Musalman Ke Duniya Se Jane Ke Baad Musalman Arwah Ki Aapas Mein Mulaqat

مسلمان کے دنیا سے جانے کے بعد مسلمان ارواح کی آپس میں ملاقات

مجیب: مولانا محمد بلال عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1994

تاریخ اجراء: 28صفرالمظفر1445ھ /15ستمبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   جب مسلمان  دنیا سے پردہ  فر مالیتے ہیں  تو کیا  یہ  آپس میں اپنے سے پہلے جانے والوں سے   ملاقات  کرتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں مسلمانوں کی  روحیں باہم ملاقات کرتی ہیں۔ چنانچہ

حضورنبیّ رحمت، شفیع امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ مومنین کی روحیں ایک دن کی مسافت پر ایک دوسرے سے ملتی ہیں حالانکہ ان میں سے کسی نے دوسرے کو نہیں دیکھا ہوتا۔"(مسند امام احمد  بن  حنبل،حدیث 7048،ج 11،ص 626،مؤسسة الرسالة )

   حضرت سید نا ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کائنات، شہنشاہ موجودات صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مومن کی روح قبض کی جاتی ہے تو اللہ  تعالی کے مہربان بندے اسے ایسے ملتے ہیں جیسے دنیا میں کسی خوشخبری دینے والے سے ملتے ہیں اور کہتے ہیں: ارے دیکھو! تمہارا ساتھی شدید غموں میں تھا، اب چھٹکارا پا کر پر سکون ہوا ہے۔ پھر اس روح سے پوچھتے ہیں : فلاں نے کیا کیا؟ کیا فلانی نے شادی کرلی؟ پھر ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھتے ہیں جو اس سے پہلے مر چکا ہوتا ہے ، وہ روح کہتی ہے: وہ تو مجھے سے پہلے مر گیا تھا۔ اب یہ مہربان بندے کہتے ہیں: انا للہ وانا الیه راجعون (ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھر نا) وہ نیچا دکھانے والی کی گود (یعنی جہنم) میں چلا گیا، کتنی بری گود اور کتنا برا اس کا گود والا، پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے اعمال تمہارے مرحوم رشتہ داروں کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، اگر کوئی نیک کام ہوتا ہے تو وہ خوش ہو کر کہتے ہیں: اے اللہ عزوجل! یہ تیر افضل اور تیری رحمت ہے، اس پر اپنی نعمت مکمل فرما اور حسنِ اعمال پر اس کا خاتمہ فرما۔ یونہی گناہ گار کے اعمال دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں: اے پروردگار عزو جل ! اسے ایسے اعمال کی طرف لگا دے جن سے تو راضی ہو اور وہ اسے تیری بارگاہ کے قریب کر دیں۔ (معجم الاوسط،حدیث 148،ج 1،ص 53،دار الحرمين ، القاهرة)

فوت شدگان کو سلام

   حضرت سید نا ابولبیبہ رحمہ اللہ تعالی علیہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سید نابشر بن براء بن معرور دیتی  رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی ماں بہت غمزدہ ہو گئیں اور عرض کرنے لگیں : یار سول الله صلی الله تعالی علیہ والہ وسلم ! قبیلہ بنو سلمہ میں سے آئے دن کوئی نہ کوئی شخص مرتا رہتا ہے، یہ فرمائیے کیا ارواح آپس میں ایک دوسرے کو پہچان لیتی ہیں کیونکہ میں بشر کو سلام بھیجوانا چاہتی ہوں ؟ آپ صلی اللہ تَعَالَی علیہ  و سلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے !ہاں وہ ایک دوسرے کو ایسے پہچانتی ہیں جیسے درختوں کی بلندیوں پر پرندے ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔ اس کے بعد جب بھی بنو سلمہ میں سے کوئی فوت ہونے لگتا تو حضرت سید نا بشر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ اس کے پاس پہنچ جاتیں اور کہتیں : اے فلاں ! تجھ پر سلام ہو۔ وہ سلام کا جواب دے لیتا تو آپ فرماتیں: میرے بیٹے بشر کو میر اسلام کہنا۔(المنامات لابن ابی الدنیا،حدیث 14،ص 17،مؤسسة الكتب الثقافية ، بيروت)

ارواح مؤمنین کی ملاقات

   حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو وہ ایسی چیزیں دیکھتا ہے جنہیں دیکھ کر وہ تمنا کرتا ہے کہ کاش! ابھی روح نکل جائے اور اللہ عزوجل  اس کی ملاقات پسند فرماتا ہے۔ جب مومن کی روح آسمان پر لے جائی جاتی ہے تو ارواح مؤمنین اس کے پاس جمع ہو کر اپنے جاننے والوں کے بارے میں اس سے پوچھتی ہیں، جب وہ کہتی ہے: میں فلاں کو دنیا میں (اچھے حال میں) چھوڑ آئی ہوں۔ تو وہ خوش ہوتی ہیں اور جب وہ کہتی ہے : فلاں کا تو انتقال ہو چکا ہے۔ تو ارواح کہتی ہیں: اسے ہمارے پاس نہیں لایا گیا۔(مسند بزار،حدیث 9760،ج 17،ص 154،مكتبة العلوم والحكم ، المدينة المنورة)(شرح الصدور مترجم،ص140 تا 142،شبیر برادرز،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم