Jumme Raat Ko Diya Jalana Ke Buzurg Aayenge Kya Sahi Hai ?

اس نظریے سے گھر میں دیے جلانا کہ بزرگوں کی آمد ہوگی

مجیب: مفتی ابوالحسن   محمد  ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: Jtl-0228

تاریخ اجراء:15جمادی الاولی1443 ھ/20دسمبر  2120 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے  میں کہ بعض لوگ  جمعرات کوگھروں میں دیے جلاتے ہیں ،جبکہ اس کی حاجت و ضرورت نہیں ہوتی،محض  اس وجہ سے جلائے جاتے ہیں کہ بزرگوں کی آمد ہو گی ،وغیرہ وغیرہ ،شرعی رہنمائی فرمائیں کہ ان کی کیا حیثیت ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     دیے پر بزرگوں کے آنے کا نظریہ محض باطل و بے اصل ہے۔ لہذا اس وجہ سے دیا جلانا ایک غرضِ باطل کے لیے دیا جلانا ہے جو بدعت اور اسراف و ناجائز ہے۔قرآن مجید فرقان حمید میں فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿وَلَا تُسْرِفُوۡا ۚؕ اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیۡنَ ترجمہ کنز الایمان:’’ اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔(پارہ 8، سورہ اعراف، آیت 31)

     ایک اور مقام پر ہے:﴿اِنَّ الْمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخْوٰنَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَکَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًاترجمہ کنز الایمان:’’بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔“( پارہ 15، سورہ بنی اسرائیل ،آیت27(

     فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے:”ظاہر ہے کہ یہاں قبور عوام کا ذکرہے کہ اعراس طیبہّ یا مزارات اولیاء کی روشنی فقط پہلی چند راتوں میں نہیں ہوتی، او رظاہر ہے کہ وہ ایک عادت خاصہ کا بیان ہے، ورنہ لیالی اول کی تخصیص بے وجہ تھی، اب جس طر ح یہاں جُہال  میں رواج ہے کہ مردہ کی جہاں کچھ زمین کھود کرنہلاتے ہیں جسے عوام لحد کہتے ہیں، چالیس رات چراغ جلاتے اوریہ خیال کرتے ہیں کہ چالیس شب روح لحد پرآ تی ہے اندھیرادیکھ کر پلٹ جاتی ہے، یوں ہی اگر وہاں جُہال میں رواج ہوکہ موت سے چندرات تک گھروں سے شمعیں جلا کر قبروں کے سرہانے رکھ آتے ہوں او ریہ خیال کرتے ہوں کہ نئے گھر میں بے روشنی کے گھبرائے گا۔ تواس کے بدعت ہونے میں کیا شبہہ ہے۔ اور اس کا پتا یہاں بھی قبروں کے سرہانے چراغ کے لیے طاق بنانے سے چلتا ہے، اور بیشک اس خیا ل سے جلانا فقط اسراف و تضییعِ مال ہی نہیں کہ محض بدعت عمل ہو، بلکہ بدعتِ عقیدہ ہوئی کہ قبر کے اندر روشنی واموات کااس سے دل بہلنا سمجھا، ولہذا امام صفار رحمہ اﷲ تعالی نے اس مسئلہ کو کتاب الاعتقاد میں ذکر فرمایا ۔(فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ502 ، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

     اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ عودو لوبان (کہ جس میں آگ وغیرہ کی وجہ سے دھواں نکلتا ہے )کو جلانے کے بارے میں فرماتے ہیں :”اور قریبِ قبر سلگانا کہ اگر وہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوں کہ نہ تالی یا ذاکر بلکہ صرف قبر کے لیے جلا کر چلا آئے، تو ظاہر منع ہے کہ اسراف و اضاعت مال ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ482 ، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

     ایک دوسرے مقام پر ہے: ”یہ وجہ ( اسراف و اتلاف مال ) صرف قبور عوام میں پائی جاتی ہے،جبکہ وہاں نہ مسجد نہ قبر سرراہ نہ کوئی تلاوت وغیرہ میں مشغول۔۔۔ بخلاف مزار کرام کہ وہاں قبر یعنی خشت گل کی تعظیم نہیں ،بلکہ ان کی روح کریم کی تعظیم ہے، جیساکہ امام نابلسی نے فرمایا کہ :”تعظیما لروحه المشرفة الخ “ترجمہ:(ان کی  روح مبارک کی تعظیم کے لیے )تعظیم قبور معظمین کہ حقیقۃ تعظیم معظمین ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ،جلد9 ،صفحہ516، رضا رضا فاونڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم