Huzoor Ki Namaz e Janaza Kis Ne Parhai ?

حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کا جنازہ کس نے پڑھایا ؟

مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2813

تاریخ اجراء:18ذوالحجۃالحرام1445 ھ/25جون2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کا جنازہ کس نے پڑھایا تھا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم  کی نماز جنازہ کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔بعض کے نزدیک یہ ہے کہ نماز جنازہ معروف طریقے   پر نہ ہوئی ،جیسا  کہ ہمارے ہاں پڑھی جاتی ہے،بلکہ  لوگ گروہ در گروہ آتے جاتے اور درودو سلام  اور دعائیں پڑھتے جاتے،جبکہ اکثر علمائے کرام نے اسی  معروف نماز ہی کا قول کیا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں پڑھی جاتی ہے ،اور جب تک  مسلمانوں کے پہلے خلیفہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  کے دستِ حق پرست پر بیعت نہ ہوئی تھی،لوگ فوج در فوج آتے اور جنازہ اقدس پر نماز پڑھتے جاتے،جب بیعت ہوگئی،ولی شرعی  سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  مقرر ہوئے،انہوں نے جنازہ اقدس  پر نماز پڑھی ،پھر کسی نے نہ پڑھی کہ ولی شرعی  نماز جنازہ پڑھ لے تو  اس کے بعد کسی کے لئے نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔

   المعجم الاوسط للطبرانی  میں ہے:” إذا غسلتمونی وكفنتمونی، فضعونی على سريری في بيتی هذا على شفير قبری، ثم اخرجوا عني ساعة، فإن أول من يصلي علی جليسي وخليلي، جبريل ثم ميكائيل، ثم إسرافيل، ثم ملك الموت مع جنوده، ثم ادخلوا علي فوجا فوجا، فصلوا علي وسلموا تسليما ترجمہ:(نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا): جب تم مجھے غسل و کفن دے چکو،تو مجھے میرے اسی گھر میں  قبر (مبارک) کے پاس  میری چارپائی  پر رکھ کر  کچھ دیر  کے لئے باہر چلے جانا،سب سے پہلے میرے جلیس و خلیل  جبرئیل  (علیہ السلام)   مجھ پر صلوۃ پڑھیں گے،پھر میکائیل (علیہ السلام)،پھر اسرافیل (علیہ السلام) ،پھر ملک الموت (علیہ اسلام) اپنی جماعت کے ساتھ۔پھر گروہ در گروہ میرے پاس حاضر ہوکر  مجھ پر درود و سلام عرض کرتے جانا۔(المعجم الاوسط  للطبرانی،جلد 04،صفحہ 209،دار الحرمین ،قاھرہ)

   طبقات الکبری میں ہے:”لما كفن رسول الله   صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم  ووضع على سريره، دخل أبو بكر وعمر رضي الله عنهما ومعهما نفر من المهاجرين والأنصار بقدر ما يسع البيت فقالا: السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، وسلم المهاجرون والأنصار كما سلم أبو بكر وعمر رضی اللہ عنھما، ثم صفوا صفوفا لا يؤمهم أحد، فقال أبو بكر وعمر  رضی اللہ عنھما وهما في الصف الأول حيال رسول الله صلی اللہ تعالی علیہ وسلم : اللهم إنا نشهد أنه قد بلغ ما أنزل إليه، ونصح لأمته، وجاهد في سبيل الله حتى أعز الله دينه، وتمت كلمته، وأومن به وحده لا شريك له، فاجعلنا إلهنا ممن يتبع القول الذي أنزل معه، واجمع بيننا وبينه حتى تعرفه بنا وتعرفنا به، فإنه كان بالمؤمنين رؤفا رحيما، لا نبتغي بالإيمان به بديلا، ولا نشتري به ثمنا أبدا،فيقول الناس: آمين آمين، ويخرجون ويدخل آخرون، حتى صلى الرجال، ثم النساء، ثم الصبيان“ترجمہ:جب نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم  کو کفن (مبارک) دے کر  سریر مبارک پر آرام دیا گیا،حضرت ابو بکر صدیق  و حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی  عنہما  نے حاضر ہوکر عرض کی:یا رسول اللہ ! (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) آپ پر سلام،آپ پر اللہ تعالی کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔اور ان دونوں حضرات  رضی اللہ تعالی عنہما  کے ساتھ ایک گروہ مہاجرین و انصار کا (بھی) تھا،،جس قدر  اس حجرہ پاک میں گنجائش ہو سکتی تھی،ان سب نے بھی ایسے ہی سلام عرض کیا جیسا کہ سیدنا ابو بکر و  فاروق اعظم رضی اللہ  تعالی عنہما  نے کیا۔وہ سب صف باندھے کھڑے تھے،کوئی  ان کی امامت نہیں کررہا تھا،سیدنا ابو بکر و عمر فاروق  رضی اللہ تعالی عنہما  پہلی  صف میں نبی  پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  کے سامنے کھڑے تھے  اور یوں دعا  کرتے:اے اللہ! ہم گواہی دیتے ہیں  کہ جو کچھ تو نے اپنے نبی  پر اتارا،حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ) نے  اپنی امت تک پہنچا دیا،اور ان کی خیر خواہی میں رہے،اور خدا کی راہ میں جہاد فرمایا،یہاں تک کہ  اللہ تعالی نے اپنے دین کو غلبہ دیا، اور کلمات الہیہ کی تکمیل  ہوئی،پس اللہ وحدہ لا شریک لہ  پر ایمان لایا گیا،پس اے ہمارے معبود! ہمیں اس کتاب کی پیروی کرنے والا  بنا جو کتاب  ان کے ساتھ اتری،اور ہمیں ان کے ساتھ جمع کرنا کہ وہ ہمیں اور ہم انہیں  پہچان لیں کہ وہ مسلمانوں پر رؤف و رحیم تھے،ہم ایمان کو کسی چیز سے  بدلنا نہیں چاہتے،اور نہ ہی اس کے عوض  کچھ قیمت لینا چاہتے ہیں۔لوگ اس دعا پر "آمین آمین" کہتے جاتے،پھر باہر جاتے،اور دوسرے آتے،یہاں تک کہ مردوں ،پھر عورتوں ،پھر بچوں نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم  پر صلوۃ یعنی  دعائیں پڑھیں۔(الطبقات الکبری،جلد 02،صفحہ 221،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   شرح الزرقانی علی مؤطا امام مالک میں ہے:”وظاهر هذا أن المراد بالصلاة عليه ما ذهب إليه جماعة أن من خصائصه أنه لم يصل عليه أصلا، وإنما كان الناس يدخلون فيدعون ويصدقون۔۔۔وقد قال عياض: الصحيح الذي عليه الجمهور أن الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم كانت صلاة حقيقية لا مجرد الدعاء فقط“ترجمہ:اس سے ظاہر یہی  ہوتا ہے کہ  نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم پر "صلوۃ"  سے مراد وہی ہے جو  ایک جماعت کا مذہب ہے کہ  حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے خصائص سے ہے کہ  ان کی نماز  جنازہ بالکل نہیں پڑھی گئی،پس ہوا یوں کہ لوگ داخل ہوتے جاتے اور دعائیں کرتے ہوئے رخصت ہوجاتے،جبکہ قاضی عیاض  رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا: صحیح وہی ہے جس پر جمہور ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم  پر جو "صلوۃ" پڑھی گئی وہ حقیقۃً نماز  (یہی معروف نماز) ہی تھی،فقط دعا نہ تھی۔(شرح الزرقانی  علی مؤطا  امام مالک،جلد 02،صفحہ 94،95،مطبوعہ قاھرہ)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالی علیہ  کی تصحیح کے بارے میں فرماتے ہیں:”ثم حسبنافی قبول التصحیح ان نقول نعم  صلی علیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صلٰوۃ الجنازۃ مرۃ وذلک حین تمت البیعتہ علٰی یدالصدیق رضی ﷲتعالٰی عنہ صحت ولایتہ اماقبل ذلک فما کان الناس لایدعون وینصرفون ثم اذاصلی الصدّیق لم یصل علیہ احد بعد“ترجمہ: پھر ہمارے لئے قبول تصحیح کے معاملے میں یہ کہنا کافی ہے کہ ہاں ایک بار حضور اقدس صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم کی نماز جنازہ پڑھی گئی وُہ اس وقت جب حضرت صدیق اکبر رضی اﷲتعالٰی عنہ کے ہاتھ پر بیعت تمام ہوئی اور ان کی ولایت صحیح ہوگئی۔ اس سے قبل صرف یہ تھا کہ لوگ آکر دعا کرتے اورلوٹ جاتے ۔ پھر جب حضرت صدیق نے نماز ادا کی تو اس کے بعد کسی نے حضور کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔(فتاوی رضویہ،جلد 09،صفحہ 290،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   امام اہلسنت ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:”جنازہ اقدس پر نماز کے باب مختلف ہیں۔ایک کے نزدیک یہ نماز معروف نہ ہوئی بلکہ لوگ گروہ در گروہ حاضر آتے اور صلٰوۃ وسلام عرض کرتے بعض احادیث بھی اس کی مؤید ہیں۔ ۔۔اور بہت علماء یہی نماز معروف مانتے ہیں،امام قاضی عیاض نے اسی کی تصحیح فرمائی۔ ۔۔سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ تسکینِ فتن وانتظام امّت میں مشغول ، جب تک ان کے دستِ حق پرست پر بیعت نہ ہوئی تھی، لوگ فوج فوج آتے اور جنازہ انور پر نماز پڑھتے جاتے، جب بیعت ہولی، ولی شرعی صدیق ہوئے، انہوں نے جنازہ مقدس پر نماز پڑھی ،پھر کسی نے نہ پڑھی کہ بعد صلٰوۃ ولی پھر اعادۂ نمازِ جنازہ کااختیار نہیں۔(فتاوی رضویہ ،جلد 09،صفحہ 314،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم