Allah Jagah o Makan Arsh Waghaira Mein Hone Se Pak Hai

اللہ تعالی  عرش وغیرہ مکان میں ہونے سےپاک ہے۔

مجیب: ابوالحسن ذاکر حسین عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1532

تاریخ اجراء: 07رمضان المبارک1444 ھ/29مارچ2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   یہ کہناکہ اللہ تعالی عرش پرنہیں ہے،کیایہ قرآن پاک کےخلاف ہے،اور ناجائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   یہ  کہنا کہ اللہ تعالی عرش پر نہیں کہ وہ مکان سے پاک ہے، قرآن و حدیث کے مطابق  ہے ،اسے قرآن پاک کے خلاف اور ناجائز کہنا غلط فہمی ہے۔ اس حوالے سے مزید تفصیل یہ ہے کہ  قرآن مجید فرقان حمید کی آیات دو طرح کی ہیں ۔ (1) محکم آیات کہ جو اپنے معنی میں بالکل واضح ہوتی ہیں ۔انہیں ام الکتاب بھی کہا جاتا ہے ۔ (2) متشابہات  کہ جن کے معنی میں اشکال ہے  کہ یا تو ظاہری لفظ سے کچھ سمجھ ہی نہیں آتا، جیسے حروف مقطعات  یا جو سمجھ میں  آرہا ہوتا ہے وہ اللہ عزوجل پر محال ہوتا ہے۔

   قرآن مجید فرقان حمید نے متشابہات کے متعلق پختہ علم والوں کا مبارک طریقہ یہ بیان فرمایا کہ وہ اس کی ٹوہ میں نہیں پڑتے  بلکہ وہ کہتے ہیں: (اٰمَنَّا بِهٖۙ-كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاۚ یعنی ہم اس پر ایمان لائے، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے) جبکہ جن کے دلوں میں کجی،خرابی ہوتی ہے وہ ان متاشبہات کی پیروی کرتے اور ان کے ذریعے  بندگان خدا کو بہکانے اور دین میں فتنے پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔چنانچہ قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ تعالی فرماتا ہے :هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌؕ-فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ ﳘ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ﳕ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ-كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاۚ-وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ ۔ترجمہ کنز العرفان:وہی ہے جس نے تم پر یہ کتاب اتاری اس کی کچھ آیتیں صاف معنی رکھتی ہیں وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری وہ ہیں جن کے معنی میں اِشتباہ ہے تووہ لوگ جن کے دلوں میں ٹیڑھا پن ہے وہ (لوگوں میں ) فتنہ پھیلانے کی غرض سے اور ان آیات کا (غلط) معنیٰ تلاش کرنے کے لئے ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑتے ہیں حالانکہ ان کا صحیح مطلب اللہ ہی کو معلوم ہے اور پختہ علم والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اورعقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں۔ (القرآن، سورۃ آل عمران، پارہ3،آیت:7)

   اس تفصیل کے بعد صورت مسئولہ کے متعلق عرض یہ ہے کہ محکم آیات سے ثابت ہے کہ اللہ عزوجل،ہر عیب و نقصان سے پاک ہے،سب اس کے محتاج ہیں وہ کسی چیز کی طرف کسی طرح کسی بات میں بالکل محتاج نہیں ،وہ مخلوق کی مشابہت سے پاک و منزہ ہے ،  اس میں تغیر و تبدیلی نہیں آسکتی ،وہ جسم نہیں ، اس کے لئے مکان اور جگہ نہیں ۔ان  امور کی دلیل قرآن مجید کی وہ سب آیات ہیں جن میں اللہ تعالی کی تسبیح و تقدیس  و پاکی و بے نیازی  و بے مثلی و بے نظیری  بیان ہوئی ۔ ان کی تفصیل سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے رسالہ قوارع القہار میں ملاحظہ فرمائیں ۔ تو اس پر عمل  و اعتقاد ہوگا،اس کے مقابل وہ متشابہات کہ جن سے معاذ اللہ ،اللہ عزوجل کے لیے عرش کا  مکان  ہونا معلوم ہو، اس کے مطابق اعتقاد نہیں ہوگا بلکہ ان کا معنی اللہ عزوجل اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کے سپرد کیا جائے گا کہ اس آیت میں جو اللہ عزوجل کی مراد ہے ،اللہ عزوجل اور اس کے بتانے سے اس کے حبیب جانتے ہیں ، ہم معنی جانے بغیر ایمان لائے اور ظاہری معنی جو ہمیں سمجھ آرہے ہیں جس سے جسم و جسمانیت ،زمان و مکان کے معنی معلوم ہوتے ہیں ہر گز مراد نہیں ۔

   بہارشریعت میں ہے:"اللہ تعالی جہت ومکان وزمان وحرکت وسکون وشکل وصورت وجمیع حوادث سے پاک ہے" (بہاشریعت،ج01،ص19،مطبوعہ:مکتبۃ المدینہ)

نوٹ:

   اس مضمون پر جو آیت پیش کی جاتی ہے یعنی( الرحمن علی العرش استوی)   اس حوالے سے وضاحت درج ذیل ہے :

   (1)اس کی  وضاحت میں ایک تویہ کہاگیاہے کہ یہ آیت متشابہات میں سے ہے لہذااس کی تفصیل کی طرف جانے کے بجائے یہ کہاجائے کہ ہمارااس آیت پرایمان ہے اوراس کی حقیقی مراداللہ تعالی  ہی بہترجانتاہے اورقرآن پاک میں علمائےراسخین کایہی طریقہ بیان ہواہےکہ وہ آیت متشابہات کے بارے میں اسی طرح کہتے ہیں ۔جیساکہ اوپرمذکورہوا ۔

   (2)اورعوام کے اطمینان کےلیےجوعلماء تاویل کرتے ہیں ،ان کی تاویلات میں سے ایک تاویل یہ ہےکہ:

   استواء ،قصدوارادہ کے معنی میں بھی آتاہےتواس طرح کی آیات کا ایک مطلب یہ ہے کہ :"اللہ تعالی نے عرش کی تخلیق کاارادہ فرمایا۔"

   اس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن پاک میں استواء کاسات مقام پرذکرآیا،ان تمام مقامات پرزمین وآسمان  کی تخلیق کے ساتھ ہی ذکرآیاہے ۔

   نوٹ: اس حوالے سے یہ مختصر تفصیل پیش کی گئی تفصیل کے لیے اس موضوع پر سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ کا رسالہ  "قوارع القہار علی المجسمۃ الفجار" ،فتاوی رضویہ جلد29، صفحہ 120  سےملاحظہ فرمائیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم