Musalman Hone Ke Baad Apni Marzi Se Kisi Islami Hukum Ko Chorna

کیا مسلمان ہونے کے بعد اپنی مرضی سے کسی اسلامی حکم کو چھوڑ سکتے ہیں ؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-8641

تاریخ اجراء:08جمادی الاولیٰ 1445ھ/23 نومبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ لبرل لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کے بعد  اسلام کے سارے  احکام کو اپنانا ضروری نہیں ،جس میں انسان اپنے لیے تنگی محسوس کرے ، اسے چھوڑ بھی سکتا ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ﴿ لَاۤ اِکْرَاہَ فِی الدِّیۡنِ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کائنات میں انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ایمان ہے ،اس سے بڑھ کر کوئی دوسری نعمت اور دولت  نہیں،اسلام کا معنیٰ سر تسلیم خم کر لینا ہے،مسلمان کو مسلمان اسی  لئے کہتے ہیں کہ یہ اپنی خواہشات و جذبات  سب سے بڑھ کر اپنے عقائد ونظریات کو ایک خدا کے سامنے  جھکا دیتا  ہے اور جو شخص  مسلمان ہو جاتا ہے ، وہ حقیقت میں اپنی جان  ومال کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ  میں جنت کے بدلے بیچ دیتا ہے اور اپنی جان و مال  پر اللہ تعالیٰ کا ہی حکم نافذ کرتا ہے ، تو اپنی جان ومال  کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے کے بعد اس پر  اللہ تعالیٰ کے حکم کے مخالف ،اپنا حکم چلانا صریح بغاوت ہے۔ اللہ و رسول عزو جل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  کے حکم بعد مسلمان کو مخالفت کا کوئی اختیار نہیں رہتا ،اس پر  تمام احکام  شریعت کو تسلیم کرنا اور ان پر عمل کرنا لازم قرار پاتا ہے ، کسی ایک حکم کی بھی خلاف ورزی  کرنے  کی اجازت نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام میں پورے کے پورے داخل  ہونے کا ارشاد فرمایا یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ بندہ تھوڑا سا مسلمان ہو اور تھوڑا سا کافر  ہویا تھوڑا سا فرمانبردار ہو اور تھوڑاسا نافرمان ۔ جہاں دل چاہا فرمانبردار بن گئے اور جہاں دل چاہا نافرمان بن گئے  ۔ یہ تو یہودیوں کا طریقہ ہے اور ایسا کرنے والوں کو  اللہ تعالیٰ نے دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے اور دینی احکام میں دل میں تنگی محسوس کرنا منافقت کی علامت قرار دیا ہے۔

   لہٰذا یہ کہنا کہ”مسلمان کو جو آسان لگے کر لے اور جو مشکل لگے اسے چھوڑدے“ واضح طور پر غلط ہے۔ ایسا نظریہ رکھنے والا  اللہ  ور سول عزوجل  و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے احکامات سے جاہل ہے ۔ مسلمان اللہ  و رسول عزو جل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام احکامات پر ایمان لا  کر عمل کرنے والا ہوتاہے اور دینی احکام  پر  عمل کرنے  میں دل میں تنگی محسوس نہیں کرتا  اور احکام خداوندی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے کو  ہی اللہ تعالیٰ نے کامیاب قرار دیا ہے۔

   ایمان والوں نے اپنی جان ومال کو  جنت کے عوض اللہ تعالیٰ کو بیچ دیا ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَترجمہ کنز العرفان: بیشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے کہ ان کے لیے جنت ہے۔ (القرآن،پارہ 11،سورۃ التوبۃ،آیت111)

   مسلمان  ہونے کے بعد کسی بھی مسلمان کو اللہ و رسول عز وجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فیصلے کے خلاف ،کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں  ، جیسا کہ اللہ  تبارک وتعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ     ؕوَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاترجمہ کنزالعرفان:اور کسی مسلمان مرد اور عورت کیلئے یہ نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ فرما دیں تو انہیں اپنے معاملے کا کچھ اختیار باقی رہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کاحکم نہ مانے تووہ بیشک صر یح گمراہی میں بھٹک گیا۔(القرآن،پارہ 22،سورۃ الاحزاب،آیت36)

   مسلمان  پر مکمل اسلام کے احکامات ماننا ضروری ہے،جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً    ۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔(القرآن،پارہ 2،سورۃ البقرۃ،آیت208)

   ایمان و الوں کا طرز عمل یہ ہے  ، جو اللہ و رسول  عزو جل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حکم ملے تو اسے قبول کرتے ہیں  اور بِلا چون و چرا  عمل کرتے ہیں ، جیسا کہ  اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:﴿اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَی اللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیۡنَہُمْ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَترجمہ کنزُالعِرفان: مسلمانوں کی بات تو یہی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ رسول ان کے درمیان فیصلہ فرمادے تو وہ عرض کریں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی او ریہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔“(القرآن،پارہ 18،سورۃ النور،آیت51)

   مذکورہ  آیت کے تحت مشہور زمانہ تفسیرتفسیر صراط الجنان “میں ہے:”﴿اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیۡنَمسلمانوں کی بات تو یہی ہے۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو شریعت کا ادب سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو ایسا ہونا چاہئے کہ جب انہیں اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف بلایا جائے،تا کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے درمیان اللّٰہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے احکامات کے مطابق فیصلہ فرمادیں ، تو وہ عرض کریں کہ ہم نے بُلاوا سُنا اور اسے قبول کر کے اطاعت کی او رجو ان صفات کے حامل ہیں ، وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔

   اس سے معلوم ہوا کہ سید المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کے سامنے اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے جائیں اور نہ ہی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں صرف اپنی عقل کو معیار بنایا جائے ، بلکہ جس طرح ایک مریض اپنے آپ کو ڈاکٹر کے سپرد کر دیتا ہے اور اس کی دی ہوئی دوائی کو چون وچرا کئے بغیر استعمال کرتا ہے اسی طرح خود کوحضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حوالے کر دینا اور آپ کے ہر حکم کے سامنے سر ِتسلیم خم کر دینا چاہئے ، کیونکہ ہماری عقلیں ناقص ہیں اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عقلِ مبارک وحی کے نور سے روشن اور کائنات کی کامل ترین عقل ہے۔ اگر اس پر عمل ہو گیا تو پھر دین و دنیا میں کامیابی نصیب ہو گی۔“(تفسیر صراط الجنان،ج6،ص654 ، 655،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   شریعت کے بعض احکام کو ماننا اور بعض کو تر ک کرنا  یہودیوں کا طریقہ ہے اور ایسا کرنا دنیاو آخرت میں رسوائی کا سبب ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے  یہودیوں  کے بارے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:﴿اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍۚ-فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا     ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُرَدُّوْنَ اِلٰۤى اَشَدِّ الْعَذَابِ   ؕوَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَترجمہ: کنزالعرفان:تو کیا تم اللہ کے بعض احکامات کو مانتے ہو اور بعض سے انکار کرتے ہو؟ تو جو تم میں ایسا کرے اس کا بدلہ دنیوی زندگی میں ذلت و رسوائی کے سوا اور کیا ہے اور قیامت کے دن انہیں شدید ترین عذاب کی طرف لوٹایا جائے گا اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ۔(القرآن،پارہ 1،سورۃ البقرۃ،آیت85)

   مذکورہ  آیت کے تحت مشہور زمانہ تفسیرتفسیر صراط الجنان “میں ہے:”بنی اسرائیل کا عملی ایمان ناقص تھا کہ کچھ حصے پر عمل کرتے تھے اور کچھ پر نہیں اور اس پر فرمایا گیا کہ کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر ایمان رکھتے ہواور کچھ سے انکار کرتے ہو۔ اس آیت سے معلوم ہواکہ شریعت کے تمام احکام پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور تمام ضروری احکام پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔کوئی شخص کسی وقت بھی شریعت کی پابندی سے آزاد نہیں ہوسکتا اورخود کو طریقت کا نام لے کر یا کسی بھی طریقے سے شریعت سے آزاد کہنے والے کافر ہیں۔“(تفسیر صراط الجنان،ج1،ص162،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اسلام کا معنی ٰ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :” احکام الٰہی میں چون وچرا نہیں کرتے، الاسلام گردن نہادن نہ کہ زبان بجرأت کشادن(اسلام، سر تسلیم خم کرنا ہے نہ کہ دلیری سے لب کشائی کرنا۔ت) بہت احکام الٰہیہ تعبدی ہوتےہیں اور جو معقول المعنی ہیں ان کی حکمتیں بھی من وتو کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ صبح کو دو، مغرب کی تین، باقی کی چار چار رکعتیں کیوں ہیں؟ تعرف براءت رحم کےلئے ایک حیض کافی تھا ، تین اگر احتیاطاً رکھے گئے ، تو عدت وفات حیضوں سے بدل کر مہینے کیوں ہوئی اور ہوتی تو تین مہینے ہوتی ، جس طرح آئسہ وصغیرہ میں تین حیض کی جگہ تین مہینے قائم فرمائے ہیں ، ایک مہینہ دس دن اور زائد کیوں فرمائے گئے؟ غرض ایسے بیہودہ سوالوں کا دروازہ کھولنا علوم وبرکات کا دروازہ بند کرنا ہے، مسلمان کی شان یہ ہے:﴿سمعنا واطعنا غفرانک ربنا  والیک المصیرہم نے سنا اور اطاعت کی، تیری بخشش کے طلبگار ہیں اور تیری طرف ہی لوٹنا ہے۔“(فتاوی رضویہ،ج13،ص297 ،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   تنبیہ:سوال میں بیان کردہ آیت مبارک ﴿ لَاۤ اِکْرَاہَ فِی الدِّیۡنِسے یہ استدلال کرنا کہ” بندہ مسلمان ہونے کے بعد احکام دینیہ  میں مختار ہے  ، جس حکم  پر عمل کرنا چاہے عمل کرے اور جس حکم کو چاہے  چھوڑ دے “(یہ استدلال کرنا)  سخت ناجائزو حرام اور  جہنم میں لے جانے والا کام ہے کہ مذکورہ  آیت کا  یہ معنیٰ بیان کرنا  جو سائل نے بیان کیا ہے (یہ معنیٰ) قرآن و احادیث کے واضح  مخالف ہے  جیسا کہ اوپر بیان کردہ قرآن پاک کی آیات سے ظاہر ہے اور آیت کا یہ معنی بیان کرنا اپنی رائے اور اٹکل کے ساتھ  قرآن پاک کا معنی بیان کرنا ہے اور قرآن پاک کی  تفسیر بالرائے  کرنا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

   اس آیت مبارکہ کا درست معنیٰ و مطلب یہ ہے کہ کسی کو اسلام میں زبردستی داخل نہیں کیا جائے گا،کیونکہ دین اسلام کی صداقت کے دلائل و براہین واضح ہیں اور  راہِ حق وہدایت پوری طرح واضح ہو کر گمراہی سے الگ ہوچکی ہےکہ اب اس میں کسی قسم کا کوئی شک باقی نہیں رہا ،لہذااب  عقلمند آدمی کے لیے قبولِ حق میں تاخیر کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔ اب جس کی مرضی ایمان لائے، کہ اس میں اس کا خود اپنا ہی بھلا ہے، اور جو اس سے منہ موڑے گا تو وہ خود اپنا ہی نقصان کرے گا ۔

   لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے کچھ احکامات مان لیے جائیں اور کچھ چھوڑ دیئے جائیں، کیونکہ جب ہدایت ،گمراہی سے جدا ہوگئی ؛جب ایک دفعہ انسان نے شیطان کے راستہ کو  چھوڑکر رحمٰن کا راستہ اختیار کرلیا ، تو پھر اسی ہدایت کے راستے  پر ہی  چلنا ہوگا؛اب مسلمان کو جبراً مسلمان رکھنا ضروری  ہوگا ، کیونکہ یہ دینِ اسلام کی توہین اور دوسروں کیلئے بغاوت کا راستہ ہے ، جسے بند کرنا ضروری ہے۔

   مذکورہ  آیت کے تحت مشہور زمانہ تفسیرتفسیر صراط الجنان “میں ہے:”صفاتِ اِلہِیَّہ کے بعد ﴿ لَاۤ اِکْرَاہَ فِی الدِّیۡنِفرمانے میں یہ اشارہ ہے کہ اب عقلمند آدمی کے لیے قبولِ حق میں تاخیر کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔  کسی کافر کو جبراً مسلمان بنانا ، جائز نہیں مگر مسلمان کو جبراً مسلمان رکھنا ضروری ہے ، کیونکہ یہ دینِ اسلام کی توہین اور دوسروں کیلئے بغاوت کا راستہ ہے ، جسے بند کرنا ضروری ہے، لہٰذا کسی مسلمان کو مُرتَد ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی یا تو وہ اسلام لائے یا اسے قتل کیا جائے گا۔“(تفسیر صراط الجنان،ج1،ص385،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   اپنی رائے اور اٹکل کے ساتھ قرآن پاک کی تفسیر بیان کرنے والے کے بارے میں ترمذی شریف کی حدیث مبارک میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من قال في القرآن برأيه: فليتبوأ مقعده من النار“ترجمہ: جس نے بغیر علم قرآن کی تفسیر کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنائے۔(سنن ترمذی،باب ما جاء في الذي يفسر القرآن برأيه،ج5،ص66،دار الغرب الاسلامی،بیروت)

   قرآن کریم کی تفسیر بالرائے کرنے کے بارے میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں :”قرآن کریم کی تفسیر بالرائے اشد کبیرہ ہے۔“(فتاوی رضویہ،ج27،ص202،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم