Kya Hazrat Khizr Aab e Hayat Peene Ki Wajah Se Zinda Hain ?

کیا حضرت خضر علیہ السلام آب حیات پینے کی وجہ سے زندہ ہیں ؟

مجیب: سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-764

تاریخ اجراء:19جمادی الاول 1444 ھ  /14دسمبر2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   سنا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں کیونکہ انہوں نے آب حیات پی لیا تھا۔ کیا یہ درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حضرت سیدنا  خضر علیہ السلام اور حضرت سیدنا الیاس علیہ السلام  زمین پر موجود ہیں اور یہ وہ انبیاء  کرام ہیں جن  کی وفات ابھی تک واقع نہیں ہوئی ہے۔ نیز حضرت خضر علیہ السلام کی درازی عمر کا سبب تفاسیر میں یہ لکھا ہے کہ آپ نے آبِ حیات پی لیا  ہے۔

   اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”سیدنا الیاس علیہ السلام نبی مرسل ہیں اورسیدنا خضرعلیہ السلام بھی جمہورکے نزدیک نبی ہیں اوران کوخاص طورسے علم غیب عطاہواہے، یہ دونوں حضرات ان چارانبیاء میں ہیں جن کی وفات ابھی واقع ہی نہیں ہوئی، دوآسمان پرزندہ اٹھالئے گئے، سیدنا ادریس وسیدنا عیسٰی علیہما الصلوٰۃ والسلام۔ اوریہ دونوں زمین پرتشریف فرماہیں، دریاسیدنا خضرعلیہ السلام کے متعلق ہے اور خشکی سیدنا الیاس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے۔ دونوں صاحبان حج کو ہرسال تشریف لاتے ہیں، بعدحج آب زمزم شریف پیتے ہیں کہ وہی سال بھر تک ان کے کھانے پینے کوکفایت کرتاہے۔         (فتاویٰ رضویہ، جلد26، صفحہ 401، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   حضرت سیدنا الیاس علیہ السلام کی درازی عمر کے متعلق حضرت علامہ ابو عبداللہ محمدبن احمد انصاری رحمۃ اللہ علیہ تفسیر قرطبی میں لکھتے ہیں: ”قال بعضھم: کان قد مرض و احس الموت فبکی، فاوحی اللہ الیہ: لم تبک؟ حرصاً علی الدنیا، او جزعاً من الموت، او خوفاً من النار؟ قال: لا، و لا شیئ من ھذا و عزتک،  انما جزعی کیف یحمدک الحامدون بعدی ولا احمدک! و یذکرک الذاکرون بعدی ولا اذکرک!  و یصوم الصائمون بعدی ولا اصوم! و یصلی المصلون ولا اصلی! فقیل لہ: یا الیاس و عزتی لاخرونک الی وقت لا یذکرنی فیہ ذاکر، یعنی یوم القیامۃ“ یعنی  بعض نے فرمایا کہ حضرت الیاس علیہ السلام بیمار ہوئے اور آپ نے موت کو محسوس کیا تو رونے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے  آپ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ آپ  کیوں رو رہے ہیں؟ کیا دنیا کی حرص میں رو رہے ہیں یا موت کے غم میں یا دوزخ کے خوف سے؟آپ علیہ السلام نے عرض کیا کہ تیری عزت و جلال کی قسم! میرے رونے کا سبب ان میں سے کوئی نہیں   بلکہ میں تو اس غم میں رو رہا ہوں کہ میرے بعد تیری حمد کرنے والے حمد کریں گے لیکن میں نہیں کرسکوں گا۔ تیرا ذکر کرنے والے میرے بعد تیرا ذکر کریں گے لیکن میں نہیں کرسکوں گا۔ روزہ رکھنے والے میرے بعد بھی روزے رکھیں گے لیکن میں نہیں رکھ سکوں گا۔ نماز پڑھنے والے میرے بعد بھی نماز پڑھیں گے لیکن میں نہیں پڑھ سکوں گا۔ تو آپ سے کہا گیا کہ اے الیاس! میں اس وقت تک تمہاری موت کو مؤخر کروں گا جب دنیا میں  کوئی بھی میرا ذکر کرنے والا نہ ہوگا یعنی قیامت تک۔(تفسیر قرطبی، جلد 15، صفحہ 103، مطبوعہ: کوئٹہ)

   جبکہ حضرت خضر علیہ السلام کی درازی عمر کا سبب تفاسیر میں یہ لکھا ہے کہ آپ نے آبِ حیات پی لیا  ہے۔ چنانچہ صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”ذوالقرنین نے کتابوں میں دیکھا تھا کہ اولادِ سام میں سے ایک شخص چشمہ حیات سے پانی پئے گا اور اس کو موت نہ آئے گی ، یہ دیکھ کر وہ چشمہ حیات کی طلب میں مغرب و مشرق کی طرف روانہ ہوئے  اور آپ کے ساتھ حضرت  خضر بھی تھے وہ تو چشمہ حیات تک پہنچ گئے اور انہوں نے پی بھی لیا  مگر ذوالقرنین کے مقدر میں نہ تھا انہوں نے نہ پایا۔“(خزائن العرفان، پارہ 16، سورۃ الکہف ، زیر آیت 86)

   اسی طرح حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدنا خضر علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں: ”جمہور علماء  کا یہی قول ہے کہ آپ اب بھی زندہ ہیں  اور قیامت تک زندہ رہیں گے کیونکہ آپ نے آبِ حیات پی لیا ہے۔“(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، صفحہ 161، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم