Mazhabi Azaadi Ka Nazriya Shariat Aur Aqal Ki Roshni Mein

مذہبی آزادی کا نظریہ شریعت و عقل کی روشنی میں

مجیب:ابو احمد محمد انس رضا عطاری

مصدق:مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Lhr-12902

تاریخ اجراء:19 ذوالقعدہ  1445ھ/28مئی 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے  کے بارےمیں کہ زید بین المذاہب ہم آہنگی کے تحت  مندرجہ ذیل نظریات رکھتا ہے:

   ٭ہر انسان کو آزادی فکر، آزادی ضمیر اور آزادی مذہب کا پورا حق ہے۔ اس حق میں مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرنے اور پبلک میں یا نجی طور پر،تنہا یا دوسروں کے ساتھ مل  جُل کر عقیدے کی تبلیغ ، عمل، عبادت اور مذہبی رسمیں پوری کرنے کی آزادی بھی شامل ہے۔

   ٭ اپنے ذاتی عقائد رکھنا، اپنا ذاتی مذہب رکھنا، کوئی بھی مذہب نہ رکھنا ، یا مذہب کو تبدیل کرلینا  ہم سب کا حق ہے۔

   ٭وہ مذہبی، غیر مذہبی اور لا مذہبی تمام اعتقادات کی حفاظت کو ضروری سمجھتا ہے،نیز اُن لوگوں کی حفاظت کو بھی ضروری جانتاہے،  جو کسی قسم کا یقین یا عقیدہ نہیں رکھتے۔

   ٭ وہ سوچ و فکر ،فہم واِدراک ، مذہب  اور عقیدے کی آزادی  کو  تحفظ فراہم کرنے  کا اور اس بات کو یقینی بنانے کا عہد کرچکا ہے کہ ہر انسان کسی بھی قسم کے جُرمانے /ہرجانے یا ظلم کے خوف سے آزاد ہو کر اپنے عقائد کو تبدیل کر سکےیا اگر چاہے تو کوئی عقیدہ نہ رکھے (یعنی دہریہ/ملحد ہوجائے)۔

   ٭ وہ عہد کرچکاہےکہ 'مذہب و عقیدے کے انتخاب کی آزادی ' کا دفاع کرنے والوں کی حمایت کے لیے بھرپور آواز اٹھائے گا، مذہب اور عقیدے کے حوالے سےبا اثرافراد/رہنماؤں کو اپنے ساتھ شامل کرےگا، مستقبل کی باگ ڈور سنبھالنے والوں بالخصوص نوجوانوں کو (مذہب و عقیدے کے انتخاب کی آزادی سے) متاثر کرے گا اور اس پر  منظم عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے   عالمی سطح پر کئی  مختلف اتحاد/شراکت داریاں قائم کرے گا۔ 

   ٭ وہ عہد کرچکا ہے کہ ایسی ہر قسم کی حق تلفی یا ظلم کے خلاف جنگ کرےگا جو نوجوانوں کو ' مذہب و عقیدے کے انتخاب کی آزادی  ' سے روکتا ہو۔

   ٭ وہ عہد کرچکا ہے کہ آن لائن بھی انسانی حقوق کی حفاظت کرے گا اور 'مذہب و عقیدے کے انتخاب کی آزادی ' بھی اس میں شامل ہوگی تاکہ ہر فرد وہ  مذہب منتخب کر سکےجو آن لائن (انٹرنیٹ کی) دنیا  پیش کرتی ہے اور جس کو  فرد  اپنے لیے مثبت و فائدہ مند جانتا  ہو۔

   زید کے ان نظریات پر اسلام کیا کہتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیان کردہ زید کے نظریات بالکل باطل ہیں اور  ان عقائد کا بطلان عقلی اور نقلی دونوں اعتبار سے ہے۔ایسے نظریات رکھنے والا اگرخود کو مسلمان  کہلوانے والا ہو، تو وہ مسلمان نہ  رہے گا۔زید کے جو عہد بیان کیے گئے ہیں یہ کوئی اچھائی نہیں، بلکہ  برائی کی دعوت اور بُرے کاموں میں معاونت کے ساتھ ساتھ بغاوت ہے اور زید ایک باغی شخص ہے۔

   اللہ عزوجل نے واضح طور پر قرآن پاک میں دیگر اَدیان کو باطل قرار دیتے ہوئے اسلام کو حق مذہب قرار دیا ہے،چنانچہ اللہ عزوجل فرماتا ہے﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلاَمُترجمہ کنزالایمان:’’بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے ۔‘‘(سورہ آل عمران ،آیت19)

   دین اسلام ایک مکمل دین ہے،جس میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو ایک کامل دین میں ہونی چاہییں،اب دیگر اَدیان کو نہ اچھاسمجھنے کی اجازت ہے اور نہ ہی ان میں کوئی ایسی اچھائی ہے، جو اسلام میں نہیں ۔اللہ عزوجل فرماتا ہے﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلامَ دِیْنًاترجمہ کنزالایمان:’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا ۔‘‘ (سورة المائدہ ،آیت3)

   اب خود کو مسلمان کہلوانے والاکسی دوسرے دین کی طرف جھکے ،وہ دوزخ میں جائے گا۔اللہ عزوجل فرماتاہے:﴿وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَترجمہ کنزالایمان:’’اور جو اسلام کے سوا کوئی دین چاہے گا، وہ ہر گز اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں زیاں کاروں سے۔‘‘(سورہ آل عمران، آیت85)

   کثیر احادیث میں مشرکین سے مشابہت کرنے،شرک کرنے سے منع کیا اوردیگر مذاہب کے بارے میں یہ عقیدہ دیا کہ وہ ان میں جانے کو ایسا ناپسند کرے جیسے آگ میں جانے کو ناپسند کرتا ہے، چنانچہ بخاری و مسلم کی حدیث پاک ہے:وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ،ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ: مَنْ كَانَ اللہُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلّٰہِ  وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَهُ اللہُ مِنْهُ كَمَا يكره أَن يلقى فِي النَّار ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا کہ جس میں تین خصلتیں ہوں وہ ایمان کی لذت پالے گا:اﷲعزوجل اور رسول  علیہ السلام تمام چیزوں سے زیادہ پیارے ہوں؛جوبندے سے صرف اﷲتعالیٰ کے لیے محبت کرے؛جو کفر میں لوٹ جانا جبکہ رب نے اس سے بچالیا ایسا بُرا جانے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔(صحیح البخاری،کتاب الایمان ،باب: من کرہ أن یعود فی الکفر کما یکرہ أن یلقی فی النار من الإیمان، جلد1،صفحہ13،حدیث21،دار طوق النجاة،مصر)(صحیح المسلم،کتاب الایمان،باب بیان خصال من اتصف بھن وجد حلاوة الإیمان،جلد1،صفحہ66،حدیث 67،دار إحیاء التراث العربی ،بیروت)

   یہ بات یاد رہے کہ عقائد میں انسان کو انتخاب(Choice) نہیں دیا گیا کہ جو مرضی عقیدہ اپنا لو یا دین کو ترک کر کے مُلْحِد بن جاؤ  اور اسے اپنی آزادی جانو،بلکہ ہر انسان پر لازم قرار دیا گیا کہ وہ مذہب اسلام کو اپنائے اوردیگر مذاہب کو باطل جانے۔

   جو شخص دین اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کرے یا بے دین ملحد ہوجائے،تو شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا قتل ہے۔سنن نسائی کی حدیث پاک ہے :عن انس ان علیا اتی بناس من الزط یعبدون وثناً فاحرقھم، فقال ابن عباس انما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من بدل دینہ فاقتلوہ “ترجمہ: حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت علی کے پاس زط (ایک علاقے) کے کچھ لوگ لائے گئے جو (اسلام لانے کے بعد) بتوں کی پوجا کرتے تھے، آپ نے ان کو آگ میں جلادیا۔اس پر حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجائے، اس کو قتل کردو۔(سنن نسائی،الحکم فی المرتد،جلد7،صفحہ105، مكتب المطبوعات الإسلاميہ، حلب)

     موطا امام مالک میں ہے:” عن زید بن اسلم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من غیّر دینہ فاضربوا عنقہ“ترجمہ: حضرت زید بن اسلم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اسلام چھوڑ کر دوسرا دین اپنائے، اس کی گردن کاٹ دو۔(موطا امام مالک، القضاء في من ارتد عن الإسلام ،جلد4،صفحہ1065، مؤسسة زايد بن سلطان آل نهيان للأعمال الخيرية والإنسانية ، أبو ظبي)

   زید اور اس جیسے لوگوں کا شبہ:

   عام طور پر زید جیسے آزاد خیال اور اسلام دشمن عناصر، ملاحدہ اور زنادقہ سیدھے سادھے مسلمانوں اور سادہ لوح انسانوں کو ذہنی تشویش اور شکوک و شبہات میں مبتلاکرنے اور انہیں اسلام سے برگشتہ کرنے کےلیےیہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ سوچنے کی بات ہے کہ ایک انسان اپنا آبائی مذہب تبدیل کرنے پر کیوں مجبور ہوتا ہے؟ یقیناً اس کو اپنے دین ومذہب میں کوئی کمی کوتاہی یا نقص نظر آیا ہوگا، جبھی تو وہ اس انتہائی اقدام پر مجبور ہوا ہے؟ لہٰذا جب کوئی شخص غور و فکر کے بعد اسلام کو اپنا سکتا ہے، تو دلائل و براہین کی روشنی میں وہ اس کو چھوڑنے کا حق بھی رکھتا ہے، پس اس کی تبدیلیٴ مذہب پر قدغن کیوں لگائی جاتی ہے؟

   شبہ کا جواب:

   بظاہر یہ سوال معقول نظر آتا ہے، جبکہ حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں، چنانچہ اگراس پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ارتداد کی وجہ اسلام میں کسی قسم کا نقص یا کمی کوتاہی نہیں ہے؛ بلکہ اس کے پیچھے اسلام دشمنوں کی ایک منظم سازش ہے، اور وہ یہ کہ اسلام دشمنوں کی روزِ اوّل سے یہ سعی و کوشش رہی ہے کہ کسی طرح حق کے متلاشیوں کو صراط مستقیم سےپھسلاکر ضلال و گمراہی کے گہرے غاروں میں دھکیل دیا جائے، چنانچہ شروع میں تو انھوں نے کُھل کر اپنے اس مشن کو نبھانے کی کوشش کی، مگر جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی بن کر دنیا میں تشریف لائے، تو آپ  کے نور نبوت کے   سامنے باطل نہ ٹھہرسکا، تو ائمہ کفر و ضلال نے نفاق  کی چادر اوڑھ کر اس کے خلاف زیرِ زمین سازشوں کا جال بُننا شروع کردیا،چنانچہ صبح کو وہ اپنے آپ کو مسلمان باور کراتے تو شام کو اسلام سے بیزاری کا ڈھونگ رچاکر مسلمانوں کو اسلام سے بدظن کرنے کی سازش کرتے ،جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:﴿ وَقَالَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنْ اَہۡلِ الْکِتٰبِ اٰمِنُوۡا بِالَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَجْہَ النَّہَارِ وَاکْفُرُوۡۤا اٰخِرَہٗ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوۡنَترجمہ کنز الایمان:’’اور کتابیوں کا ایک گروہ بولا  وہ جو ایمان والوں پر اترا  صبح کو اس پر ایمان لاؤ اور شام کو منکر ہوجاؤ شاید وہ پھرجائیں۔‘‘(سورہ آل عمران ،آیت72)

   گویا وہ یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ اگراسلام میں کوئی کشش یا صداقت ہوتی تو سوچ سمجھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے اس سے باہر کیوں آتے؟ یقینا جو لوگ اسلام قبول کرنے کے بعد اسے خیرباد کہہ رہے ہیں، انہوں نے ضرور اس میں کوئی کمی، کجی یا کمزوری دیکھی ہوگی؟

   حالانکہ جن لوگوں نے اسلامی احکام وآداب کا مطالعہ اور غور و فکر کرکے اسے قبول کیا اور نبی امی حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلمکی دعوت پر لبیک کہا، تاریخ  گواہ ہے کہ ان میں سے کبھی کسی نے اس سے بیزاری تو کیا اس پر سوچا بھی نہیں،جیساکہ صحیح بخاری کی حدیث ”ہرقل“ میں حضرت ابوسفیان اور ہرقل کے مکالمہ میں اس کی وضاحت و صراحت موجود ہے، چنانچہ جب ہرقل نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کا والانامہ ملنے پر ابوسفیان سے، جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے حریف تھے، یہ پوچھا کہ:’’ھل یرتد احد منھم عن دینہ بعد ان یدخل فیہ سخطةً لہ؟ قال: لا“ترجمہ: ہرقل نے ابوسفیان سے پوچھا کہ کیا اسلام قبول کرنے والوں میں سے کوئی اس کو ناپسند کرکے یا اس سے ناراض ہوکر مرتد بھی ہوا ہے؟ ابوسفیان نے کہا: نہیں۔

   پھر اسی حدیث کے آخر میں ہرقل نے اپنے ایک ایک سوال اور ابوسفیان کے جوابات کی روشنی میں اس کی وضاحت کی کہ میں اپنے سوالوں اور آپ کے جوابات کی روشنی میں، جن نتائج پر پہنچا ہوں، وہ یہ  ہیںوسائلتک ھل یرتد احد منھم عن دینہ بعد ان یدخل فیہ سخطة، فزعمت ان لا، وکذلک الایمان اذا خالط بشاشة القلوب“ترجمہ: اور میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ کیا اسلام قبول کرنے والوں میں سے کوئی شخص اسلام سے ناراض ہوکر یا اس سے متنفر ہوکر کبھی مرتد ہوا ہے؟ تو آپ نے کہا تھا کہ ایسا نہیں ہوا، تو سنو! یوں ہی ہے کہ شرح صدر کے ساتھ جب ایمان کسی کے دل میں اترجاتا ہے ،تو نکلا نہیں کرتا۔ (صحیح البخاری، كيف كان بدء الوحي إلى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم؟ ، جلد1،صفحہ8،دارطوق النجاہ،مصر)

   چونکہ اسلام جبر و تشدد کا مذہب نہیں اور نہ ہی کسی کو جبراً و قہراً اسلام میں داخل کیا جاتا ہے۔جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:﴿ لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ ﳜ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ترجمہ کنزالایمان:’’کچھ زبردستی نہیں  دین میں بے شک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمراہی سے۔‘‘  (سورۃ البقرہ، آیت 256)

   لیکن اس کا یہ معنیٰ بھی نہیں کہ جو شخص برضا و رغبت اسلام میں داخل ہوجائے اور اسلام قبول کرلے، اسے مرتد ہونے کی بھی اجازت دے دی جائے، یہ بالکل ایسے ہے جیسے ابتداءً فوج میں بھرتی ہونے کے لیے کوئی جبر اور زبردستی نہیں کی جاتی، لیکن اگر کوئی شخص اپنی رضا و رغبت سے فوج میں بھرتی ہوجائے، تو اب اسے اپنی مرضی سے فوج سے نکلنے یا  دشمن ملک کا فوجی  بننے کا اختیار نہیں ہوتا۔ اگر فوج کا یہ قانون جائز ہے ،تو اسلام کا یہ دستور کیونکر جائز نہیں؟

   اس کے علاوہ عقل و شعور کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جو شخص اپنی مرضی اور رضا ورغبت سے اسلام میں داخل ہوجائے اسے اسلام سے برگشتگی اور مرتد ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے، کیونکہ بالفرض اگر نعوذ باللہ! کسی کو اسلام یا اسلامی تعلیمات میں کوئی شک و شبہ تھا، تو اس نے اسلام قبول ہی کیوں کیا تھا؟ لہٰذا ایسا شخص جو اپنی مرضی اور رضا و رغبت سے اسلام میں داخل ہوچکا ہے، اب اسے مرتد ہونے کی اس لیے اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اسلام چھوڑ کر نہ صرف اپنے دین و مذہب کو بدلتا ہے، بلکہ اس قبیح اور بدترین فعل کے ذریعہ وہ دین و شریعت، اسلامی تعلیمات، اسلامی معاشرہ کو داغ دار کرنے، اسلامی تعلیمات کومطعون و بدنام کرنے اور نئے مسلمان ہونے والوں کی راہ روکنے کی بدترین سازش کا مرتکب ہوا ہے، اس لیے اسلام قبول کرنے سے پہلے اس کی مثال کھلے کافر کی تھی، لیکن اب اس کی حیثیت اسلام کے باغی کی ہے، اور دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ جو شخص کسی ملک کا شہری نہ ہو اور وہ اس ملک کے قوانین کو تسلیم نہ کرے تو اسے اس پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، لیکن جب کوئی شخص کسی ملک کی شہریت اپنالے تو اسے اس ملک کے شہری قوانین کا پابند کیا جائے گا، چنانچہ اگرکوئی خودسر کسی ملک کی شہریت کا دعویدار بھی ہو اور اس کے احکام و قوانین اور اصول و ضوابط کے خلاف اعلانِ بغاوت بھی کرے تو اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔برطانوی قانون کے مطابق کوئی شخص خواہ پیدائشی رعایا ئے برطانیہ ہو یا باختیارِ خود برطانوی رعایا میں داخل ہو ا ہو،ازروئے قانون یہ حق نہیں رکھتا کہ مملکت برطانیہ کی حدود میں رہتے ہوئے کسی دوسری قومیت کو اختیار کر لے اور اس کی مخالف کسی دوسری اسٹیٹ کی وفاداری کا حلف اٹھائے ۔یہ حق اسے صرف اس صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جبکہ وہ برطانوی حدود سے باہر مقیم ہو۔نیز  برطانوی حدود سے باہر مقیم ہونے کی صورت میں بھی رعایا ئے برطانیہ کا کوئی فرد (خواہ وہ پیدائشی رعیت ہو یا رعیت بن گیا ہو)یہ حق نہیں رکھتا کہ حالتِ جنگ میں برطانوی قومیت ترک کرکے کسی ایسی قوم کی قومیت اور کسی ایسی اسٹیٹ کی وفاداری اختیار کرلے جو شاہِ برطانیہ سے برسرِ جنگ ہو۔یہ فعل برطانوی قانون کی رو سے غدرِ کبیرہے جس کی سزا موت ہے۔

   یونہی برطانوی رعایا میں سے جو شخص بھی برطانوی حدود کے اندر یا باہر رہتے ہوئے بادشاہ کے دشمنوں سے تعلق رکھے اور ان کو مدد اور آسائش بہم پہنچائے یا کوئی ایسا فعل کرے جو بادشاہ کے دشمنوں کو تقویت پہنچانے والا یا بادشاہ اور ملک کی قوتِ حملہ و مدافعت کو کمزور کرنے والا ہو وہ بھی غدرِ کبیر کا مرتکب ہے اور اس کی سزا بھی موت ہے۔

   یہ بھی قانون ہے کہ بادشاہ ،ملکہ یا ولی عہد کی موت کے درپے ہونا یا اس کا تصور کرنا،بادشاہ کی رفیقہ یا اس کی بڑی بیٹی یا ولی عہد کی بیوی کو بے حرمت کرنا،بادشاہ کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرنا یا نشانہ تاکنا یا ہتھیار اس کے سامنے لانا جس سے مقصود اس کو نقصان پہنچانا یا خوفزدہ کرنا ہو۔اسٹیٹ کے مذہب کو تبدیل کرنے یا اسٹیٹ کے قوانین کو منسوخ کرنے کے لئے قوت استعمال کرنا،یہ سب افعال بھی غدرِ کبیر ہیں اور ان کا مرتکب بھی سزائے موت کا مستحق ہے۔

   امریکہ میں بھی   کسی پیدائشی شہری کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ امریکہ کی حدود میں کسی دوسری قومیت کو اختیار کرے اور کسی دوسری اسٹیٹ کی وفاداری کا حلف اٹھائے۔ دنیا کے جس ملک کا بھی قانون آپ اٹھا کر دیکھیں گے وہاں آپ کو یہی اصول کام کرتا نظر آئےگا  کہ ایک اسٹیٹ جن عناصر کے اجتماع سے تعمیرہوتی ہے ،وہ ان کو بزور منتشر ہونے سے روکتے ہیں اور ہر اس چیز کو طاقت سے دباتے ہیں جو اس کے نظام کو درہم برہم کرنے کا رجحان رکھتی ہو۔

   لہٰذا اگر کوئی شخص کسی ملک، اس کے قوانین و ضوابط یا کسی ملک کے سربراہ سے بغاوت کی پاداش میں سزائے موت کا مستحق ہے، تو کیا وجہ ہے کہ اسلام، اسلامی قوانین اور پیغمبر اسلام سے بغاوت کا مرتکب سزائے موت کا مستحق نہ ہو؟

   اگر امریکہ کے صدر کا باغی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے اوراس کی سازش پکڑی جائے تواس کی سزا موت ہے اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں، روس کی حکومت کا تختہ الٹنے والا پکڑاجائے ،تو اس کی سزا موت ہے اور اس پر دنیا کے کسی مہذب قانون اور کسی مہذب عدالت کو کوئی اعتراض نہیں، لیکن تعجب ہے کہ محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی پر اگر سزائے موت جاری کی جائے، تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ سزا نہیں ہونی چاہیے، اسلام تو باغی مرتد کو پھر بھی رعایت دیتا ہے کہ اسے تین دن کی مہلت دی جائے، اس کے شبہات دور کیے جائیں اور کوشش کی جائے کہ وہ دوبارہ مسلمان ہوجائے، معافی مانگ لے تو کوئی بات نہیں، اس کو معاف کردیا جائے گا، لیکن اگر تین دن کی مہلت اور کوشش کے بعد بھی وہ اپنے ارتداد پر اَڑا رہے، توبہ نہ کرے تو اللہ کی زمین کواس کے وجود سے پاک کردیا جائے، کیونکہ یہ ناسور ہے، خدانخواستہ کسی کے ہاتھ میں ناسور ہوجائے تو ڈاکٹر اس کاہاتھ کاٹ دیتے ہیں، اگر انگلی میں ناسور ہوجائے تو انگلی کاٹ دیتے ہیں اور سب دنیاجانتی ہے کہ یہ ظلم نہیں، بلکہ شفقت ہے، کیونکہ اگر ناسور کو نہ کاٹا گیا تو اس کا زہر پورے بدن میں سرایت کرجائے گا، جس سے موت یقینی ہے، پس جس طرح پورے بدن کو ناسور کے زہر سے بچانے کے لیے ناسور کو کاٹ دینا ضروری ہے اور یہی دانائی اور عقلمندی ہے، اسی طرح ارتداد بھی ملت اسلامیہ کے لیے ایک ناسور ہے، اگر مرتد کو توبہ کی تلقین کی گئی، اس کے باوجود اس نے اسلام میں دوبارہ آنے کو پسند نہیں کیا تو اس کا وجود ختم کردینا ضروری ہے، ورنہ اس کا زہر رفتہ رفتہ ملت اسلامیہ کے پورے بدن میں سرایت کرجائے گا۔

   مذہبی آزادی کی قباحت اس طو ر پر بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ ایک ملک میں  ایک ہی قانون چلتا ہے،اگر کوئی اس رائج قانون کے خلاف دوسرا اپنا بنایا ہوا یا مختلف ممالک کے قوانین کو اکٹھا کرکے ایک نیا قانون بنا کر لوگوں میں اس کی دعوت دے اور اس کے مطابق فیصلے کرنا شروع ہوجائے،تو قانون و حکومت اس کو باغی قرار دے کر اسے سزا دے گی، کیونکہ اس سے ملک کا امن برباد ہوجائے گا۔ یونہی ایک اسلامی معاشرے میں دیگر مذاہب کو عام کرنا اور دین کو ایک  مکس مربے کی شکل میں بنانے کی کوشش کرنا انتہائی حماقت ہے۔

   ایک اور شبہ:

   زید جیسے لوگ یہ شبہ بھی ڈالتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ اور اسی طرح دیگر کفار مذہب کی تبدیلی پر کوئی سزا نہیں دیتے، تو اسلام میں اتنی سختی کیوں ہے؟

   شبہ کا  جواب:

   یہودی، عیسائی یا دوسرے مذاہب کے لوگ اپنا مذہب بدلیں،تو ان پر سزائے ارتداد کیوں جاری نہیں کی جاتی؟ اصولی طور پر ہم اس سوال کاجواب دینے کے مکلف نہیں ہیں؛بلکہ ان مذاہب کے ذمہ داروں، بلکہ ٹھیکے داروں کا فرض ہے کہ وہ اس کا جواب دیں۔

   تاہم قطع نظر اس کے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ طرزِ عمل صحیح ہے یا غلط؟ اتنی بات تو سب کو معلوم ہے کہ دنیائے عیسائیت و یہودیت اگر اپنے مذہب کے معاملہ میں تنگ نظر نہ ہوتی تو آج دنیا بھر کے مسلمان اور امت مسلمہ ان کے ظلم و تشدد کا نشانہ کیوں ہوتے؟

   اس سے ذرا اور آگے بڑھیے تو اندازہ ہوگا کہ انبیائے بنی اسرائیل کا قتلِ ناحق ان کی اسی تنگ نظری کا شاخسانہ اور تشددپسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے، ورنہ بتلایاجائے کہ حضراتِ انبیائے کرام کا اس کے علاوہ کون سا جرم تھا؟ اسی طرح یہودیوں اور عیسائیوں پر فرض ہے کہ وہ بتلائیں کہ حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام کو کیوں  شہید کیاگیا؟ ان معصوموں کا کیا جرم تھا؟ اور کس جرم کی پاداش میں ان کا پاکیزہ اور مقدس لہو بہایاگیا؟

   اس کے علاوہ یہ بھی بتلایاجائے کہ حضرت عیسیٰ روح اللہ کے قتل اور ان کے سولی پر چڑھائے جانے کے منصوبے کیوں بنائے گئے؟

   مسلمانوں کو تنگ نظر اور سزائے ارتداد کو ظلم کہنے والے پہلے ذرا اپنے دامن سے حضراتِ انبیائے کرام علیہم السلام اور لاکھوں مسلمانوں کے خونِ ناحق کے دھبے صاف کریں اور پھر مسلمانوں سے بات کریں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم