Lawatat Ko Jaiz Samjhne Wale Ka Hukum

لواطت کو جائز سمجھنے والے کا حکم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2565

تاریخ اجراء: 01رمضان المبارک1445 ھ/12مارچ2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کوئی شخص لواطت کو جائز بلکہ ثواب کا کام سمجھے تو اس کے بارے میں کیا حکم  ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   لواطت خبیث ترین عمل  اورحرام ِ قطعی و گناہ کبیرہ ہے ،کوئی  سلیم الفطرت شخص  اس گھناؤنے اور غلیظ کام  کو نہ جائز کہہ سکتا ہے نہ ہی معاذ اللہ   پسند کرسکتا ہے ، اور جو شخص معاذ اللہ اس  کوجائزسمجھے وہ کافرہے ۔

   لواطت کی مذمت بیان کرتے ہوئے رب تبارک  وتعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ترجمہ کنزالایمان :اور لوط کو بھیجا جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی؟‘‘(پارہ 08، سورہ اعراف ، آیت 80)                    

   حضرت ملا  علی قاری رحمہ اللہ منح الروض میں فرماتے ہیں :”من انکر حرمۃ الحرام المجمع علی حرمتہ او شک فیھا، ای یستوی الامر فیھا کالخمر والزنا واللواطۃ والربا…كفر “ترجمہ:جس نے حرامِ اجماعی کی حرمت کا انکار کیا یا اُس کے حرام ہونے میں شک کیا ،وہ کافر ہے، جیسے شراب، زنا، لواطت، سود۔“(منح الروض، صفحہ503، دار البشار الاسلامیۃ،بیروت)

   لواطت کے حلال ہونے کے قائل کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے  :”حِل لواطت کا قائل کافر ہے۔ “(فتاوی رضویہ،ج23،ص694، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم