Huzoor Aur Auliya Ki Shafaat Mein Kya Farq Hai ?

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء کرام کی شفاعت میں کیا فرق ہے؟

مجیب:مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2921

تاریخ اجراء: 24 محرم الحرام1446 ھ/31جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء  کرام کی شفاعت میں کیا فرق ہے؟برائے کرم دلیل کے ساتھ واضح کریں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، دیگر انبیاء کرام علیہم السلام  اور اولیاء کرام رحمہم اللہ وغیرہ سب کو شفاعت کرنے کا حق حاصل ہے ، لیکن شفاعت کبری کا حق اور مرتبہ صرف نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے۔

   شفاعت کبری کا مقام یہ ہے کہ جب تک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت نہیں فرمائیں گے ، شفاعت کا دروازہ نہیں کھلے گا اور کوئی بھی شفاعت نہیں کر سکے گا۔

   یہی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر کی شفاعت میں ایک فرق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی شفاعت نہیں کر سکے گا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے اور شفاعت کا سلسلہ شروع ہوگا ، اس کے بعد بقیہ انبیاء کرام علیہم السلام  ، اولیاء کرام رحمہم اللہ،شہداء ، علماء ، حفاظ وغیرہ اپنے متعلقین کی شفاعت کریں گے۔

   سب سے پہلے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے شفاعت فرمانے کی تفصیل یوں ہے کہ جب حساب و کتاب کے شروع ہونے کا انتظار سخت ہوگا ، تو لوگ مختلف انبیاء علیہم السلام  سے شفاعت کا کہیں گے ، لیکن ہر نبی علیہ السلام  کسی دوسرے نبی علیہ السلام  کی طرف بھیج دیں گے اور پھر سب لوگ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے  ، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک کی بارگاہ میں شفاعت فرمائیں گے کہ جس کا فائدہ مسلمان ، کافر سب کو ہوگا کہ اس وقت سب حساب و کتاب کے انتظار میں ہوں گے ، پھر اللہ پاک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کو قبول فرمائے گا اور سب لوگ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حمد کریں گے ، یہی مقام محمود ہے کہ جس کا اللہ پاک نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرمایا ہے اور جس کا تذکرہ قرآن و حدیث میں ملتا ہے۔

   مزید یہ کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر کی شفاعت میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں بلاواسطہ شفاعت صرف نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ پاک کے لیے ہوگی اور بقیہ تمام کی رسائی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ تک ہوگی اور وہ تمام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں شفاعت پیش کریں گے ، پھر جن کا ذکر انہوں نے کیا ہوگا ، یونہی جن کا ذکر نہیں کیا ، ان سب کی اللہ پاک کی بارگاہ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے۔

   سب سے پہلے شفاعت فرمانے کا مرتبہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے ، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے: ’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :انا سيد ولد آدم يوم القيامة واول من ینشق عنه القبر واول شافع واول مشفع‘‘ ترجمہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں قیامت کے دن اولاد آدم علیہ السلام کا سردار ہوں اور میں پہلا وہ ہوں جن کی قبر کھلے گی اور میں پہلا شفاعت فرمانے والا ہوں اور پہلا شفاعت قبول کیا ہوا۔ (صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، جلد 4 ، صفحہ 1782 ، رقم الحدیث 2278، دار احیاء التراث العربی)

   سب سے پہلے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے واقعہ کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  بیان کرتے ہیں:’’اور شفاعت کی حدیثیں خود متواتر ومشہور اور صحاح وغیرہ میں مروی ومسطور ۔۔۔ اس دن آدم صفی اللّٰہ سے عیسیٰ کلمۃ اللّٰہ تک سب انبیاء اللہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نفسی نفسی فرمائیں گے اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ’’اَنَا لَھَا اَنَا لَھَا ‘‘ میں ہوں شفاعت کے لئے ، میں ہوں شفاعت کے لئے۔انبیاء ومرسلین وملائکہ مقربین سب ساکت ہوں گے اور وہ متکلم ،سب سربگریبان ، وہ ساجد وقائم، سب محلِ خوف میں، وہ آمن وناہم ، سب اپنی فکر میں ، انہیں فکر ِعوالم ،سب زیرِ حکومت، وہ مالک وحاکم، بارگاہِ الٰہی میں سجدہ کرینگے ، ان کا رب انہیں فرمائے گا’’یَا مُحَمَّدْ اِرْفَعْ رَأْسَکَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ‘‘ اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور عرض کرو کہ تمہاری عرض سنی جائے گی، اور مانگو کہ تمہیں عطاہوگا ، اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہے ۔ اس وقت اولین وآخرین میں حضور(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  ) کی حمد وثناء کا غلغلہ پڑ جائے گا اور دوست ، دشمن ، موافق ، مخالف، ہر شخص حضور(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)کی افضلیت ِکُبریٰ وسیادتِ عظمیٰ پر ایمان لائے گا۔(فتاوی رضویہ، جلد30،صفحہ170 ، 171 ، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   شفاعت کبری کی وضاحت و اس کے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خصائص میں سے ہونے کے متعلق صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ /1947ء) لکھتے ہیں: ’’قیامت کے دن مرتبہ شفاعتِ کبریٰ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے خصائص سے ہے کہ جب تک حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) فتحِ بابِ شفاعت نہ فرمائیں گے ، کسی کو مجالِ شفاعت نہ ہو گی۔‘‘(بھار شریعت، جلد1، حصہ1، صفحہ70 ، مکتبۃ المدینہ)

   شفاعت کبری کے بعد بقیہ کے شفاعت کرنے کے متعلق مزید لکھتے ہیں:’’ اَب تمام انبیا اپنی اُمّت کی شفاعت فرمائیں گے، اولیائے کرام، شہدا، علما، حُفّاظ، حُجّاج ، بلکہ ہر وہ شخص جس کو کوئی منصبِ دینی عنایت ہوا، اپنے اپنے متعلقین کی شفاعت کرےگا۔‘‘(بھار شریعت، جلد1، حصہ1، صفحہ139 ، 140 ، مکتبۃ المدینہ)

   اللہ پاک کی بارگاہ میں بلا واسطہ شفاعت کا حق صرف نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور قرآنِ پاک کو ہونے کے متعلق ’’المعتقد المنتقد‘‘ کے حاشیہ ’’المعتمد المستند‘‘ میں امامِ اہلِ سُنَّت ، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’ان لا شفاعة لاحد بلا واسطة عند ذی العرش الا للقرآن العظيم، ولهذا الحبيب المرتجى الكريم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  ، واما سائر الشفعاء من الملائكة، والانبياء، والاولياء، والعلماء، والحفاظ، والشهداء، والحجاج، والصلحاء، فعند رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  ، فينهون اليه [ای: ياتون الى النبی (الميمنی)]، ويشفعون لديه، وهو  صلی اللہ تعالی علیہ وسلم يشفع لمن ذكروه ولمن لم يذكروا ،عند ربه ، وقد تاكد عندنا هذا المعنى باحاديث ‘‘ ترجمہ:اللہ پاک کی بارگاہ میں بلاواسطہ شفاعت صرف قرآنِ عظیم  اور ان حبیب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہوگی۔اور بہرحال تمام شفاعت کرنے والے فرشتے ، انبیائے کرام علیہمُ الصّلوٰۃ والثناء،اولیا ،علما ، حفاظ ، شہداء ، حجاج اور صلحاء نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں شفاعت کریں گےاور ان کی رسائی انہی تک ہوگی اور ان کی شفاعت نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ہوگی ، تونبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کی بارگاہ میں ان لوگوں کی شفاعت بھی فرمائیں گے ، جن کا ذکر انہوں نے کیا ہوگا اور اُن کی بھی شفاعت فرمائیں گے جن کا ذکر نہ کیا ہوگا۔ ہمارے نزدیک یہ معنی احادیث سے مؤکّد ہے۔(المعتقد المنتقد مع حاشیۃ المعتمد المستند ، صفحہ 221 ، مطبوعہ دار اھل السنۃ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم