Kya Hazrat Owais Qarni رضی اللہ عنہ Ne Apne Daant Tor Diye Thay ?

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے دانت توڑنے والے واقعہ کی حقیقت

مجیب: محمد عرفان مدنی عطاری

مصدق: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: Lar-11190

تاریخ اجراء:      14رجب المرجب1443 ھ/ 16فروری 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع  متین  اس مسئلہ کے بارے میں کہ مشہورہے کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دندان مبارک شہیدکیے اورکیلاان کے لیے اُترا،اس کے بارے میں دلائل سے وضاحت فرمائیے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کااپنے دندان شہیدکرنے والاواقعہ  کسی معتمدذریعے سے ثابت نہیں ہے، لہذااس کوبیان نہیں کرنا چاہیے اوررہاکیلے کاپھل ان کے لیے اترنا،تواس کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے،امام ابن ابی الدنیانے تو یہ روایت ذکرفرمائی ہے کہ حضرت آدم علی نبیناوعلیہ الصلوۃ والسلام جب زمین پرتشریف لائے ،توان کے ساتھ کیلے کاپھل بھی اتارا گیا تھا اور قرآن پاک میں ہے کہ جب حضرت یونس علی نبیناوعلیہ الصلوۃ والسلام مچھلی کے پیٹ سے باہرتشریف لائے، تواللہ تعالی نے ان کے لیےایک درخت اگایاتھا،اس درخت کے متعلق بعض نے یہ بھی قول کیاہے کہ وہ کیلے کادرخت تھا ۔

   اس قول سے بھی پتاچلتاہے کہ اس وقت کیلے کادرخت موجودتھا،تبھی تویہ قول کیاگیاہے ، اگرکیلااس وقت موجودہی نہیں تھا،تواس قول کاکوئی محل ہی نہیں بنتا ، لہٰذااس سے بھی واضح ہوتاہے کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے کیلے کاپھل جنت سے آنے والے واقعے کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔

   قرآن پاک میں ارشادخداوندی ہے : ﴿ وَ اَنْۢبَتْنَا عَلَیْهِ شَجَرَةً مِّنْ یَّقْطِیْنٍۚ ترجمہ:اورہم نے یونس پریقطین کادرخت اگایا۔

   عمدۃ القاری،فتح الباری،تفسیرابی السعود،تفسیرقرطبی،تفسیرکشاف،تفسیرآلوسی وغیرہ میں ہے،(واللفظ للآخر):’’وقيل شجرة اليقطين هي شجرة الموز تغطي بورقها واستظل بأغصانها وأفطر على ثمارها ‘‘ترجمہ : اورکہاگیاہے کہ یقطین کادرخت(جوحضرت یونس علی نبیناوعلیہ الصلوۃ والسلام کے لیے اُگایاگیا) کیلے کادرخت ہے ،جس کے پتوں کوآپ علیہ الصلوۃ والسلام اپنے اوپرڈھانپتے اوراس کی ٹہنیوں سے سایہ لیتے اوراس کے پھلوں  کوتناول فرماتے ۔(تفسیرآلوسی،ج12،ص140،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

   امام ابن ابی الدنیا علیہ الرحمۃ روایت نقل  فرماتے ہیں :’’عن جابر بن عبد اللہ قال:إن آدم لما أهبط إلى الأرض هبط بالهند۔ ۔۔ ۔ و هبط معه بالعجوة والأترنج، والموز‘‘ ترجمہ: حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ،فرمایا:بے شک حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام جب زمین پرتشریف لائے ،تو ہند میں اترے اورآپ کے ساتھ کھجور،لیموں اورکیلااتاراگیا۔ (مکائدالشیطان،ص95)

   علامہ نورالدین محمدبن سلطان المعروف ملاعلی قاری علیہ الرحمۃ تحریرفرماتے ہیں :’’اعلم أن ما اشتهر على ألسنة العامة من أن أويساً قلع جميع أسنانه لشدة أحزانه حين سمع أن سنّ النبي صلى اللہ عليه وسلم أصيب يوم أحد ولم يعرف خصوص أي سن كان بوجه معتمد، فلا أصلَ له عند العلماء مع أنه مخالف للشريعة الغراء، ولذا لم يفعله أحد من الصحابة الكبراء على أن فعله هذا عبث لايصدر إلا عن السفهاء‘‘    ترجمہ: جان لو کہ لوگوں کی جانب سے جو مشہور کیا جاتا ہے کہ حضرت اویسِ قرنی نے اپنے تمام دانت توڑ دیے تھے،  جب انہوں نے سناکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت مبارک کواُحدکے دن زخم پہنچاہےاور انہیں متعین طور پر  معلوم نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کون سے دانت مبارک کوزخم پہنچا ہے (اس لیے سارےدانت  شہیدکر دئیے) علماء کے نزدیک اس بات کی کوئی اصل نہیں، باوجودیکہ یہ  روشن شریعت کے خلاف ہے۔ اسی وجہ سے بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سےکسی نے بھی ایسا نہ کیا، مزیدیہ کہ یہ ایک عبث فعل ہے، جو نادان لوگوں سے ہی صادر ہوسکتا ہے۔ (المعدن العدنی فی فضل أويس القرنی، ص30،دارالکتب ،پشاور)

   فتاوی شارح بخاری میں ہے:’’ یہ روایت بالکل جھوٹ اورافتراہے کہ جب حضرت اویس قرنی نے یہ سناکہ غزوہ اُحدمیں حضوراقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک شہیدہوئے تھے، توانہوں نے اپناسب دانت توڑڈالا،اورانہیں کھانے کے لیے کسی نے حلوہ پیش کیا۔‘‘              (فتاوی شارح بخاری،ج02،ص115،مکتبہ برکات المدینہ،کراچی)

   فتاوی بریلی میں ہے:’’ اوراس کی خبرحضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کوہوئی اورانہوں نے اپنے دانت شہیدکرلیے ،یہ روایت نظرسے نہ گزری اورغالباایسی روایت ہی نہیں ہے ،اگرچہ مشہوریہی ہے ۔‘‘ (فتاوی بریلی،ص301،شبیربرادرز،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم