Kalma e Shahadat Ke Andar Mein Gawahi Deta Hoon Ka Matlab Kya Hai ?

کلمہ شہادت میں " میں گواہی دیتا ہوں " کا مطلب کیا ہے؟

مجیب: مولانا ذاکر حسین عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2436

تاریخ اجراء: 06رجب ا لمرجب1445 ھ/18جنوری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کلمہ شہادت میں جو ہم کہتے ہیں کہ "میں گواہی دیتا ہوں " تو اس میں "گواہی" سے کیا  مرادہے اور "گواہی " کا ہی لفظ کیوں استعمال کیا جاتا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کلمہ شہادت یعنی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔ اس میں گواہی سے مراد   اللہ جل مجدہ کے معبود حقیقی ہونے اور رسول مکرم محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے رسول برحق ہونےکاسچےدل سے اقرار کرناہے۔

   لفظ شہادت کے مختلف معانی ہیں،جن میں سے ایک معنی" یقینی خبر"  بھی ہے، گواہ ،معاملہ کا معاینہ کرتا ہے،اسے دیکھتا ہے، تو اسے یقین حاصل ہوجاتا ہے اور وہ اس یقین کی بنیاد پر گواہی دیتا ہے تو چونکہ مسلمان ہونے کے لیے بھی اللہ پاک جل و علا کی وحدانیت اور رسول مکرم نبی محترم  صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر یقین  ضروری ہے اور مسلمان اس یقین کے ساتھ توحید و رسالت کا اقرار کرتا ہے تو وہ بھی اس میں شہادت کا لفظ لے آتا ہے۔ اور یہ لفظ حدیثوں میں بھی موجود ہے ۔

   حدیث پاک یہ ہے: حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں حضورعلیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:"بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والحج، وصوم رمضان"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ پاک کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بےشک حضرت محمد  صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم   اللہ کےرسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا،بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔"(صحیح بخاری،کتاب الایمان،باب دعاؤکم ایمانکم،ص13، مطبوعہ: دارالحضارۃ للنشر والتوزیع)

   شہادت کا ایک معنی لغت کی مشہور کتاب"لسان العرب" میں یہ بیان ہوا:"والشهادة خبر قاطع تقول منه: شهد الرجل على كذا "ترجمہ:شہادت یقینی خبر کوکہتےہیں،اسی سےتوکہتا ہے:مردنےاس طرح گواہی دی۔    (لسان العرب،ج03،ص239،مطبوعہ: دار صادر ، بيروت)

   امام علاء الدين مغلطاي بن قليج بن عبد الله المصري الحنفی(متوفی689-762ہجری) فرماتے ہیں:"الشهادة على ضروب، وأصلها تحقق الشيء، وتيقنه من شهادة الشيء أي: حضوره لأن من شاهد شيئا فقد تيقنه علما، فاستعملت هذه اللفظة في تحقق الأشياء"ترجمہ: شہادت چندمعانی پرہے،اوراس کی اصل شئی کاتحقق اورشئی کےوجود کا یقین ہوناہے،اس لیےکہ جوکسی شئی کی گواہی دیتاہے، تو اسےاس کےعلم کایقین ہوتاہے، لہذایہ لفظ اشیاء کے تحقق کےلیےاستعمال کیاگیا۔(الإعلام بسنته عليه السلام شرح سنن ابن ماجة الإمام،ج04،ص56،مطبوعہ: دار ابن عباس، الدقهلية،مصر)

   ملاعلی قاری حنفی علیہ الرحمۃ لفظ شہادت کےساتھ ایمان کی گواہی دینےسےمتعلق ارشاد فرماتےہیں : "الشھادت ابلغ فی الانکشاف من مطلق العلم"ترجمہ:شہادت کالفظ انکشاف یعنی کسی چیزکےاظہارمیں،مطلق علم سے زیادہ بلیغ ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،ج01،ص110،مطبوعہ:مکتبہ عثمانیہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم