Nabi Kareem صلی اللہ علیہ وسلم Ko Kisne Ghusal Diya Tha?

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل کس نے دیا تھا ؟

مجیب:مفتی ابو محمد  علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Gul-3014

تاریخ اجراء:11ربیع الآخر1445ھ/27اکتوبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل کس صحابی نے دیا تھا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے بعد غسل حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے دیا، حضرت عباس اور ان کے صاحبزادےحضرت  فضل اور حضرت قثم رضی اللہ عنہم ان کی مدد کر رہے تھے۔  نیز حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے دو موالی(آزاد کردہ غلام) حضرت اُسامہ بن زید اور حضرت شقران رضی اللہ عنہما بھی غسل میں شریک تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو غسل دینے کی وصیت کی تھی۔  اس لیے غسل کی ذمہ داری آپ نے نبھائی اور ساتھ مولا علی رضی اللہ عنہ کو یہ بھی وصیت فرمائی تھی کہ جب میں وصال  کر جاؤں تو مجھے میرے کنویں بئر غرس کے سات مشکیزوں سے غسل دینا۔  پھر بئر غرس کے پانی سے ہی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو غسل دیا گیا۔

   حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل حضرت علی کرّم اللہ وجہہ الکریم  نے دیا، چنانچہ سنن ابنِ ماجہ  میں ہے :”عن علی بن ابی طالب  قال: لما غسل النبی صلى اللہ عليه وسلم  ذهب يلتمس منه ما يلتمس من الميت  فلم يجده فقال بابی الطيب  طبت حيا وطبت ميتا“ترجمہ:حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں  جب میں نے  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا، تو آپ کے جسم مبارک سے وہ ڈھونڈنے لگا جو میت کے جسم میں ڈھونڈتے ہیں ،لیکن کچھ نہ پایا، تو کہا: میرے باپ آپ پر قربان ہوں ، آپ پاک صاف ہیں ، آپ زندگی میں بھی پاک تھے، وصال کے بعد بھی پاک رہے۔ (سنن ابن ماجه ،جلد 1،صفحہ  471،مطبوعہ دار  احیاء الکتب العربیہ)

   سنن ابو داؤد میں ہے:”عن عامرقال: غسل النبی صلى اللہ عليه وسلم علی والفضل وأسامة بن زيد  وهم أدخلوه قبره  قال: وحدثنی مرحب  أو  أبو مرحب أنهم أدخلوا معهم عبد الرحمن بن عوف  فلما فرغ علی قال: إنما يلی الرجل أهله“یعنی:  حضرت عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت علی اورحضرت  فضل اور حضرت اسامہ  بن زید  رضی اللہ عنہم نے غسل دیااور انہوں نے ہی قبرِ مبارک میں داخل کیا ، (حضرت عامر رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں :اور مجھے مرحب یا  ابومرحب نے بیان کیا کہ اُن کے ساتھ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی (قبر اطہر میں ) داخل ہوئے تھے ۔جب حضرت علی رضی اللہ عنہ (تدفین سے) فارغ ہوئے ،تو فرمایا :بے شک یہ ذمہ داری گھر والوں کی ہوتی ہے۔ (سنن أبی داود ،جلد 3،صفحہ  213،مطبوعہ  المکتبۃ العصریہ)

   مصنف ابنِ ابی شیبہ میں ہے:”عن عبد اللہ بن الحارث قال: غسل النبی صلى اللہ عليه وسلم علی وعلى النبی صلى اللہ عليه وسلم قميصہ وعلى يد علی خرقة يغسله بها، يدخل يده تحت القميص، فيغسله والقميص عليه“یعنی: حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غسل دیا  اس حال میں کہ  حضور علیہ السلام کی قمیص ان کے اوپر تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر کپڑا تھا جس کے ساتھ غسل دے رہے تھے۔  انہوں نے اپنے ہاتھ کو قمیص کے نیچے داخل کیا،پس انہوں نے حضور علیہ السلام کو غسل دیا اور قمیص حضور علیہ السلام کے اوپر رہی ۔ (مصنف ابن أبي شيبة ،جلد2،صفحہ 448، مكتبة الرشد)

   مدارج النبوہ میں ہے:”حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل کس طرح دیا گیا تھا؟ فرمایا: حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کلہ پر برد یمانی کو باندھا، اسی بنا پر غسل کے لیے کلہ باندھنا ہمارے لیے سنت ہوا۔ (کلہ چاروں طرف چادر باندھنے کو کہتے ہیں ۔)اس کے بعد کلہ میں حضرت عباس داخل ہوئے اور حضرت علی مرتضی اور  حضرت فضل و قثم  کو  (جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے فرزندان تھے )بلایا۔  ایک روایت میں ہے کہ بجائے قثم کے حضرت ابوسفیان بن الحارث کو بلایا۔اسامہ بن زیدجو حب رسول تھے اور اہل بیت کا حکم رکھتے تھے اورحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام حضرت صالح حبشی جن کا لقب شقران ہے، جمع ہوئے۔۔۔ایک روایت میں آیا ہے کہ  حضرت عباس نے حضور علیہ السلام کو اپنے سینہ پر لیا اور ہاتھوں میں دستانے پہن کر ہاتھوں کو پیراہن مبارک کے اندر داخل کیا ۔ حضرت اسامہ اور شقران قمیص مبارک کے اوپر سے پانی ڈالتے تھے حضرت عباس و قثم ایک پہلو سے دوسرے پہلو پر لے جانے پر حضرت علی کی اعانت و امداد کرتے تھے اور غیب سے بھی غسل میں اعانت ہوئی۔“ (مدارج النبوۃ مترجم ،جلد 2 ،صفحہ  508،509،مطبوعہ شبیر برادرز)

   حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بئر غرس کے پانی سےغسل دینے کی وصیت فرمائی تھی،جیسا کہ سنن ابو داؤد میں ہے:”عن علی قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:”إذا أنا مت فاغسلونی بسبع قرب من بئری، بئر غرس“ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے  ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب میں وصال  کر جاؤں تو مجھے میرے کنویں بئر غرس کے سات مشکیزوں سے غسل دینا۔“ (سنن ابن ماجه ،جلد1،صفحہ 471، دار إحياء الكتب العربيہ)

   حضور علیہ السلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غسل دینے کی وصیت کی تھی چنانچہ خصائص الکبریٰ اور مسندِ بزار میں ہے(واللفظ للثانی):”عن يزيد بن بلال، قال: قال علی: أوصانی رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: أن لا يغسله أحد غيری، فإنه لا يرى عورتی إلا طمست عيناه، قال علی: فكان العباس، وأسامة يناولانی الماء من وراء الستر“یعنی: حضرت یزید بن بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی کہ میرے(حضرت علی کے ) علاوہ کوئی آپ کو غسل نہ دے، پس بےشک کوئی میرے ستر کو نہ دیکھے ورنہ اس کی آنکھیں اُچک لی جائیں گی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :  پس حضرت عباس اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہما پردے کے باہر سے مجھے پانی دیتے تھے ۔ (مسند البزار ،جلد3،صفحہ 135، مكتبة العلوم والحكم)

   شیخ عبدالحق محدثِ دہلوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :”حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت تھی کہ تمہارے سوا کوئی اور غسل نہ دے اور نہ کوئی میرا ستر دیکھے، اگر خلاف ورزی ہوئی تو اس کی بینائی جاتی رہے گی۔۔۔مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:جب میں اس عالم سے سفر کروں تو بیر غرس کے سات مشکیزے پانی سے جن کا دہانہ کھلا ہوا ہو، غسل  دینا۔“(مدارج النبوۃ،جلد 2 ،صفحہ  509،مطبوعہ شبیر برادرز)

   شیخ عبدالحق محدثِ دہلوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :”امام محمد باقر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ آنحضرت علیہ السلام کا بعد وصال کے غسل بئر غرس کے پانی سے ہوا تھا ۔آپ حیاتِ ظاہری میں بھی اس کا پانی پیتے تھے۔“(جذب القلوب الی دیار المحبوب، صفحہ194، مطبوعہ لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم