Rasoolullah Ki Taraf Mansoob Ek Letter Ki Haqeeqat

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ایک خط کی حقیقت

مجیب: ابوالفیضان عرفان احمدمدنی

مصدق : مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:  Sar 8482

تاریخ اجراء: 15صفرالمظفر1445 ھ/02 ستمبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ سوشل میڈیا پر ایک خط بہت وائرل ہو رہا ہے  جس کا متن درج ذیل ہے:

رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین،رسو ل اللہ کی طر ف سےعیسائیوں کے نام لکھا گیا خط

   یہ پیغام محمدبن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی طرف سے عیسائیت قبول کرنے والوں کے لیے ہے،خواہ دور ہوں یا نزدیک ۔یہ ایک عہد ہے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں،بے شک میں، میرے خدمتگار،میرے مددگار اورپیروکار ان کا تحفظ کریں گے،کیونکہ عیسائی بھی میرے شہر ی ہیں اور خدا کی قسم میں اس سے پرہیز کروں گا  جو ان کو ناخوش کرے، ان پر کوئی جبر نہیں ہوگا،نہ ان کے منصفوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے گا  اور نہ ہی ان کے راہبوں کوان کی خانقاہوں سے۔ ان کی عبادت گاہوں کو کوئی بھی تباہ نہیں کرے گا ، نقصان نہیں پہنچائے گا  اور نہ ہی وہاں سے کوئی شے مسلمانوں کی عبادت گاہوں میں لے جائی جائے گی،اگر کسی نے وہاں سے کوئی  چیز لی،تو  وہ خدا کا عہد توڑنے  اور اس کے نبی کی نافرمانی کا مُرتکب ہوگا  ، بے شک وہ میرے اتحادی ہیں  اورانہیں ان تمام کے خلاف میری امان حاصل ہے،جن سے وہ نفرت کرتے ہیں،کوئی بھی انہیں سفر یا جنگ پر مجبور نہیں کرے گا،بلکہ مسلمان ان کے لیے جنگ کریں گے، اگر کوئی عیسائی عورت کسی مسلمان سے شادی کرے گی، تو ایسا اس کی مرضی کے بغیر ہرگز نہیں ہوگااوراس عورت کو عبادت کے لیے گِرجا گھر جانے سے نہیں روکا جائے گا،ان کے گرجا گھروں کا احترام کیا جائے گا،انہیں گرجا  گھروں کی مرمّت یا اپنے معاہدو ں کے احترام  سے نہیں روکا جائے گا،قوم میں سے کوئی بھی فرد ، یعنی کوئی بھی مسلمان روزِ قیامت تک  اس معاہدے سے رُو گردانی  نہیں کرے گا ۔([1])

(1)اس خط کے تناظر میں سوال یہ ہے کہ کیا نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عیسائیوں کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ فرمایا تھا؟

(2)اگر کوئی معاہدہ فرمایا تھا  ،تو اس کی اصل اور حقیقت کیا ہے؟

(3)کیا اسلامی ریاست میں عیسائیوں  کو ہرمعاملے میں کھلی آزادی ہے اورکسی بھی صورت میں کسی عیسائی کو قانوناً سزا نہیں دی جاسکتی؟

(4)کیاہرفرداپنی مرضی اور چاہت سے کوئی بھی دین اختیار کرسکتا ہے،چاہے دین اسلام  کے علاوہ ہو اور پھر بھی وہ حق پر ہو گا؟اور کیا تمام مذاہبِ عالَم دُرست اور قابلِ احترام ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)سوال میں بیان کردہ خط کی نسبت نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف کرنا ہرگزدرست نہیں، کیونکہ بعینہٖ ان الفاظ  کے ساتھ احادیث،سیرت اور تاریخ کی مستند و معتمد کتب  میں کوئی خط موجود نہیں۔

   جہاں تک وائرل خط میں ذکر کی گئی کتب کا تعلق ہے،تو ان میں سےپہلی کتاب "کتاب الخراج "میں ان الفاظ کےساتھ خط ہی موجود نہیں ہے، بلکہ  ان الفاظ کے علاوہ ،ایک دوسراخط   موجودہے جس کی تفصیل ذیل میں بیان کی جائے گی۔

   اور دوسری کتاب"مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ" کے جس مقام سے حوالہ دیا گیا،اس مقام پراس خط کو نقل کرنے سے پہلے لکھا ہے کہ اس خط کے موضوع و من گھڑت ہونے میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں ہے،چنانچہ اسی مجموعہ  میں اولاً دُرست واقعہ بیان کرنے کے بعدایک عنوان باندھا :"نسختان لمکتوب النبی ﷺ الی نجران…ولا یوجد ادنی شبھۃ  فی ان ھذین النصین من الموضوعات" یعنی اب جو دو خط نقل کیے جائیں گے،یہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف منسوب  ہیں، لیکن ان کے موضوع ہونے میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں ہے۔([2])

   جبکہ تیسری کتاب " السماحۃ الاسلامیہ " میں کسی بھی مستنداسلامی کتاب کا حوالہ ذکرنہیں کیا گیا، حالانکہ اس کے اصل خط  کے خلاف ہونے کی وجہ سے  اس کی اصل  اور ثبوت کا تقاضا مزید  بڑھ جاتا ہے۔

   اس خط کے دُرست نہ ہونے کی ایک دلیل  اس کا اصل معاہدہ کے خلاف  ہونا ہے کہ  کتب  احادیث و سِیَر وغیرہ  میں  نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاعیسائیوں کے ساتھ جومعاہدہ مذکور ہے،اس میں موجود ہے کہ  تم سالانہ اتنا اتنا مال  بطورِ جزیہ ادا کرو گے ،ظلم و زیادتی نہیں کرو گے ، سود نہیں کھاؤ گے، صلاح و درستی پر قائم رہو گے،اللہ تعالیٰ  اور رسول  اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اسلام کا برائی کے  ساتھ ذکر نہیں کرو گے، نہ ان کی توہین کرو گے،اگر تم نے کسی بھی معاملے میں  خلاف ورزی  کی،تو یہ معاہدہ کالعدم شمار  ہوگااور ہمارے ہاں حالیہ جس معاہدے کو وائرل کیا جا رہا ہے،وہ اس کے  خلاف ہے اوراس  کے ذریعے  لوگوں کو درس یہ دیا جا رہا ہے کہ  عیسائی جو مرضی کرتے پھریں، معاذاللہ ! انہیں نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہر چیز کی کھلی آزادی  دی ہے ،خواہ اسلام و شعائرِ اسلام کی بے حرمتی و گستاخی ہی کریں ،ان کو اس پر کوئی سزا نہیں دی جائے گی  ، نعوذ باللہ من ذلک ۔

   نیز اس خط  کے الفاظ پرغورکیا جائے  ،تو خودمعاہدہ کی نفسِ عبارت بھی اس بات پر دلیل ہے کہ یہ خط نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا لکھوایا گیا نہیں ، بلکہ من گھڑ ت ہے  کہ اس میں ایسی باتیں بیان کی گئی ہیں جو واضح طور پر قرآن و سنت  کی دیگر نصوص کے خلاف  ہیں، جیساکہ یہ الفاظ: اور خدا کی قسم میں اس سے پرہیز کروں گا  جو ان کو ناخوش کرے  ۔۔۔ بے شک وہ میرے اتحادی ہیں  اورانہیں ان تمام کے خلاف میری امان حاصل ہے ، جن سے وہ نفرت کرتے ہیں۔۔۔ ان کے گِرجا گھروں کا احترام کیا جائے گا ۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ قیامت تک اور اس دنیا کے اختتام تک اس حلف کی پاس داری کرے۔ ہر ذی شعورسمجھ سکتا ہے کہ  حضور علیہ  الصلاۃ و السلام عیسائیوں کی عبادت گاہوں کا احترام کرنے کا کیسے فرماسکتے ہیں،جبکہ ان جگہوں میں شرک  ہوتا ہے؟نیز جب اُس دور میں قرآن نازل ہورہا تھا اور کئی اَحکام کفار کے حوالے سے بدل رہے تھے،اُس وقت عیسائیوں سے قیامت تک کے لیے  ایسا معاہدہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟انہی موضوع  و من گھڑت خطوط  میں سے بعض میں یہاں تک لکھا گیا:اگر کوئی عیسائی جرم اورقابلِ سزا  کام بھی کرے،تو مسلمان اس کا جرمانہ ادا کریں گے،چنانچہ وائرل خط میں”مجموعۃ الوثائق  کے جس مقام کا حوالہ دیا گیا،اس کوموضوع قرار دیتے ہوئے  اس میں لکھاگیا:وان اجرم  احدمن النصاری  او جنی جنایۃ  فعلی المسلمین  نصرہ  والمنع والذب عنہ والغرم عن جریرتہ۔ والعیاذ باللہ تعالیٰ۔([3])

   لہٰذا عقلِ سلیم سے  کام لیاجائے،تو واضح ہوگا کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایسا معاہدہ  فرمانا  متصور ہی نہیں،لہٰذا عقلاً و نقلاً ہراعتبار سے اس خط کوحضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف منسوب کرنادرست نہیں۔

   یاد رہے!عیسائیوں کے متعلق نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف منسوب اس طرح کے کئی اَور خطوط  بھی پائے جاتے ہیں ، جن کے موضوع ومن گھڑت ہونے کی نشاندہی   ہمارے اکابر علما ءنے بہت پہلے کر دی تھی۔ ان میں سے بعض ایسے خطوط ہیں  جن میں اُن صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے نام  بطورِ گواہ   لکھے گئے،جواس وقت تک ایمان بھی نہیں لائے تھے،اسی طرح  بعض میں ہجری تاریخ  لکھی ہوئی ملتی ہے،حالانکہ تاریخ سے واقف اَفراد جانتے ہیں کہ ہجری تاریخ کو حضرت عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنے دورِ خلافت میں  شروع کیا تھا، تو زمانۂ رسالت میں ہجری تاریخ  لکھے جانے کا کیا معنیٰ؟

(2)نبی پاک کے نصاریٰ کے ساتھ معاہدے کی اصل اور حقیقت :

   کتبِ احادیث اور کتبِ سیر و تواریخ  کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بہت سے خُطوط  روانہ فرمائے اور کئی صُلح کے معاہدےبھی فرمائے،علماو محدثین نے ان کو اپنی کتب میں ذکر بھی کیا ہے،انہی میں سے ایک معاہدہ نجران کے عیسائیوں کے ساتھ بھی  فرمایا ، جس میں انہیں جزیہ ادا کرنے اور دیگر شرائط کی پابندی كرنے پر کچھ رخصتیں عطا فرمائیں،اس حوالے سے یہ ایک ہی معاہدہ کتب میں ملتا ہے،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے بہت سے من گھڑت اور جھوٹے خطوط بھی تیارکرلیے گئےاوریوں صحیح   کی جگہ ان کوعام کردیاگیا۔

   ذیل میں اصل معاہدہ  کاپس منظر،اس کے احوال اورتفصیل بیان کی جائے گی ۔

   معاہدے کاپس منظر:

یہ معاہدہ اس وقت ہواجب نجران سے عیسائیوں  کا ایک گروہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں مدینہ منورہ حاضر ہوا،چنانچہ یہ چودہ آدمیوں کی جماعت تھی جو سب کے سب نجران کے سرکردہ معروف افراد تھے اور اس وفد کی قیادت کرنے والے تین شخص تھے:

(1) ابو حارثہ بن علقمہ جو عیسائیوں کا پوپ اعظم تھا۔

(2) اُہیب جو ان لوگوں کا سردار اعظم تھا۔

(3) عبدالمسیح جو سردار اعظم کا نائب تھا اور "عاقب" کہلاتا تھا۔

   یہ سب نمائندے نہایت قیمتی اور نفیس لباس پہن کر عصر کے بعد مسجد نبوی میں داخل ہوئے اور اپنے قبلہ کی طرف منہ کر کے اپنی نماز ادا کی،پھر ابو حارثہ اور ایک دوسرا شخص دونوں حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ نے نہایت کریمانہ لہجے میں ان دونوں سے گفتگو فرمائی اور سوال و جواب کی صورت میں ایک طویل  مکالمہ ہوا ،حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیغمبرانہ طرزِ استدلال اور حکیمانہ گفتگو سے چاہیے تو یہ تھا کہ یہ وفد اپنی نصرانیت کو چھوڑ کر دامنِ اسلام میں آجاتا،مگر ان لوگوں نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جھگڑا شروع کردیا ، یہاں تک کہ بحث و تکرار کا سلسلہ بہت دراز ہوگیا ، تو اللہ تعالیٰ نے سورہ آلِ عمران کی یہ آیت نازل فرمائی: ﴿فَمَنْ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعْدِ مَا جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَ نَا وَ نِسَآءَکُمْ وَاَنۡفُسَنَا وَاَنۡفُسَکُمْ   ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیۡنَ﴾ ترجمہ  کنز العرفان : پھر اے حبیب! تمہارے پاس علم آجانے کے بعد جو تم سے عیسیٰ کے بارے میں جھگڑا کریں، تو تم ان سے فرما دو: آ ؤ ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کواور اپنی عورتوں کواور تمہاری عورتوں کواور اپنی جانوں کواور تمہاری جانوں کو (مقابلے میں ) بلا لیتے ہیں پھر مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالتے ہیں ۔([4])

    جب رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نجران کے عیسائیوں کو یہ آیت پڑھ کر سنائی اور مباہلہ کی دعوت دی تو کہنے لگے کہ ہم غور اور مشورہ کرلیں،کل آپ کو جواب دیں گے۔ جب وہ جمع ہوئے تو انہوں نے اپنے سب سے بڑے عالم اور صاحبِ رائے شخص عاقب سے کہا کہ’’ اے عبدُ المسیح! مباہلہ کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اس نے کہا: اے نصاریٰ کی جماعت! تم پہچان چکے ہو کہ محمدنبی مُرْسَل تو ضرور ہیں ، اگر تم نے ان سے مباہلہ کیا تو سب ہلاک ہوجاؤ گے۔اب اگر نصرانیت پر قائم رہنا چاہتے ہو تو انہیں چھوڑ دو اور گھروں کو لوٹ چلو۔ یہ مشورہ ہونے کے بعد وہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ حضورانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گود میں تو امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  ہیں اور دستِ مبارک میں امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ہاتھ ہے اور حضرت فاطمہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا اور حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے ہیں اور حضورپر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سب سے فرما رہے ہیں کہ  جب میں دعا کروں تو تم سب آمین کہنا۔ نجران کے سب سے بڑے عیسائی پادری نے جب ان حضرات کو دیکھا تو کہنے لگا :اے جماعت  نصاریٰ! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے پہاڑ کو ہٹادینے کی دعا کریں تواللہ تعالیٰ پہاڑ کو جگہ سے ہٹا دے،ان سے مباہلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی عیسائی باقی نہ رہے گا۔ یہ سن کر نصاریٰ نے سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کیا کہ  مباہلہ کی تو ہماری رائے نہیں ہے۔ آخر کار انہوں نے جزیہ دینا منظور کیا،مگر مباہلہ کے لیے تیار نہ ہوئے۔([5])

معاہدے کے احوال:

   اب جومعاہدہ ہوااس کے متعلق کتبِ احادیث میں مختلف الفاظ ملتے ہیں،چنانچہ سنن ابوداؤدمیں اس کے متعلق یوں مروی ہواہے:عن ابن عباس قال:صالح رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أهل نجران على ألفي حلة، النصف في صفر، والبقية في رجب،يؤدونها إلى المسلمين،و عاريةثلاثين درعا،وثلاثين فرسا،وثلاثين بعيرا،وثلاثين من كل صنف من أصناف السلاح، يغزون بها،والمسلمون ضامنون لها حتى يردوها عليهم، إن كان باليمن كيد أو غدرة على أن لا تهدم لهم بيعة، ولا يخرج لهم قس، ولا يفتنوا عن دينهم ما لم يحدثوا حدثا، أو يأكلوا الربا، قال إسماعيل: فقد أكلوا الربا، قال أبو داود : إذا نقضوا بعض ما اشترط عليهم فقد أحدثواترجمہ  :حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اہلِ نجران سے اس شرط پر صلح فرمائی کہ وہ کپڑوں کے دو ہزار جوڑے مسلمانوں کو دیا کریں گے،آدھا ماہِ صفر میں دیں اور باقی ماہِ رجب میں اور تیس زِرہیں، تیس گھوڑے اورتیس اونٹ اور ہر قسم کے ہتھیاروں میں سے تیس تیس ہتھیار جس سے مسلمان جہاد کریں گے،بطورِ عاریت دیں گےاور مسلمان اُن کے ضامن ہوں گے ،یہاں تک کہ (ضرورت پوری ہو جانے پر)انہیں لوٹا دیں گے (اور یہ عاریۃً دینا اُس وقت ہو گا )جب یمن میں کوئی فریب ، جنگ ،وغیرہ کرے (یعنی سازش کر کے نقصان پہنچانا چاہے) یا مسلمانوں سے غداری کرے اور عہد توڑے (اور وہاں جنگ در پیش ہو اور یہ معاہدہ عیسائیوں کے حق میں ) اس شرط کے ساتھ  (ہے )کہ ان کا کوئی گِرجا نہ گرایا جائے گااور نہ کوئی پادری نکالا جائے گا اور ان کے دین میں مداخلت نہ کی جائے گی، جب تک کہ وہ کوئی نئی بات نہ پیدا کریں یا سود نہ کھانے لگیں۔ اسماعیل بن عبدالرحمن سدی کہتے ہیں: پھر وہ سود کھانے لگے۔ امام ابوداؤد فرماتےہیں: جب انہوں نے اپنے اوپر لاگو بعض شرائط توڑ دیں تو نئی بات پیدا کر لی(یعنی معاہدے کی خلاف ورزی کی ،لہٰذا ان کو ملنے والے تحفظات ختم اور اسی  لیے جلاوطن بھی کیے گئے) ۔([6])

   اسی مفہوم کی روایت ابن زنجویہ(متوفی:251ھ) نے "الاموال " میں، عمر بن شبہ (متوفی:262ھ)  نے "تاریخ المدینہ لابن شبہ "میں ،امام بیہقی نے "السنن الکبری " میں، ضیا ءالدین  المقدسی (متوفی:643ھ) نے   " الاحادیث المختارۃ " میں،محی السنہ امام بغوی نے  "   شرح السنۃ للبغوی " میں  امام خطابی  نے "معالم السنن"میں  ، امام عبد الحق ازدی المعروف ابن الخراط  نے  " احکام الکبریٰ " میں ،علامہ ابنِ اثیرنے  " الکامل فی التاریخ  " میں، ابنِ سعد نے" طبقات کبری " اورعلامہ ابن رُسلان مقدسی شافعی،محرّرِ مذہبِ مہذَّب امام محمداور قاضی القضاۃ امام ابو یوسف رَحِمَھُمُ اللہُ  تَعَالیٰ ، وغیرہم نے بھی نقل کی ہے۔

    مذکورہ بالا حدیث پاک کے تحت علامہ ابن رُسلان  شہاب الدین مقدسی رملی رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ (سالِ وفات:844 ھ/1440ء)لکھتے ہیں: قال الماوردی : المشروط علیھم إما مستحق أو مستحب، فالمستحق ستة أشياء: أن لا يذكروا كتاب اللہ  بطعن ولا تعريض ولا يذكروا رسول اللہ صلى  اللہ عليه وسلم بتكذيب ولا إزراء عليه، ولا يذكروا دين الاسلام بذم ولا قدح فيه، ولا يصيبوا مسلمة بزنا ولا باسم نكاح، ولا يفتنوا مسلما عن دينه، ولا يعينوا أهل الحرب، ولا يؤوا  عینا لهم وإنما شرطت هذه الستة عليهم تأكيدا لتغليظ العهد عليهم، و ليكون ارتكابها بعد الشرط نقضا لعهدهم“ترجمہ : امام ماوردی نے کہا:معاہدہ میں مشروط کاموں میں کچھ لازم تھے ،کچھ استحبابی تھے جو کام ان پر لازم تھے ان میں چھ کام یہ بھی تھے کہ:

(1) کتاب اللہ کا طعن و تعریض کے ساتھ ذکر نہیں کریں گے۔

(2) رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہیں جھٹلائیں گے اور نہ ہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عیب اور برائی کے ساتھ ذکر کریں گے۔

(3)دین اسلام کا مذمت اور برائی کے ساتھ  ذکر نہیں کریں گے۔

(4)کسی مسلمان عورت کے پاس زنا اور نکاح کے نام پر بھی نہیں جائیں گے۔

(5) کسی مسلمان کو اس کے دین سے نہیں پھیریں گے۔

(6) اور نہ یہ (مسلمانوں کے خلاف)اہلِ حرب (یعنی دیگر کفار کی )  مدد کریں گے، نہ ان کے کسی جاسوس کو  پنا ہ دیں گے،ان چھ باتوں کی شرط معاہدہ پرسختی اور  تاکید سے کار بند رہنے کے لیے لگائی گئی ۔نیز  اگر وہ ان شرائط کو طے کرنے کے بعد ان باتوں کا ارتکاب کرتے ہیں،تو معاہدہ ختم ہو جائےگا۔([7])

   اس معاہدے کی تائید صحیح بخاری شریف  کی اس حدیث پاک سے بھی ہوتی ہے،چنانچہ امام بخاری عیسائیوں کے وفد نجران کا تذکرہ کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں: عن حذيفة قال:جاء العاقب والسيد،صاحبا نجران، إلى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يريدان أن يلاعناه، قال:فقال أحدهما لصاحبه:لا تفعل،فواللہ لئن كان نبيا فلاعنا لا نفلح نحن ولا عقبنا من بعدنا، قالا: إنا نعطيك ما سألتنا، وابعث معنا رجلا أمينا،ولا تبعث معنا إلا أمينا،فقال:لأبعثن معكم رجلا أمينا حق أمين،فاستشرف له أصحاب رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، فقال: قم يا أبا عبيدة بن الجراح،فلما قام،قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:هذا أمين هذه الأمة“ترجمہ:حضرت حذیفہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  بیان کرتے ہیں کہ وفدِ نجران کے دو عیسائی سردار عاقب اور سید ،نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں مباہلہ کرنے کےارادے سے آئے ،تو ایک نے دوسرے سے کہاکہ ایسا نہ کر ،  خدا کی قسم !اگر یہ نبی ہوئے  اور پھر بھی ہم نے مباہلہ کیا،تو ہم کامیاب نہیں ہوں گے اور نہ ہی ہمارے بعد ہماری نسلیں ،پھر ان دونوں نے نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں (جزیہ کے متعلق)عرض کی:آپ نے جوارشاد فرمایا ، ہم وہ دیں گے،آپ ہمارے ساتھ ایسے شخص کوبھیجیں جو بہت امین ہو(تاکہ وہ ہم سے جزیہ لےاور ہم پر ایمانداری سے حکومت کرے)آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’میں تمہارے پاس ایک ایسا امین بھیجوں  گا جو ویسا ہی امین ہے جیسا اسے ہونا چاہیے،تمام صحابہ اس منصب کے شرف کو حاصل کرنے کی خواہش کرنے لگے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد  فرمایا :اے ابو عبیدہ! کھڑے ہو جاؤ،جب ابوعبیدہ کھڑے ہوئے ،تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :یہ اس امت کے امین ہیں ۔ ([8])

   مذکورہ بالا حدیثِ پاک کے تحت علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:855ھ/1451ء) نے طبقاتِ ابن سعدکے حوالے سے معاہدےکا تفصیلی واقعہ بیان کیا،جس کی عبارت درج ذیل ہے: وذكر ابن سعد أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم،كتب إلى أهل نجران فخرج إليه وفدهم أربعة عشر رجلا من أشرافهم فيهم العاقب وهو عبد المسيح رجل من كندة وأبو الحارث بن علقمة رجل من ربيعة وأخوه كرز والسيد وأوس ابنا الحارث وزيد بن قيس وشيبة وخويلد وخالد وعمرو وعبد اللہ، وفيهم ثلاثة نفر يتولون أمورهم: العاقب أميرهم وصاحب مشورتهم والذي يصدرون عن رأيه، وأبو الحارث أسقفهم وحبرهم وإمامهم وصاحب مدارسهم، والسيد وهو صاحب رحالهم ، فدخلوا المسجد وعليهم ثياب الحبرة وأردية مكفوفة بالحرير فقاموا يصلون في المسجد نحو المشرق، فقال صلى اللہ عليه وسلم: دعوهم، ثم أتوا النبي صلى اللہ عليه وسلم فأعرض عنهم ولم يكلمهم، فقال لهم عثمان: ذلك من أجل زيكم فانصرفوا يومهم ثم غدوا عليه بزي الرهبان، فسلموا فرد عليهم ودعاهم إلى الاسلام فأبوا وكثر الكلام واللجاج وتلا عليهم القرآن، وقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: إن أنكرتم ما أقول لكم فهلم بأهلكم فانصرفوا على ذلك،قوله: (يريدان أن يلاعناه)،أي: يباهلاه،من الملاعنة: وهي المباهلة وفيه نزلت:﴿تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَ نَا وَ نِسَآءَکُمْ وَاَنۡفُسَنَا وَاَنۡفُسَکُمْ      ثُمَّ نَبْتَہِلْ﴾(آل عمران:61)والمباهلة أن يجتمع قوم إذا اختلفوا في شيء فيقولون :لعنة اللہ على الظالم قوله:(فقال أحدهمالصاحبه) ذكر أبو نعيم في الصحابة أنه السيد،وقيل:هو العاقب، وقيل: شرحبيل قوله: (فلاعناه)،بفتح العين وتشديد النون على صيغة المتكلم مع الغير وفي رواية الكشميهني: فلاعننا، بفتح النونين على أن: لاعن، فعل ماض فيه الضمير يرجع إلى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم و:نا،مفعوله قوله:(من بعدنا) وفي رواية ابن مسعود ولا عقبنا من بعدنا أبدا،قوله: (قالا)أي:العاقب والسيد:(إنا نعطيك ما سألتنا)وذلك بعد أن انصرفوا من عند رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم وهم ممتنعون عن الاسلام، كما ذكرنا عن قريب،وجاء السيد والعاقب وقالا:إنا نعطيك ما سألتنا، وفي رواية ابن سعد: فغدا عبد المسيح وهو العاقب ورجلان من ذوي رأيهم فقالوا: قد بدالنا أن لا نباهلك، فاحكم علينا بما أحببت ونصالحك، فصالحهم على ألفي حلة في رجب وألف في صفر أو قيمة ذلك من الأواق، وعلى عارية ثلاثين درعا وثلاثين رمحا وثلاثين بعيرا وثلاثين فرسا إن كان باليمن كيدولنجران وحاشيتهم جوار اللہ وذمة محمد النبي صلى اللہ عليه وسلم على أنفسهم وملتهم وأرضهم وأموالهم ،غائبهم وشاهدهم وبيعهم، لا يغير أسقف عن سقيفاه ولا راهب عن رهبانيته ولا واقف عن وقفا نيته، وأشهد على ذلك شهودا منهم أبو سفيان والأقرع بن حابس والمغيرة بن شعبة فرجعوا إلى بلادهم، فلم يلبث السيد والعاقب إلا يسيرا حتى رجعا إلى النبي صلى اللہ عليه وسلم فأسلما۔ مفہوم اوپربیان ہوچکا ۔([9])

   اس اصل معاہدہ کی "کتاب الخراج "سے مزید تفصیل کچھ یوں ہے:كتاب رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم لأهل نجران:بسم اللہ الرحمن الرحيم. هذا ما كتب محمد رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم لأهل نجران  إذ كان عليهم حكمه في كل ثمرة وفي كل صفراء وبيضاء ورقيق، فأفضل ذلك عليهم وترك ذلك كله لهم على ألفي حلة من حلل الأواقي في كل رجب ألف حلة وفي كل صفر ألف حلة مع كل حلة أوقية من الفضة، فما زادت على الخراج أو نقصت عن الأواقي فبالحساب، وما قضوا من دروع أو خيل أو ركاب أو عروض،أخذ منهم  بالحساب. وعلى نجران مؤنة رسلي ومتعتهم ما بين عشرين يوما فما دون ذلك، ولا تحبس رسلي فوق شهر، وعليهم عارية ثلاثين درعا وثلاثين فرسا وثلاثين بعيرا إذا كان كيد باليمن ومعرة وما هلك مما أعاروا رسلي من دروع أو خيل أو ركاب أو عروض،فهو ضمين على رسلي حتى يؤدوه إليهم ولنجران وحاشيتها جوار اللہ وذمة محمد النبي رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم على أموالهم وأنفسهم وأرضهم وملتهم وغائبهم وشاهدهم وعشيرتهم وبيعهم وكل ما تحت أيديهم من قليل أو كثير، لا يغير أسقف من أسيقفيته ولا راهب من رهبانيته ولا كاهن من كهنته وليس عليه دنيةولا دم جاهلية ولا يخسرون ولا يعسرون ولا يطأ أرضهم جيش ومن سأل منهم حقا فبينهم النصف غير ظالمين ولا مظلومين ومن أكل ربا من ذي قبل فذمتي منه بريئةولا يؤخذ رجل منهم بظلم آخر، وعلى ما في هذا الكتاب جوار اللہ وذمة محمد النبي رسول اللہ أبدا حتى يأتي اللہ  بأمره، ما نصحوا وأصلحوا ما عليهم غير متفلتين بظلم ،شهد أبو سفيان بن حرب وغيلان بن عمرو ومالك بن عوف من بني نصر والأقرع بن حابس الحنظلي والمغيرة بن شعبة ترجمہ:اہل نجران کے لیے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا خط: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔یہ خط محمدرسول  اللہ بن عبداللہ(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) کی طرف سے  اہل نجران  کے لیے  ہے ،چونکہ ان کے ہر پھل ،ہر زرد اور ہر سفید (یعنی سونے ، چاندی)اور ہر باریک چیز میں نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا حکم جاری ہوتاہے،مگر پھر بھی نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے  ان پر فضل فرمایا اور  اس تمام کو اس شرط پر چھوڑ دیا کہ  اواقی حلوں میں سے   دو ہزار حلے لازم ہوں گے ، جن میں سے ایک ہزار حلے رجب میں  اور ایک ہزار حلے صفر میں دینا لازم ہیں ،مزید یہ کہ ہر حلے کے ساتھ ایک اوقیہ چاندی بھی لازم ہےاور خِراج میں جو زیادہ ہو یااوقیہ میں  کمی ہو گی ،تو اس کو اسی حساب سے پورا کیا جائے گا اور جو زِرہ ،گھوڑے، لگامیں اور سامان  کے بارے میں فیصلہ ہوا ،اُسی حساب  سے لیا جائے گا۔نجران پر ہمارے قاصدوں کا   خرچہ اور برتنے  کا سامان   20دن یا اس سے کم کا لازم ہو گا ،ایک مہینے سے اوپر ہمارے قاصد  کو نہیں روکا جائے گا، یعنی مہینے سے پہلے ہی کام پورا کر دیا جائے اور جب یمن یا معرّہ میں جنگ اور دھوکہ ہو ،تو  نجران والوں پر تیس زرہیں،تیس گھوڑے اور تیس اونٹ  بطور  عاریت دینا لازم ہوں گے،ہمارے قاصدوں کو عاریت میں دیا ہوا سامان ، زرہیں  ،گھوڑے ،لگامیں ، اگر ہلاک ہو جائے ،تو قاصد وں پر اس کا ضمان ہو گا ،حتی کہ وہ یہ سب کچھ  ادا کر دےاور نجران اور جو اس کے ارد گرد ہیں ، یہ  سب ،ان کے اَموال ،ان کی جانیں ،زمینیں،دین ،ان کے غائب افراد ،حاضر افراد ،خاندان ،گرجے اور جو کچھ ان کے تحت ہے ،سب  اللہ اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ذمہ  پر ہے، ان کے عہدے داروں کو ان کے عہدے سے تبدیل نہیں کیا جائے ،نہ ہی ان کے راہبوں کو اور نہ ہی ان پر عیب لگایا  جائے گا،نہ ہی جاہلیت کے قتل کا خون لازم ہوگا ،لوگ ان کو نقصان نہیں پہنچائیں گے اور نہ ہی لوگ تنگ کریں گے ،کوئی بھی لشکر ان کی زمینوں کو  نہیں روندے گا ،اگر ان میں سے کوئی کسی حق کا مطالبہ کرے ،تو انصاف کرنا لازم ہے، نہ  ظالم بنیں،نہ مظلوم ۔اور  اہل نجران میں سے جو سود کھائے گا ،تو میں  اُس سے بری الذمہ ہوں،ان میں کسی بھی مرد کو دوسرے کے ظلم کی وجہ سے نہیں پکڑا جائے گا ۔ (اس خط کے مطابق جو عمل پیرا ہو گا، ) وہ  اللہ   اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و  سلم  کے ذمّہ میں ہے ،حتی کہ اللہ پاک اپنا حکم لے آئے ۔( یہ سب احکام  اور وعدے اس وقت تک ہیں) جب تک اہلِ نجران صلاح اور درستی پر قائم رہیں  اور ظلم کے ساتھ بدلنے والے نہ بنیں ، اس خط میں گواہ ابو سفیان بن حرب ،غیلان بن عمرو ، مالک بن عوف  ، اقرع بن حابس اور مغیرہ بن شعبہ ہیں ۔([10])

تبصرہ :

   معاہدے کے متعلق ذکر کی گئی ان تصریحات پرتھوڑا سا غور و خوض کرنے سے بہت سے نکات ہمارے سامنے آجاتے ہیں کہ درحقیقت معاہدہ کیا تھا  اور اس کے نکات کیا تھے؟یہاں چند اہم  کی  نشاندہی کی جاتی ہے۔

(1)نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے جو معاہدہ فرمایا ،وہ صرف نجران کے عیسائیوں کے ساتھ تھا،دنیا بھر کے تمام عیسائیوں کا ذکر معاہدے میں موجود نہیں ۔

(2)یہ معاہدہ بھی علی العموم ہر چیز کی اجازت پر مبنی نہیں تھا ، بلکہ مخصوص شرائط کی بنیاد پر معاہدہ کیا گیا،چنانچہ یہ معاہدہ تب تک تھا جب تک اللہ کا مزید کوئی حکم نہ آجائے،جیساکہ فرمایا : حتى يأتي اللہُ  بأمره ۔یہ معاہدہ تب تک تھا جب تک نصاری صلاح  و درستی پر قائم رہیں اور جو معاہدہ ہوا اس پرعمل پیرا بھی رہیں ،اگراس سے پِھریں ،تو معاہدہ  کالعدم اور کوئی امان نہیں ہو گی۔مزیدفرمایا:یہ معاہدہ تب تک ہے جب تک یہ سود  سے بچتے رہیں اور کسی کام کو ظلم کے ساتھ نہ بدلیں۔ان سخت شرائط  کے ساتھ صلح کی گئی اور وہ لوگ اس پر قائم بھی نہ رہے(جیساکہ تصریحات نیچے آرہی ہیں)، یہی وجہ ہے کہ ان کو جزیرہ عرب سے نکالنے کا خود فرمانِ نبوی موجود ہے۔

(3)اس معاہدہ میں انہیں جزیہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے،معاہدہ کی آخری شق کی رُو سے جزیہ نہ دیا ،تو معاہدہ ختم اور تحفظ و رعایات سب کالعدم قرار پائیں گی۔

(4) عبادات کے علاوہ دیگر معاملات میں اسلامی اَحکام عیسائیوں پر بھی لازم ہوں گے،مثلا چوری،بدکاری ،بدکلامی ،گستاخی،وغیرہ جرائم کی سزائیں ان پر بھی لاگو ہوں گی ، جیساکہ یہ بات ان اَلفاظ سے ظاہر و باہر ہے:إذ كان عليهم حكمه۔

(5) عیسائی کوئی ظلم و زیادتی نہیں کریں گے اور ان پر بھی کوئی ظلم و زیادتی نہیں ہوگی،اگر عیسائیوں نے ظلم و زیادتی کی،تو معاہدہ کالعدم اور تمام تحفظ و رعایات ختم۔

(6) عیسائی سود کا لین دین بھی نہیں کریں گے،اگر سود کا معاملہ کیا ،تو یہ معاہدہ کالعدم ہو جائے گا۔

   اس تفصیل سے واضح ہو گیا کہ اولاً تو ایک سے زائد کوئی اور معاہدہ نہ تھا اور ہوابھی تو وہ متعددشرائط کے ساتھ ہوا تھا،جو انہوں نے  توڑ دیا تھااوراس بات کا ثبوت بھی کتبِ احادیث میں موجودہےجو ہم ذیل میں ذکر کریں گے، بہرحال اس معاہدہ کے تفصیلی بیان سے یہ واضح ہےکہ عیسائیوں کے ساتھ ایسی ہمدردیاں کہ مسلمانوں کوچھوڑ کر، مسجد وں  پر ناجائز ٹیکسس لگاکر عیسائیوں کے گرجوں کو آبادکرنا اوران پر مسلمانوں  کا سرمایہ لگانا،کسی بھی معاہدہ میں شامل نہ تھا ، بلکہ یہ اسلامی روح کے منافی عمل ہےاورمزید گہرائی سے دیکھا جائے ،تو ایسے کام پر معاونت ہے ، جو اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول  اللہ   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور اسلام کے خلاف ہے۔

   نجران کے نصاریٰ نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی ، لہٰذا ان سے کیے گئے معاہدے بھی  کالعدم ہو گئے ،چنانچہ سنن ابو داؤد کی روایت جواوپر مذکور ہوئی اس کے آخری الفاظ یہ ہیں:ما لم يحدثوا حدثا، أو يأكلوا الربا، قال إسماعيل:فقد أكلوا الربا، قال أبو داود:إذا نقضوا بعض مااشترط عليهم فقد أحدثوا یعنی یہ معاہدہ اس وقت تک کارآمدہے جب تک سودنہ کھائیں  اورکوئی نئی چیزداخل نہ کردیں۔امام اسماعیل بن عبد الرحمن سُدی نے فرمایا  کہ انہوں نے سود  کھایا اور امام ابو داؤد نے فرمایا: جب انہوں نے شرائط کی پاسداری نہیں کی ،توانہوں نےنئی چیز داخل کر دی ، (تواس لیےاب امان بھی نہ رہی)۔ ([11])

   مزید اس حدیث  پاک سے بھی اس بات   کی تائید ہوتی ہے کہ انہوں نے طے شدہ معاہدہ  پر عمل نہیں کیا، تو انہیں جزیرۂ عرب سے نکالنے کا حکم ارشاد ہوا،چنانچہ حدیث پاک  میں ہے :عن أبي عبيدة بن الجراح:إن آخر كلام تكلم به رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أن قال: أخرجوا اليهود من أرض الحجاز وأهل نجران من جزیرۃ العرب ترجمہ : حضرت ابو عبیدہ بن جراح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا آ خری کلام یہ تھا: یہود کو حجاز سے اور اہل نجران کو جزیرہ عرب سے نکال دو ۔([12])

   شارحِ بخاری،علامہ بدر الدین عینی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس حدیث پاک کو نقل کرنے کے بعد  لکھتے ہیں: إنما أخرج أهل نجران من الجزيرة، وإن لم تكن من الحجاز، لأنه صلى اللہ عليه وسلم صالحهم على أن لا يأكلوا الربا فأكلوه یعنی  اہل نجران کوجزیرۂ عرب سے اس لیے نکالا گیا، اگرچہ وہ حجاز کا حصہ نہیں ہے،کیونکہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم نے ان  کے ساتھ اس بات پر صلح فرمائی تھی کہ وہ سود نہیں کھائیں گے ، تو جب انہوں نے سود کھایا ، (تو صلح ختم ہوگئی ، لہٰذا ان کو نکال دیا جائے گا)۔ ([13])

   اورحضرت عمر فارو ق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اس فرمانِ نبوی پر عمل کروایا ، چنانچہ محمد بن سعد بصری زہری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں:وهو أخرج اليهود من الحجاز وأجلاهم من جزيرة العرب إلى الشام وأخرج أهل نجران وأنزلهم ناحية الكوفةیعنی امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے یہودکوحجاز (جزیرۂ عرب) سے  ملک شام کی طرف اور اہل نجران کوکوفہ  کی طرف نکال  دیا۔([14])

(3)کیا اسلامی ریاست میں عیسائیوں  کو ہرمعاملے میں کھلی آزادی ہے اورکسی بھی صورت میں کسی عیسائی کو قانوناً سزا نہیں دی جاسکتی؟

   اس کا جواب اوپر کی گئی گفتگو کے ضمن میں واضح ہو گیا کہ کسی بھی عیسائی کو  ہر معاملے میں کھلی چھٹی نہیں ہے کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے ،  بلکہ وہ بھی فروعات میں  اسلامی قوانین کے پابند ہیں جیسا کسی بھی ملک میں رہنے والا شخص اس ملک کے قوانین کا پابند ہوتا ہے ، ان میں سے کوئی شخص اگرکسی اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے کوئی جرم کرتا ہے، مثلاً چوری ، بدکاری ،بدکلامی ،گستاخی،وغیرہ ، تو اس پر اس جرم کے مطابق سزا عائد ہوگی ،جیساکہ اوپر بیان کردہ سنن ابو داؤد کی حدیثِ پاک کی  شرح ابنِ رسلان    سے واضح ہے ۔

(4)کیا ہر فرد اپنی مرضی اور چاہت سے کوئی بھی دین اختیار کرسکتا ہے ، خواہ وہ دین، دین اسلام  کے علاوہ ہو اور پھر بھی وہ حق پر ہو گا؟ اور کیا تمام مذاہبِ عالم درست اور قابل احترام ہیں؟

   یہ کہنا کہ دوسرے دین بھی حق ہی ہیں ،لہٰذا  ہر شخص اپنی مرضی سے جو بھی دین اختیار کرنا چاہے ،تو وہ کر سکتا ہے، یہ بات ہرگز درست نہیں ،کیونکہ دینِ عیسوی اور دینِ موسوی حق ہے،مگر اس سے مراد وہ  دین ہے جو وہ انبیائے کرام علیہم السلام لے کر تشریف لائے ، نہ کہ آج کا دینِ عیسوی مراد ہے ، کیونکہ تورات اور عیسی علیہ السلام کی  تعلیمات میں بہت سی تحریفات واقع ہو چکی ہیں اورچونکہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم  آخری نبی بن کر تشریف لے آئے،لہٰذا اب ہر ایک  کے لیے دینِ محمدی  یعنی نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کی پیروی اورآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کا کلمہ پڑھنا ضروری ہے اور یہی دین، دینِ حق ہے اور جو اس سے رُو گردانی کرے گا،وہ باطل پر ہوگا،چنانچہ اس ضمن میں چند آیاتِ قرآنیہ اور ان کی تفسیر ملاحظہ کیجیے۔

   اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :﴿‌‌اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ﴾ترجمہ کنزالعرفان:بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اورجنہیں کتاب دی گئی انہوں نے آپس میں اختلاف نہ کیا مگر اپنے پاس علم آجانے کے بعد،اپنے باہمی حسد کی وجہ سے۔ اور جواللہ کی آیتوں کاانکار کرے تو بیشک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔([15])

   اس آیت مبارکہ کے تحت صراط الجنان فی تفسیر القرآن میں ہے:ہر نبی کا دین اسلام ہی تھا، لہٰذا اسلام کے سوا کوئی اور دین بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مقبول نہیں ،لیکن اب اسلام سے مراد وہ دین ہے جو حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم لائے، چونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم   کو اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کے لیے رسول بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کو آخری نبی بنایا، تو اب اگر کوئی کسی دوسرے آسمانی دین کی پیروی کرتا بھی ہو، لیکن چونکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اِس قطعی اور حَتمی دین اور نبی کو مکمل طور پر نہیں مان رہا، لہٰذااس کا آسمانی دین پر عمل بھی مردود ہے۔ یہود و نصاریٰ وغیرہ کفار جو اپنے دین کو افضل و مقبول کہتے ہیں اس آیت میں ان کے دعویٰ کو باطل فرمایا گیا ہے۔یہ آیت یہود و نصاریٰ کے بارے میں اتری جنہوں نے اسلام کو چھوڑا اور سیدُالانبیاء ،محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کی نبوت میں اختلاف کیا اور یہ اختلاف بھی علم کے بعد کیا کیونکہ وہ اپنی کتابوں میں سیدِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کی نعت و صفت دیکھ چکے تھے اور انہوں نے پہچان لیا تھا کہ یہی وہ نبی ہیں جن کی کتبِ الٰہیہ میں خبریں دی گئی ہیں،لیکن اس کے باوجود انہوں نے ماننے  سے  انکار  کیا اور اس انکار و اختلاف کا سبب ان کا

   حسد اور دنیاوی منافع کی طمع تھی۔“ ([16])

   ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَترجمہ کنز العرفان : اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اوردین چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔([17])

   اس آیتِ مبارکہ کے تحت صراط الجنان فی تفسیرالقرآن میں ہے:اللہ تعالیٰ نے واضح طورقرآن پاک میں کئی جگہ فرمادیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے  نزدیک پسندیدہ دین صرف اسلام ہے اور اسلام کے علاوہ کوئی دین اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِ س زمانے میں معتبر نہیں۔ اسلام کے علاوہ کوئی کسی دین کی اخلاقی باتوں پر جتنا چاہے عمل کرلے ، جب تک مکمل طور پر بطورِ عقیدہ اسلام کو اختیار نہیں کرے گا اس کا کوئی عمل بارگاہِ الٰہی میں مقبول نہیں اور اب اسلام سے مراد وہ دین ہے جسے حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کر آئے۔ ([18])

   ایک اور مقام پر اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:﴿هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ ﴾ترجمہ کنز العرفان :وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کردے

   اگرچہ مشرکوں کو ناپسند ہو ۔([19])

   صراط الجنان  فی تفسیر القرآن میں ہے :”یعنی وہی اللہ  ہے جس نے اپنے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمکو صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت کے ذرائع قرآن اور معجزات اور اس سچے دین کے ساتھ بھیجا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور ان کی امت کے لئے منتخب فرمایا ہے ، تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کردے اگرچہ مشرکوں  کو یہ غلبہ ناپسند ہو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے دین اسلام غالب ہوا اور اس کے علاوہ تما م اَدیان اسلام سے مغلوب ہوگئے۔ امام مجاہد رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے کہ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نزول فرمائیں  گے تو روئے زمین پر اسلام کے سوا اور کوئی دین نہ ہوگا۔([20])

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم



[1]۔۔۔کتاب الخراج،ص72، 73/مجموعۃ الوثائق السیاسیہ ، ص 186،191/ السماحۃ  الاسلامیہ ،ص22،25

[2]۔۔۔مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ ، صفحہ 180، مطبوعہ دار النفائس، بیروت

[3]۔۔۔مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ، صفحہ 188، مطبوعہ دار النفائس، بیروت

[4]۔۔۔عجائب القرآن ،ص76، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی ،بحوالہ روح البیان، ج2، ص43، پ3،آل عمران:61

[5]۔۔۔صراط الجنان فی تفسیر القرآن  ، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 61، بحوالہ تفسیر خازن ،جلد1، صفحہ258، مطبوعہ میمنیہ،مصر

[6]۔۔۔سنن ابی داؤد، كتاب الخراج ...باب فی اخذ الجزیۃ ، جلد3، صفحہ 167، مطبوعہ لاہور

[7]۔۔۔ شرح سنن ابوداود لابن رُسلان، جلد 13 ، صفحہ130، دار الفلاح للبحث العلمی ، مصر

[8]۔۔۔صحيح البخاری، کتاب المغازی ،باب قصۃ اہل نجران ،جلد5،صفحہ 172 ، المطبعۃ الکبری الامیریہ

[9]۔۔۔عمدۃ القاری ، جلد 18، صفحہ 36،35، مطبوعہ  دار الكتب العلمیہ ،بیروت

[10]۔۔۔کتاب الخراج ،فصل قصۃ نجران و اھلھا ، صفحہ 88، مطبوعہ المکبتۃ الازھریہ للتراث

السير الصغير من الأصل لمحمد بن الحسن ،:‌‌باب ما جاء عن النبي صلى اللہ عليه وأصحابه في أهل نجران،صفحہ267،الدار المتحدۃللنشر، بیروت

[11]۔۔۔سنن ابی داؤد، باب فی اخذ الجزیۃ ، جلد3، صفحہ 167، مطبوعہ المکتبۃ العصریۃ، بیروت

[12]۔۔۔مصنف ابنِ ابی شیبہ، کتاب السیر، جلد6، صفحہ468، مطبوعہ ریاض

[13]۔۔۔ عمدۃ القاری ، جلد 14، صفحہ 414، مطبوعہ  دار الكتب العلمیہ ،بیروت

[14]۔۔۔طبقات کبریٰ،  ذکر استخلاف عمر، جلد3، صفحہ 214، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت

[15]۔۔۔ القرآن الکریم ، پارہ 3، سورۃ آل عمران،الآیۃ:19

[16]۔۔۔صراط الجنان ، جلد1، صفحہ 448 ،449، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی

[17]۔۔۔القرآن الکریم ، پارہ 3، سورۃ آل عمران،الآیۃ:85

[18]۔۔۔صراط الجنان ، جلد1، صفحہ 510، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی

[19]۔۔۔القران الکریم ،پارہ 28 ،سورۃ الصف ، الآیۃ: 9

[20]۔۔۔( روح البیان، الصف، تحت الآیۃ: ۹، ۹ / ۵۰۴، مدارک، الصف، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۲۳۷، ملتقطاً)

صراط الجنان ، جلد10، صفحہ 132، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی