Dil Mein Ye Khayal Karna Ke Namaz Zulm Hai

دل میں یہ خیال کرنا کہ نماز ظلم ہے

مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1387

تاریخ اجراء: 02جمادی الثانی1445 ھ/16دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کوئی شخص دل ہی دل میں یہ سوچے کہ نماز ظلم ہے ، لیکن  اس بات کو برا ہی سمجھے تو کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر صرف وسوسہ آیا یعنی شیطان نے ایسا گندا خیال ڈالا کہ نماز بوجھ یا ظلم ہے اور اس  شخص نے  اسے فوراً رد ( reject) کر دیا ا ور اسے ناپسند کیا، تو کفر نہیں،  لیکن معاذ اللہ، اگر قصداً خود ایسا سوچے یا اسے صحیح جانے، تو اگرچہ زبان سے نہ کہا مگر دل میں بھی نماز کو ظلم یا بوجھ  سمجھا،  تو  یہ کفر ہے، ایسا شخص اسلام سے نکل جائے گا اور اس پر اس کفر سے توبہ کرتے ہوئے کلمہ پڑھ کر نئے سرے سے مسلمان ہونا فرض ہے  اور اگر شادی شدہ  تھا تو نکاح بھی ٹوٹ گیا۔توبہ و قبولِ اسلام  کے بعد اسی بیوی کے ساتھ رہنا چاہے تو تجدیدِ نکاح ضروری ہوگا۔

   شیخ طریقت امیر اہلسنت علامہ مولانا الیاس عطاری قادری مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں:”نَماز کو ناپسند سمجھتے ہوئے بوجھ تصوُّر کرناکُفْر ہے۔ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہ السلام فرماتے ہیں:جو شخص فرض نَماز کو ناپسند کرے وہ کافر ہے۔ (مِنَحُ الرَّوْض ص466)

    میرے آقا اعلیٰ حضرت ،اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:رَمَضان خُصُوصاً گرمیوں کے روزے ، نَماز خُصُوصاً جاڑو ں (یعنی سردیوں)میں صبح وعشاء کی نَفسِ اَمّارہ پر شاق (دشوار)ہوتی ہے، اس سے کافِر نہیں ہوتا جب کہ دل سے اَحکام کو حقّ و نافِع (نفع بخش) جانتا ہے۔ ہاں اگر دل سے(یعنی زبان سے کہے یا نہ کہے صرف دل میں بھی اگر )نَماز کو بیکاراور روزے کو مفت کا فاقہ جانے تو ضَرور کافِر ہے ۔(فتاوٰی رضویہ ج14 ص 365)

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!نَماز اَحکامِ شریعت کے مُعامَلہ میں زَبان اوردل کوبَہُت قابو میں رکھنے کی ضَرورت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ معمولی سی لغزِش ہمیشہ کے لئے جہنَّم میں پہنچا دے۔“(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،صفحہ364-365،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم