہر ایک سے اللہ تعالیٰ نے حسنیٰ کا وعد فرمالیا۔ان میں سے کسی ایک کے بارے میں طعن کرنا حلال نہیں ہے اور ان کے مشاجرات کو اچھے محامل اور درست اغراض یا اجتہادی خطا پر محمول کرنا ضروری ہےاور جو تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے خبردار ہے ۔وہ باطن کو بھی ایسے ہی جانتا ہے جیسے ظاہر کو جانتا ہے،تووہ ہر ایک کو اس کے مطابق بدلہ دے گا۔

             (تفسير مظھری، جلد9،صفحہ192، مطبوعہ کوئٹہ)

    حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لا تذکروا مساوی  اصحابی  فتختلف  قلوبکم   علیھم   و   اذکرو  ا محاسن   اصحابی  حتی   تاتلف   قلو      بکم علیھم‘‘

ترجمہ:میرے صحابہ کا تذکرہ برائی کے ساتھ مت کرو کہ تمہارے دل ان کے خلاف ہوجائیں ،میرے صحابہ کی اچھائیاں بیان کرو ،یہاں  تک کہ تمہارے دل ان کے لیے نرم ہوجائیں ۔

  (کنز العمال ،کتاب الفضائل ،الباب الثالث ،الفصل الاول ،جزء11،صفحہ247،مطبوعہ لاھور)

    صحیح بخاری وصحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ’’لا تسبوا أصحابي، فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم، ولا نصيفه‘‘ترجمہ:میرے صحابہ کو بُرا نہ کہو،پس اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ جتنا سونا خیرات کرے ،تو وہ ان کے ایک مُد یا آدھا مُد خیرات کرنے کو نہیں پہنچ  سکتا ہے۔

(صحیح بخاری ،کتاب المناقب ،جلد1،صفحہ518،مطبوعہ کراچی)

    حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اللہ اللہ فی اصحابی لا تتخذوھم غرضا بعدی ‘‘ترجمہ:میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو،میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ،میرے بعد ان کو (اعتراضات کا)نشانہ نہ بنانا ۔

(جامع ترمذی ،ابواب المناقب ،باب فی من سب اصحاب النبی ،جلد2،صفحہ706،مطبوعہ لاھور)

    صحیح بخاری میں ہے  کہ حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرمایا”دعہ فانہ قد صحب رسول اللہ “ترجمہ:ان کو کچھ نہ کہو یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم  کے صحابی ہیں ۔             

(صحیح بخاری ،کتاب المناقب ،باب ذکر معاویۃ رضی اللہ عنہ ،جلد1،صفحہ531،مطبوعہ کراچی )

    سنن  ترمذی  ، مسند امام احمد اور التاریخ  الکبیر  للبخاری میں حدیث صحیح منقول ہے (والنظم ھذا للبخاری ):” قال ابو مسھرحدثنا سعید بن عبد العزیز عن ربیعۃ بن یزید عن ابن ابی عمیرۃ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم  اللھم اجعلہ ھادیا مھدیا واھدہ واھدبہ“ ترجمہ:حضرت سیدنا ابن ابو عمیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم  نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے دعا فرمائی :اے اللہ ! اسے ہادی ومہدی بنا،اسے ہدایت دے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے ۔

(التاریخ الکبیر ،عبد الرحمن بن ابی عمیرہ ،جلد5،صفحہ240، دائرۃ المعارف العثمانیہ ،حیدر آباد دکن)

    امام شہاب الدین ابو العباس احمد بن محمد (ابن حجر ہیتمی ) شافعی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو ذکر کرکے لکھتے  ہیں”فتامل ھذاالدعاء من الصادق المصدوق وان ادعیتہ لامتہ لا سیما اصحابہ مقبولۃ غیر مردودۃ، تعلم ان اللہ سبحانہ استجاب لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بھذا الدعاء لمعاویۃ فجعلہ ھادیا للناس مھدیا فی نفسہ ومن جمع اللہ لہ بین ھاتین المرتبتین کیف یتخیل فیہ ماتقولہ علیہ المبطلون ووصمہ بہ المعاندون معاذ اللہ لایدعو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ھذاالدعاء الجامع لمعالی الدنیا والاخرۃ المانع لکل نقص نسبتہ الیہ الطائفۃ المارقۃ الفاجرۃ الا لمن علم صلی اللہ علیہ وسلم  انہ اھل لذلک حقیق بما ھنالک “ ترجمہ:پس غورکرو یہ صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعابلا شبہ آپ کی امت کے حق میں بالخصوص آپ کے صحابہ کرام کے حق میں مقبول ہے ،رد ہونے والی نہیں ۔تو جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں قبول فرماکر ان کو ہدایت یافتہ اور لوگوں کے لیے رہنمابنادیا اور جس شخصیت میں اللہ تعالیٰ یہ دونوں مقام جمع فرمادے اس کے بارے میں وہ سب کچھ کیسے گمان کیا جاسکتا ہے ،جو باطل پرست ان کے خلاف کہتے ہیں اور جو معاندین ان پر عیب لگاتے ہیں معاذاللہ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ایسی دعا کہ جو دنیا وآخرت کے بلند مقامات کی جامع ہے اور ہر اس نقص کی مانع ہے، جس کی نسبت فاسق وگمراہ فرقہ حضرت امیر معاویہ کی طرف کرتا ہے، صرف اسی کے حق میں کرسکتے ہیں ،جو حقیقتاً اس دعا کا اہل وحق دار ہو ۔

  (تطھیر الجنان ،الفصل الثانی ،صفحہ49،دارالصحابہ للتراث )

    مسند امام احمد ،مسند بزار،صحیح ابن حبان اور التاریخ الکبیر میں ہے (والنظم ھذا للبخاری )”أبو مسهر عن سعيد بن عبد العزيز عن ربيعة بن يزيد عن عبد الرحمن بن عميرة عن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال اللهم علم معاوية الحساب وقه العذاب“ ترجمہ:حضرت عبد الرحمن بن عمیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے یہ دعا کی :اے اللہ معاویہ کو حساب سکھا اور اسے عذاب سے بچا۔         

(التاریخ الکبیر ،معاویۃ بن ابی سفیان بن حرب ،جلد7،صفحہ326،رقم 1405، دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدر آباد دکن)

    المسامرہ میں ہے :”(واعتقاد أھل السنۃ) والجماعۃ (تزکیۃ جمیع الصحابۃ) رضي اللہ عنھم وجوباً بإثبات العدالۃ لکل منھم والکف عن الطعن فیھم، (والثناء علیھم کما أثنی اللہ سبحانہ وتعالی علیھم) “ ترجمہ:اہل سنت کا عقیدہ(یہ ہے کہ) تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم  کی عدالت کو ثابت کرنے کے ساتھ ان کی  پاکیزگی بیان کرناواجب ہے اور ان سب کے معاملہ میں طعن سے رکے رہنا واجب ہے اور ان کی تعریف کرنا ہے،جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کی تعریف کی ہے ۔

      (المسامرۃ شرح المسایرہ ،الرکن الرابع ،الاصل الثامن ،صفحہ259،دارالکتب العلمیہ )

    نسیم الریاض میں ہے:”ومن یکن یطعن فی معاویۃفذاک کلب من کلاب الھاویۃ“یعنی جو حضرت معاویہ پر طعن کرے ،تووہ جہنمی کتوں میں سے کتا ہے ۔

 (نسیم الریاض ،القسم الثانی  ،جلد3،صفحہ430،مطبوعہ  ملتان  )

    نبراس میں ہے:”سبہ رجل عند خلیفۃ الراشد عمر بن عبد العزیز فجلدہ “ ترجمہ:ایک شخص نے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز کے سامنے حضرت امیر معاویہ کو برا بھلا کہا، تو  آپ نے اسے کوڑے لگوائے ۔

(النبراس شرح شرح العقائد ،محاربات الصحابۃ واجبۃ التاویل ،صفحہ330،مطبوعہ ملتان)

    اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”ای للامیر معاویۃ رضی اللہ عنہ اما عند اھل الحق فاستقامۃ الخلافۃ لہ رضی اللہ تعالی عنہ من یوم صلح السید المجتبی صلی اللہ تعالی علی جدہ الکریم وابیہ وعلیہ وعلی امہ واخیہ وسلم ۔“ترجمہ:بہر حال اہل حق کے نزدیک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے لیے اس دن سے خلافت مستحکم ہوگئی، جس دن حضرت امام مجتبیٰ، امام حسن  صلی اللہ تعالیٰ علی جدہ الکریم وابیہ وعلیہ وعلی امہ واخیہ وسلم  نے صلح کی ۔

اس کے بعد آپ رحمہ اللہ تعالیٰ امام حسن اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان صلح والی حدیث بخاری نقل کرکے فرماتے ہیں ”وبہ ظھر ان الطعن علی الامیر معاویۃ طعن علی الامام المجتبی بل علی جدہ الکریم صلی اللہ علیہ وسلم،  بل علی ربہ عزوجل “ ترجمہ:اسی سے ظاہر ہوگیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنا درحقیقت امام مجتبیٰ پر طعن کرنا ہے، بلکہ یہ ان کے جد کریم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  پر طعن کرنا ہے، بلکہ یہ تو اللہ عزوجل پر طعن کرنا ہے۔

    اس کے بعد اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”کیونکہ مسلمانوں کی باگ ڈور کسی غلط آدمی کے ہاتھ میں دینا اسلام اور مسلمین کے ساتھ خیانت ہے اور اگر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غلط تھے، جیساکہ طعن کرنے والے کہہ رہے ہیں، تو پھر اس خیانت کے مرتکب معاذ اللہ امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ ٹھہریں گے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم  کی اس خیانت پرر ضا لازم آئے گی اور یہ وہ ہستی ہے جس کی شان میں﴿ وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی﴾ وارد ہے ۔یہ جملے اس شخص کو فائدہ دیں گے جس کے لیے اللہ نے ہدایت کا ارادہ فرمالیا ۔‘‘

 (المستند المعتمد مع المعتقد المنتقد،صفحہ192-193،برکاتی پبلشر ،کراچی)

    فتاوی رضویہ میں ہے:’’سِیَر جن بالائی باتوں کے لئے ہے، اُس میں حد سے تجاوز نہیں کرسکتے ،اُس کی روایات مذکورہ کسی حیض ونفاس کے مسئلہ میں بھی سننے کی نہیں نہ کہ معاذاللہ اُن واہیات ومعضلات وبے سروپا حکایات سے صحابہ کرام حضور سیدالانام علیہ وعلی آلہٖ وعلیہم افضل الصّلاۃ والسلام پر طعن پیدا کرنا، اعتراض نکالنا، اُن کی شانِ رفیع میں رخنے ڈالنا کہ اس کا ارتکاب نہ کرے گا، مگر گمراہ بددین، مخالف ومضاد حق تبیین ۔‘‘

  (فتاوی رضویہ ،جلد5،صفحہ582،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

    صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں :”تمام صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل، ان کا جب ذکر کیا جائے ،تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت بدمذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے کہ وہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم کے ساتھ بغض ہے، ایسا شخص رافضی ہے، اگرچہ چاروں خلفا ءکو مانے اور اپنے آپ کو سُنّی کہے۔ مثلاً :حضرت امیرِ معاویہ اور اُن کے والدِ ماجد حضرت ابو سفیان اور والدہ ماجدہ حضرت ہند،کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ کاہو کسی صحابی کے رتبہ کو نہیں پہنچتا۔صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے باہم جو واقعات ہوئے،ان میں پڑنا حرام، حرام، سخت حرام ہے۔ مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں۔  تمام صحابہ کرام اعلیٰ و ادنیٰ (اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں) سب جنتی ہیں، وہ جہنم کی بِھنک نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے، محشر کی وہ بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی، فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔ یہ سب مضمون قرآنِ عظیم کا ارشاد ہے۔ صحابہ کر ام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم انبیاء نہ تھے، فرشتہ نہ تھے کہ معصوم ہوں۔ ان میں بعض کے لیے لغزشیں ہوئیں،مگر ان کی کسی بات پر گرفت اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے خلاف ہے۔اﷲعزوجل نے سورہ حدید میں جہاں صحابہ کی دو قسمیں فرمائیں۔ مومنین قبلِ فتحِ مکہ اور بعدِ فتحِ مکہ اور اُن کو اِن پر تفضیل دی اور فرما دیا:﴿ وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی﴾ سب سے اﷲ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا۔  ساتھ ہی ارشاد فرما دیا:﴿ وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴾ اﷲ خوب جانتا ہے، جو کچھ تم کرو گے۔    تو جب اُس نے اُن کے تمام اعمال جان کر حکم فرما دیا کہ ان سب سے ہم جنتِ بے عذاب و کرامت و ثواب کا وعدہ فرماچکے، تو دوسرے کو کیا حق رہا کہ اُن کی کسی بات پر طعن کرے؟کیا طعن کرنے والا اﷲ(عزوجل) سے جدا اپنی مستقل حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘

       (بھار شریعت ،جلد1،حصہ 1،صفحہ252-255،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْ?