Nabi Kareem صلی اللہ علیہ وسلم Konsi Khushbu Istemal Farmaya Karte They?

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کون سی خوشبو استعمال فرمایا کرتے تھے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-8163

تاریخ اجراء:07جمادی  الثانی 1444ھ/31دسمبر2022

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کون سی خوشبو استعمال فرمایا کرتے تھے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مشک و عنبر کی خوشبو استعمال فرمایا کرتے تھے ،یونہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خالص عودکی دھونی لیتے اور کبھی عود کے ساتھ کافور ملا کر بھی  دھونی لیتے تھے۔

   البتہ یہ یادر ہے کہ احادیث مبارکہ میں صراحت سے  یہ موجود ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے آپ کے جسم مبارک کو ہی  ایسی  نفیس خوشبو عطافرمائی  کہ کوئی اور خوشبو حتی کہ مشک و عنبر بھی  اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کےجسمِ اقدس کو اللہ پاک نے اس طرح خوشبودار بنایا تھا کہ جس جگہ ، گلی،راستے سے آپ کا گزر ہوجاتا وہ خوشبو سے مہک اٹھتا، بعد میں وہاں سے گزرنے والا  یہ محسوس کر لیتا کہ اس راستے سے اللہ تعالیٰ  کے محبوب کا گزر ہوا ہے، کیونکہ وہ راستے سے ایسی خوشبو پاتا ،جو آپ کے جسمِ اطہر کا ہی حصہ تھی،جسم مبارک کی خوشبو کا عالم تو یہ تھا، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اطہر کسی چیز کے ساتھ مس ہو جاتا  ،تو وہ چیز بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک خوشبو سے مہک اٹھتی ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خوشبو استعما ل نہ بھی فرماتے  تب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک خوشبوؤں سے مہکتا رہتا۔

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مشک و عنبر کی خوشبو استعمال فرمایا کرتے تھے، جیسا کہ سنن نسائی کی حدیث  ہے:”عن محمد بن علي قال: سألت عائشةأكان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يتطيب؟ قالت: نعم،  بذكارة الطيب؛ المسك، والعنبر“ ترجمہ:محمد بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ، آپ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا :کیا  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوشبو لگایا کرتے تھے ؟تو انہوں نے فرمایا :جی ہاں! نبی  کریم صلی اللہ علیہ وسلم مردانہ خوشبو مشک و عنبر استعمال فرمایا کرتے تھے ۔(سنن نسائی،کتاب الزینۃ،ج8،ص151، المكتبة التجارية الكبرى ،قاهرہ)(الطبقات الكبرى ،ج1،ص305، دار الكتب العلميہ،بيروت)

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عود کی دھونی لیا کرتے تھے، جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے :” عن نافع قال: كان ابن عمر إذا استجمر استجمر بالألوة غير مطراة، وبكافور يطرحه مع الألوة، ثم قال: هكذا كان يستجمر رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم “ ترجمہ:حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کبھی خالص عودکی دھونی لیتے اور کبھی عود کے ساتھ کافور ملا کر دھونی لیتے اور یہ کہتے کہ رسول اﷲصلی اللہ تعالی علیہ وسلم بھی اسی طرح دھونی لیا کرتے تھے۔(الصحيح لمسلم،ج7،ص48،دار الطباعة العامرہ،تركی) (سنن نسائی،کتاب الزینۃ،ج8،ص156، المكتبة التجارية الكبرى ،قاهرہ)

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو مشک و عنبر سے بڑھ کر  تھی، جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث مبارک میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:” كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أزهر اللون كأن عرقه اللؤلؤ……ولا شممت مسكة ولا عنبرة أطيب من رائحة رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم “ترجمہ: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک سفید چمکدار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کے قطرے موتیوں کی طرح چمکتے تھے، میں نے کسی مشک یا عنبر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کی خوشبو سے زیادہ خوشبو دار نہیں پایا۔(الصحيح لمسلم، باب طيب رائحة النبي صلى اللہ عليه وسلم ،ج7،ص81، دار الطباعة العامرہ،تركی)

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبوہر قسم کی خوشبو سے بڑھ کر تھی،جیسا کہ حضرتِ انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:’’ ولا شممت مسكا قط ولا عطرا كان أطيب من عرق النبي صلى الله عليه وسلم ‘‘ ترجمہ:میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے کو ہر عطر اور کستوری سے بڑھ کر خوشبودار پایا۔ (سنن ترمذی، باب ما جاء في خلق النبي صلى اللہ عليه وسلم ،ج3،ص543، دار الغرب الإسلامي، بيروت)

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اقدس کو اللہ پاک نے اس طرح خوشبودار بنایا تھا کہ جس جگہ ، گلی،راستے سے آپ کا گزر ہوجاتا وہ خوشبو سے مہک اٹھتا، بعد میں گزرنے والا  یہ محسوس کر لیتا کہ اس راستے سے اللہ کے محبوب کا گزر ہوا ہے،حضرت انس رضی اللہ عنہ اس کیفیت کا ذکر یوں کرتے ہیں :’’ كَانَ رَسُول اللہ صلى اللہ عَلَيْهِ وَسلم إِذا مر فِي طَرِيق من طرق الْمَدِينَة وجدوا مِنْهُ رَائِحَة الطّيب وَقَالُوا مر رَسُول اللہ صلى اللہ عَلَيْهِ وَسلم من هَذَا الطَّرِيق ‘‘  جب محبوب  کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ کے کسی راستے سے گزرجاتے، تو لوگ اس راہ میں ایسی پیاری مہک پاتے کہ پکار اٹھتے  ادھر سے ان کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی گزر ہوا ہے۔(خصائص الکبریٰ، ذکر المعجزات والخصائص فی خلقہ الشریف، ج1،ص115، دار الكتب العلميہ،بيروت)

عنبرزمیں عبیر ہوا مشک تر غبار

ادنیٰ سی یہ شناخت تِری رہ گزر کی ہے

   حضرتِ جابر بن عبد اللہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ لم يكن النبي صلى اللہ عليه وسلم يمر في طريق فيتبعه أحد إلا عرف أنه سلكه من طيبه‘‘  ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس راستے سے بھی گزر جاتے بعد میں آنے والا شخص خوشبو سے محسوس کرلیتا کہ ادھر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا ہے۔(الشفا بتعريف حقوق المصطفى،باب نظافة جسمه وطيب ريحه وعرقه،ج1،ص63، دار الفكر)

گزرے جس راہ سے وہ سیدِ والا ہوکر

رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سارا ہوکر

   آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسمِ اطہر اس طرح خوشبودار تھا کہ اگر کسی بھی شخص کا جسم آپ کے ساتھ مَس ہوجاتا، تو اس میں بھی مہک پیدا ہوجاتی،جیسا کہ ام المؤمنین حضرتِ عائشہ  صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: ’’وكأن كفه كف عطار مسها طيب أو لم يمسها به، يصافحه المصافح فيظل يومها يجد ريحها، ويضع يده على رأس الصبي فيعرف من بين الصبيان من ريحها على رأسه‘‘ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیوی خوشبو استعمال فرمائیں یا نہ فرمائیں آپ کے مبارک ہاتھ ہر وقت اس طرح خوشبودار رہتے جس طرح کسی عطار کا ہاتھ ہوتا ہے، اگر کوئی شخص آپ سے مصافحہ کی سعادت حاصل کرلیتا ،تو تمام دن اس کے ہاتھ سے خوشبو آتی رہتی، اسی طرح اگر آپ کسی بھی بچے کے سر پر اپنا دستِ شفقت رکھ دیتے، تو وہ بچہ اس کی خوشبو سے تمام بچوں سے ممتاز ہوجاتا۔(سبل الھدی والرشاد ، الباب التاسع عشر فی عرقہ  ،ج2،ص85، دار الكتب العلميہ، بيروت)

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا جسم مبارک  خوشبو دار رکھنے کے لیے دنیا کی   خوشبوکی بالکل بھی محتاجی نہ تھی   ،ظاہر ی خوشبو کے بغیر ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم مبارک اللہ تعالیٰ نے خوشبودار بنایا ہے،جیساکہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:’’ كانت هذه الريح الطيبة صفته، وإن لم يمس طيبا ،مع هذا كان يستعمل الطيب في کثیر  من اوقاته مبالغة في طيب ريحه‘‘ ترجمہ: یہ مہک آپ کے جسمِ اطہر کی صفات میں سے تھی ،اگرچہ آپ خوشبو استعمال نہ بھی فرماتے، اس کے باوجود اکثر اوقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خوشبو کو بڑھانے کے لیے اضافی خوشبو استعمال  فرمایا کرتے تھے۔(شرح مسلم للنووی، کتاب الفضائل، باب طیب ریحہ،ج15،ص85، دار إحياء التراث العربي ،بيروت)

   یونہی امام اسحاق بن راہویہ اس بات کی تصریح ان الفاظ میں فرماتے ہیں:’’كانت رائحة رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم من غير طيب‘‘ یعنی یہ پیاری مہک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم کے جسمِ اطہر کی تھی، نہ کہ اس خوشبو کی جسے آپ استعمال فرماتے تھے۔(سبل الھدی والرشاد ، الباب التاسع عشر فی عرقہ  ،ج2،ص88، دار الكتب العلمیہ ،بيروت)

   امام خفاجی رحمۃ اللہ علیہ اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ريحها الطيبة طيبا خلقيا خصه اللہ به مكرمة و معجزة له صلى اللہ عليه وسلم‘‘یعنی اللہ پاک نے بطورِ کرامت و معجزہ آپ کے جسمِ اطہر میں خلقتاً اور طبعاً مہک رکھ دی تھی۔(نسیم الریاض، الباب الثانی،فصل فی  نظافۃ جسمہ،ج2،ص13،دارالکتب العلمیہ ،بیروت)

   خوشبو  لگانا انبیائے کرام کی سنت ہے، جیسا کہ مسند امام احمدبن حنبل میں ہے :”قال أبو أيوب: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: ’’ أربع من سنن المرسلين: التعطر، والنكاح، والسواك، والحياء“ترجمہ: حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :4چیزیں انبیائےکرام کی سنتوں میں سے ہیں:(1)خوشبو لگانا(2)نکاح کرنا(3)مسواک کرنا(4)حیاء۔(مسند إمام أحمد بن حنبل، حديث أبي أيوب الأنصاري،ج38،ص554، مؤسسة الرسالہ)

یہ کہنا یقینا درست  ہے کہ دنیا کی ہر خوشبو حقیقت میں ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی  فیضان ہے، جیسا کہ امام اہلسنت  امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتے ہیں :

اُنہیں کی بُو مایۂ سمن ہے اُنہیں کا جلوہ چمن چمن ہے

اُنہیں سے گلشن مہک رہے ہیں اُنہیں کی رنگت گلاب میں ہے

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم