Sunnat Ka Mafhoom Kya Hai? Aur Sunnat Ko Arab Culture Keh Kar Chor Dena Kaisa ?

سنت کا مفہوم کیا ہے ؟ نیز سنت کو عرب کلچر کہہ کر چھوڑ دینا کیسا ؟

مجیب: محمد احمد سلیم مدنی

مصدق : مفتی محمد قاسم عطاری     

فتوی نمبر:Fsd-8681

تاریخ اجراء: 29 جمادی الاولی 1445ھ/14 دسمبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ  علماء سنت کے نام پر عرب کلچر کو پرموٹ کرتے ہیں اور ہر بات میں کہہ دیتے ہیں کہ فلاں لباس پہنو، ایسا حلیہ بناؤ، ایسے کھاؤ، ایسے پیو، یہ سنت طریقہ ہے، تو کیا ہمیں عرب کلچر کی بجائے اپنے علاقائی کلچر کے مطابق زندگی نہیں گزارنی چاہیئے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اس سوال کے جواب میں ہم تین طرح سے گفتگو کریں گے۔

(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے کے متعلق اسلام کا حکم کیا ہے؟ اور سنت کی اہمیت کیا ہے؟

(2) سنت کا مفہوم کیا ہے اور کون کون سی چیزیں سنت ہیں؟ اور کیا داڑھی عمامے کو عرب کلچر کہہ کر یکسر رد کر دینا درست ہے؟

(3) جو لوگ علاقائی کلچر کو بنیاد بنا کر اور عرب کلچر کا نام لے کر سنتوں سے دور کرتے ہیں، ان لوگوں کا اپنا طرزِ عمل کیا ہے؟

اِن موضوعات پر بالترتیب کلام:

   (1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک کا ہر گوشہ قابلِ تقلید و لائقِ عمل ہے، جس پر عمل کر کے دنیا و آخرت میں سرخروئی حاصل کی جا سکتی ہے۔ قرآن پاک میں حکم فرمایا گیا ﴿وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ، وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾ترجمہ: اور رسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں، وہ لے لو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں، تو تم باز رہو۔ (القرآن، سورۃ الحشر، پارہ 28، آیت 7)

   لہذا جب کسی مسلمان کو اس بات کا علم ہو جائے کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام کیا ہے اور اس انداز سے کیا ہے، تو اب بطورِ مسلمان اس کا ایمانی تقاضا ہے کہ وہ اس کام کو پسند کرے اور دل و جان سے اسے کرنے کی کوشش کرے، کیونکہ قرآن پاک میں بڑے واضح الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ قرآن پاک میں ہے﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ﴾ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔(القرآن، سورۃ النساء، پارہ 5، آیت 59)

   اطاعت و اتباع نبوی کا ایک پہلو یہ ہے کہ زندگی کے تمام مسائل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقے کے مطابق عمل کیا جائے اور اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت پر عمل کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ”عليكم بسنتي“یعنی تم پر میری سنت کی اتباع لازم ہے۔(ابو داؤد، کتاب السنۃ، باب لزوم السنۃ، جلد 4، صفحہ 200، حدیث نمبر 4607، مطبوعہ لاھور)

   اور سنت سے منہ موڑنے والے کے بارے میں ارشاد فرمایا:”من رغب عن سنتي فليس مني“یعنی جس نے میری سنت سے منہ پھیرا، وہ مجھ سے نہیں۔(صحیح البخاری، کتاب النکاح، جلد 7، صفحہ 2، حدیث نمبر 5063، مطبوعہ بیروت)

   (2) عام طور پر لوگوں کے ذہن میں سنت کا معنی مفہوم واضح نہیں ہوتا، اس لیے وہ سنت کے متعلق یہ سمجھ لیتے ہیں کہ فقط کچھ غذائیں اور کچھ لباس سنت ہیں، اگر ان کو کر لیا تو ٹھیک، ورنہ کوئی مسئلہ نہیں، جبکہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔

سنت کی مختلف اقسام ہیں:

   کچھ سنتوں کا تعلق عبادات سے ہے، جیسے پانچوں نمازوں میں فرضوں کی ادائیگی سے پہلے اور بعد میں کچھ رکعات بطور سنت ادا کی جاتی ہیں اور اسی طرح نماز کے قیام، رکوع و سجود کو ادا کرنے کے طریقہ کار بھی مسنون ہیں کہ کس رکن کو کیسے ادا کیا جائے؟ اور اس میں کون سی تسبیحات پڑھی جائیں اور کتنی پڑھی جائیں؟اسی طرح حج اور دیگر عبادات کو ادا کرنے کے طریقے سنت ہوتے ہیں۔

   کچھ سنتوں کا تعلق اخلاقیات سے ہے، جیسے مسلمان سے مسکرا کر ملنا سنت ہے، معاف کرنا سنت ہے، حلم و بردباری سنت ہے، گھر والوں سے اچھا سلوک کرنا اور بچوں سے محبت سے پیش آنا وغیرہ امور سنت ہیں۔

   کچھ سنتوں کا تعلق معاشرت سے ہے، جیسے امانت داری سنت ہے، دیانت داری سنت ہے، سچ بولنا سنت ہے، اچھی بات کا حکم دینا اور بُری بات سے روکنا سنت ہے۔

   کچھ سنتیں وہ ہیں کہ جن کے کرنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حکم فرمایا اور خود سکھائی ہیں کہ ایسے کرو اور ایسے نہ کرو، مثلاً: کھانے پینے کے متعلق فرمایا کہ جب کھانا کھاؤ، تو بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ، سیدھے ہاتھ سے کھاؤ، اپنے سامنے سے کھاؤ، جب پانی پینے لگو، تو بسم اللہ پڑھ لو اور جب پی چکو، تو الحمد للہ کہا کرو، سیدھے ہاتھ سے پیو، کھڑے ہو کر نہ پیو، مشکیزے کو منہ لگا کر نہ پیو اور برتن میں سانس نہ لو، وغیرہ۔

   اوپر بیان کردہ سنت کی جتنی بھی اقسام ہیں، انہیں پڑھ کر دین کا بنیادی علم رکھنے والا بھی سمجھ لے گا کہ جن سنتوں کا تعلق عبادات سے ہے کہ کون سی نماز کیسے ادا کرنی ہے، تو کیا یہ سنتیں کسی عرب کلچر کا حصہ ہیں؟ اسی طرح جن سنتوں کا تعلق اخلاقیات سے ہے کہ مسکرا کر ملنا، معاف کرنا، اچھے انداز سے پیش آنا وغیرہ، کیا یہ سنتیں کسی مخصوص خطے والوں کے لیے ہی ہوں گی؟ کہ اُس خطے والے ہی ان پر عمل کریں گے؟ اور جن سنتوں کا تعلق معاشرت سے ہے کہ امانت، دیانت اور سچ بولنا وغیرہ، کیا یہ اُسی زمانے اور اُسی علاقے کے ساتھ خاص ہو گا؟  اسی طرح جن کاموں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہو کہ ایسے کھاؤ ایسے پیو، یہ کرو اور یہ نہ کرو، تو کیا یہ سارے احکام  خطہ عرب کے حوالے سے تھے؟ اور کیا اس فرمان پر عمل صرف عرب والے ہی کریں گے؟ تو اس کا جواب یہی ہو گا کہ نہیں اور ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ تمام سنتیں سبھی مسلمانوں کے لیے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خطے اور علاقے کی تقسیم کے بغیر ان کا حکم دیا ہے، تو پوری دنیا کے مسلمان اتباعِ رسول میں یہ کام کریں گے اور نہ تو یہ کسی مخصوص زمانے والوں کے لیے ہیں اور نہ ہی اس میں خطوں کی تقسیم کا کوئی عمل دخل ہو گا۔

   اور اسی طرح کچھ سنتیں ایسی ہیں کہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ بظاہر کسی خاص علاقے یا تہذیب کے مطابق فرمایا،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں باقاعدہ دین ہی کا حصہ قرار دیا۔ انہیں سنتوں میں سے داڑھی بڑھانا، مونچھیں چھوٹی رکھنااور مسواک بھی ہیں،بلکہ اسی میں عمامہ بھی داخل ہے۔  داڑھی کے متعلق خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ مونچھیں کم کرنا اور داڑھی بڑھانا ہمارے دین میں ہے اور ایک موقع پر داڑھی ہی کے بارے میں فرمایا کہ اس کا حکم مجھے میرے رب نے دیا ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کے حکم کو حکمِ ربی اور دینِ اسلام کا حصہ قرار دے دیا ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ دین کا حصہ اور اسلام کی نشانی ہے اور کبھی فرمایا کہ یہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والا ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ عمامے کی وجہ سے نماز کے ثواب میں زیادتی ہوتی ہے اور اسی طرح مسواک کے بارے میں فرمایا کہ مسواک کے ساتھ نماز کی فضیلت، مسواک کے بغیر پڑھی جانے والی نماز پر ستر گُنا زیادہ ہے، لہذا داڑھی، عمامہ اور مسواک اگرچہ اسلام سے قبل کسی خطے میں پہلے سے ہی رائج ہوں، مگر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بطورِ دین بیان فرما دیا، اور ان کا دین کا حصہ ہونا اور حکم الہی ہونا بیان فرما دیا، تو اب  یہ نہیں کہہ سکتے کہ  یہ کام عرب کلچر ہیں،دین نہیں کہ جس چیز کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے طور پر بیان فرمایا وہ دین ہی ہے، اگرچہ کسی علاقے کا کلچر بھی ہو۔

   ہاں وہ غذائیں، سواریاں اور لباس کہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص علاقے اور اپنے زمانے کی تقاضوں کے مطابق استعمال فرمایا اور ان کو اختیار کرنے کا باقاعدہ حکم نہیں فرمایا اور ان کے کرنے پر بطور خاص کوئی اجر و ثواب بھی بیان نہیں فرمایا، تو اگر کوئی ان غذاؤں اور ملبوسات کی بجائے اپنے علاقے، موسم اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق چیزیں استعمال کرتا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں اور لوگ اپنے کلچر اور زمانے کے مطابق کرتے بھی ہیں، لیکن پھر بھی اگر کوئی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کو اختیار کرتا ہے، تو اسے اپنی نیت کے مطابق اجر و ثواب ضرور ملے گا۔

   داڑھی کے دین میں سے ہونے کے بارے میں مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:جاء رجل من المجوس إلى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ، وحلق لحيته، وأطال شاربه، فقال له النبي صلى اللہ عليه وسلم: «ما هذا؟» قال: هذا في ديننا، قال: «في ديننا أن نجز الشارب، وأن نعفي اللحية»“ترجمہ: مجوس کا ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس کی داڑھی مُنڈی ہوئی تھی اور اس نے مونچھیں بڑھائی ہوئی تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے کہا یہ ہمارے دین میں ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیکن ہمارے دین میں یہ ہے کہ ہم اپنی مونچھیں کم کریں اور داڑھی بڑھائیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الادب، ما یؤمر بہ الرجل من اعفاء اللحیۃ، جلد 5، صفحہ 226، حدیث نمبر: 25502،مطبوعہ ریاض)

   داڑھی کا حکم رب تعالیٰ کی طرف سے ہونے کے بارے میں ایک روایت میں ہے:”ودخلا على رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم وقد حلقا لحاهما، وأعفيا شواربهما، فكره النظر إليهما، فقال: ويلكما! من أمركما بهذا؟ قالا: أمرنا بهذا ربنا يعنيان كسرى فقال رسول اللہ: لكن ربي قد أمرني بإعفاء لحيتي وقص شاربي“ترجمہ: (شاہ ایران کسری کے دو ایلچی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حالت میں حاضر ہوئے کہ ان کی داڑھیاں مُنڈی ہوئی تھیں اور مونچھیں بڑھائی ہوئی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھنے میں کراہت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تم دونوں کے لیے ویل (جہنم کی ایک وادی) ہو، تمہیں کس نے اس کا حکم دیا؟ دونوں نے جواب دیا کہ ہمارے رب یعنی کسری نے اس کا حکم دیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیکن میرے رب نے تو مجھے اپنی داڑھی بڑھانے اور مونچھوں کو کم کرنے کا حکم دیا ہے۔(تاریخ طبری، سنۃ ست من الھجرۃ، جلد 2، صفحہ 556، مطبوعہ بیروت)

   عمامے کے بارے میں مسند ابو داؤد الطیالسی اور سنن الکبری للبیہقی میں ہے:”قال: إن العمامة حاجزة بين الكفر والإيمان“ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک عمامہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والا ہے۔(سنن الکبری للبیھقی، كتاب السبق والرمی، جلد 10، صفحہ 24، حدیث نمبر 19736، مطبوعہ بیروت)

   کنز العمال میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عمامہ باندھا اور فرمایا: ” هكذا فاعتموا! فإن العمامة سيما الإسلام، وهي حاجزة بين المسلمين والمشركين“ترجمہ: عمامہ اس طرح باندھو! بے شک عمامہ اسلام کی علامت (نشانی) ہے اور یہ مسلمانوں اور مشرکوں میں فرق کرنے والا ہے۔(کنز العمال، کتاب المعیشۃ والعادات، آداب التعمم، جلد 15، صفحہ 483، حدیث نمبر 41911، مطبوعہ بیروت)

   عمامہ باندھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” ركعتان بعمامة خير من سبعين ركعة بلا عمامة“ترجمہ: ایسی دو رکعتیں جو عمامہ باندھ کر پڑھی جائیں، وہ بغیر عمامے والی ستر رکعتوں سے بہتر ہیں۔(جامع الصغیر، حرف الراء، جلد 1، صفحہ 435، حدیث نمبر 4468)

   مسواک کے ساتھ نماز پڑھنے کے بارے میں مسند احمد بن حنبل، مسند بزار، صحیح ابن خزیمہ، شعب الایمان اور سنن کبری للبیہقی میں ہے:”عن النبي صلى اللہ عليه وسلم أنه قال: فضل الصلاة بالسواك على الصلاة بغير سواك سبعين ضعفا“ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسواک کے ساتھ نماز کی فضیلت، مسواک کے بغیر پڑھی جانے والی نماز پر ستر گُنا زیادہ ہے۔(مسند احمد بن حنبل، مسند عائشہ الصدیقہ ، جلد 43، صفحہ 361، حدیث نمبر 26340، مطبوعہ بیروت)

    (3) یہاں تک کلام سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ سنت میں کون کون سی چیزیں شامل ہیں اور ان میں اکثریت کا تعلق کسی خطے کے ساتھ ہے ہی نہیں اور اگر بالفرض داڑھی عمامہ اور اسلامی طریقے کے مطابق کھانا پینا عرب کلچر ہوں اور اسی بات کو مان لیا جائے کہ جس خطے میں رہتے ہیں، وہیں کے کلچر کو اپنانا چاہیئے، تو اس اعتبار سے پینٹ کوٹ اور ٹائی تو مشرقی خطے کا لباس ہے ہی نہیں۔ اور جو لوگ کلچر کلچر کا نعرہ لگاتے ہیں، ان کی اکثریت تو پینٹ کوٹ اور ٹائی میں ملبوس نظر آتی ہے اور اگر علاقائی کلچر کو ہی اپنانا ہے، تو چمچ کانٹےسے کھانے کا اور ٹیبل کرسی پر بیٹھ کر کھانے کا کلچر تو مشرقی کلچر نہیں تھا، بلکہ اب تو کھانے کے آداب کے نام پر یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ کانٹا سیدھا رکھنا ہے یا الٹا رکھنا ہے اور دائیں ہاتھ میں کیا پکڑنا ہے اور کھانا کھا لینے کے بعد کانٹے اور چمچ کس طرف رکھنے ہیں اور الٹے رکھنے ہیں یا سیدھے رکھنے ہیں اور ملبوسات میں یہاں تک بتایا جاتا ہے کہ کس رنگ کی شرٹ کے ساتھ کیسی ٹائی ہونی چاہیئے اور اس کے باندھنے کا انداز کیسا ہونا چاہیئے اور اس کی میچنگ کس طرح کی ہونی چاہیئے، تو عرض یہ ہے کہ یہ سب کام تو انگریز یہاں لائے تھے، یہ یہاں کا کلچر تو ہرگز نہیں تھا، تو کیا عرب کلچر کے نام پر سنتوں سے دور کرنے والے افراد اپنی اس طرزِ زندگی کو چھوڑ کر مشرقی اور اپنے خطے کے ملبوسات کی طرف واپس آئیں گے؟ اور کیا چمچ کانٹے اور ٹیبل کرسی کو چھوڑ کر اپنے علاقائی کلچر کو اپنائیں گے؟ اگر نہیں! اور ہرگز نہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہیں مسئلہ عرب یا مشرقی مغربی کلچر کا نہیں، بلکہ مسئلہ اسلام پر عمل کرنے کروانے سے ہے، اگر انگریزوں کے تمام طور طریقے اور کلچر کو خندہ پیشانی سے قبول کر لیا جاتا اور انہیں اپنایا جاتا ہے، تو کسی مسلمان کو اس کے نبی کے طور طریقے اپنانے سے کیوں روکا جاتا ہے؟ یعنی جب نفس کی خواہش پر کسی چیز کو اپنانا ہو، تو وہ کسی بھی کلچر کی ہو، اسے دل و جان سے تسلیم کر لیتے ہیں اور جب سنت کی باری آئے، تو عرب کلچر کہہ کر اس سے منہ موڑ لیا جاتا ہے، لہذا جو افراد سنتوں کو عرب کلچر کہہ کر رد کرنا چاہتے ہیں، وہ اپنے لباس، کھانے پینے کے انداز اور دیگر طرزِ زندگی سے مغربی کلچر کو نکال کر اپنے قول و فعل میں ایک ہونے کا ثبوت دیں، جبکہ مسلمان تو ہر حال میں سنتوں پر عمل کریں گے۔

   اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں دین اسلام کے ہر حکم کو بلا چوں چرا تسلیم کرنے اور سنتوں پر عمل کرنےکی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم