Hidayat Ki Nisbat Allah Ki Taraf Aur Ghairullah Ki Taraf Karna

ہدایت کی نسبت اللہ کی طرف اور غیر اللہ کی طرف کرنا

مجیب: مولانا محمد ماجد رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1063

تاریخ اجراء: 10صفرالمظفر1445 ھ/28اگست2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   زید کہتا ہے کہ ہدایت صرف اللہ دیتا ہے،کسی اور کی طرف ہدایت کی نسبت کرنا کہ وہ ہدایت دیتا ہے یاوہ بھی ہدایت ہے،غلط ہے۔اس بارے میں رہنمائی فرمائیے کہ ایسا کہنا کیسا ہے ؟ نیز اللہ پاک کے ہادی ہونے اور رسول اللہ ھادی برحق صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کے ہادی ہونےمیں کیا فرق ہے ؟اور ہدایت کی نسبت جب اللہ پاک کی طرف ہو اس کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ اور جب کسی اللہ پاک کے پیارے نبی ،پیارے ولی کی طرف ہدایت کی نسبت ہو تو کیا معنی ہوتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ہدایت کے مختلف معانی ہیں ،ہدایت  کا ایک معنی ’’ایصال الی المطلوب‘‘ یعنی ہدایت کا نور دل میں پیدا کرنا ہے اور یہ معنی اللہ تعالی کے لیے خاص ہے  اور اللہ تعالی کے سوا  دوسرے کے لیے یہ معنی استعمال نہیں ہوتا۔

 قرآن پاک میں ہے :’’ اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ۚ ‘‘ ترجمۂ کنز العرفان : بیشک ایسا نہیں ہے کہ تم جسے چاہو اسے اپنی طرف سے ہدایت دے دو لیکن الله جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے ۔(پارہ :20،سورۃ القصص،آیت:56)

   اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہٖ وسلم کے لیے جس ہدایت کی نفی کی گئی ہے اس  سے مراد یہی معنی  ’’ایصال الی المطلوب‘‘  ہے۔ اس کے متعلق تفسیر صراط الجنان میں ہے:”آپ اپنا تبلیغ کا فریضہ ادا کرچکے، ہدایت دینا اور دل میں ایمان کا نور پیدا کرنا یہ آپ کا فعل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں  ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ کسے یہ دولت دے گا اور کسے اس سے محروم رکھے گا۔“(تفسیر صراط الجنان،جلد7، صفحہ 300، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

   ہدایت کا دوسرا معنی  اراء ۃ الطریق “یعنی ہدایت کا راستہ دکھانا ہے اس معنی کے ساتھ ہدایت کا اطلاق انبیاء کرام علیہم السلام بلکہ اولیاء اور علماء کے لیے بھی ہوسکتا ہے اور قرآن میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لیے ہدایت کا لفظ اس معنی میں استعمال بھی ہوا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ وَ اِنَّكَ لَتَهْدِیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ‘‘ترجمہ : اور بیشک تم ضرور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہو۔(پارہ :25،سورۃ الشوری،آیت:52)

   اس آیت  میں ہدایت کو  نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہٖ وسلم   کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور یہاں ہدایت ’’ اراء اۃ الطریق ‘‘ کے معنی میں ہے۔اس کےمتعلق مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ان جیسی تمام آیات میں جن میں قرآن یا توریت یا نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ہادی فرمایا گیا ہے ، ہدایت سے مراد اللہ کی مرضی سے راہ دکھانا ہے۔“(علم القرآن، صفحہ 174، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم