Bait ul Muqaddas Ko Qibla Awwal Kyun Kaha Jata Hai ?

بیت المقدّس کو قبلہ اول کیوں کہا جاتا ہے؟

مجیب:مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2718

تاریخ اجراء:08ذوالقعدۃ الحرام1445 ھ/17مئی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   بیت المقدّس کو قبلہ اول کیوں کہا جاتا ہے؟ جبکہ کعبہ شریف تو حضرت آدم علیہ الصلوۃ و السلام کے دور سے موجود ہے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسلمان چونکہ پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے پھر مدینہ میں ہجرت کے16یا  17 ماہ کے بعد کعبۃ اللہ شریف کو قبلہ بنایا گیا تو اس وجہ سے بیت المقدس  مسلمانوں کاقبلہ اول کہلاتا ہے۔

   تفسیر ابن کثیر میں ہے:”وقد جاء فی ھذا الباب أحادیث کثیرۃ وحاصل الأمر أنه قد كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أمر باستقبال الصخرة من بيت المقدس، فكان بمكة يصلي بين الركنين، فتكون بين يديه الكعبة وهو مستقبل صخرة بيت المقدس، فلما هاجر إلى المدينة تعذر الجمع بينهما، فأمره اللہ بالتوجه إلى بيت المقدس، قاله ابن عباس والجمهور“ ترجمہ:اس باب میں  کثیر احادیث آئی ہیں ، خلاصہ یہ ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کو بیت المقدس  کے صخرہ کی طرف نماز میں رخ کرنے کا حکم دیا گیا، تو آپ علیہ السلام مکہ میں دو رکنوں کے درمیان نماز ادا فرماتے کہ کعبہ آپ کے سامنے ہوتا اور آپ کا رخ بیت المقدس کے صخرہ کی طرف ہوتا ، پھر جب مدینہ حجرت فرمائی تو دونوں کی طرف رخ کرنا ناممکن ہوگیا تو اللہ رب العزت نے آپ کو بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا، یہی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور جمہور کا قول ہے۔ (تفسير ابن كثير،ج1،ص453،دار طيبة)

   بہار شریعت میں ہے”    حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم نے سولہ یا سترہ مہینہ تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی اور حضور (صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم) کو پسند یہ تھا کہ کعبہ قبلہ ہو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کما ھو مروی فی صحیح البخاری وغیرہ من الصحاح اور فرماتا ہے﴿ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیۡ کُنۡتَ عَلَیۡہَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنۡ یَّتَّبِعُ الرَّسُوۡلَ مِمَّنۡ یَّنۡقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیۡہِ ؕ وَ اِنۡ کَانَتْ لَکَبِیۡرَۃً اِلَّا عَلَی الَّذِیۡنَ ہَدَی اللہُ ؕ وَمَا کَانَ اللہُ لِیُضِیۡعَ اِیۡمَانَکُمْ ؕ اِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴۳﴾قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآءِ ۚ فَلَنُوَ لِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰىہَا ۪ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ؕ وَحَیۡثُ مَا کُنۡتُمْ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمْ شَطْرَہٗ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَیَعْلَمُوۡنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمْ ؕ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوۡنَ﴾ترجمہ:    جس قبلہ پر تم پہلے تھے، ہم نے پھر وہی اس ليے مقرر کیا کہ رسول کے اتباع کرنے والے ان سے متمیز ہوجائیں، جو ایڑیوں کے بل لوٹ جاتے ہیں اور بے شک یہ شاق ہے، مگر ان پر جن کو اﷲ نے ہدایت کی اور اﷲ تمہارا ایمان ضائع نہ کریگا، بیشک اﷲ لوگوں پر بڑا مہربان رحم والا ہے۔ اے محبوب! آسمان کی طرف تمہارا بار بار مونھ اٹھانا ہم دیکھتے ہیں، تو ضرور ہم تمھيں اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے، جسے تم پسند کرتے ہو، تو اپنا مونھ (نماز میں) مسجد حرام کی طرف پھیرو اور اے مسلمانوں! تم جہاں کہیں ہو، اسی کی طرف (نماز میں) مونھ کرو اور بے شک جنھيں کتاب دی گئی، وہ ضرور جانتے ہیں کہ وہی حق ہے، ان کے رب کی طرف سے اور اﷲ ان کے کوتکوں سے غافل نہیں۔(بہار شریعت،ج 1،حصہ 3،ص 486،487،مکتبۃ المدینہ)

   صراط الجنان میں ہے:” پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک بیت المقدس قبلہ رہا اورمسلمان بھی مدینہ منورہ میں آنے کے بعد تقریبا سولہ ، سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اور اس کے بعد نماز ظہر کی ادائیگی کے دوران مسجد ِقِبْلَتَین میں قبلہ کی تبدیلی کا واقعہ ہوا۔“ (صراط الجنان ، ج1،ص251، 252، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم