Shohar Ki Kamai Se Biwi Sadqa Kare To Shohar Ko Sawab Mile Ga Ya Nahi?

شوہر کی کمائی سے بیوی صدقہ کرے ، تو شوہر کو ثواب ملے گا یا نہیں ؟

مجیب: مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Pin-6294

تاریخ اجراء:25ذوالحجۃ الحرام1440ھ27اگست2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں  کہ  میرے گھرکاجوائنٹ فیملی سسٹم ہے ۔ میں نے گھر والوں کو تمام اخراجات  بشمول زکوٰۃ،صدقہ و خیرات وغیرہ کی اجازت دی ہے ۔ میں پِنشن لے کر رقم ان کے حوالے کر دیتا ہوں اور گھر والے اسے گھر کے اخراجات  اور  دیگر صدقہ و خیرات و زکوٰۃ وغیرہ میں صرف کردیتے ہیں،کیا ان کے اس طرح زکوٰۃ و صدقہ و خیرات دینے کا ثواب مجھے بھی ملے گا یا صرف اُن کو ملےگا اورمجھے علیٰحدہ سے صدقہ و خیرات کرنا پڑے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اگر بیوی شوہرکی اجازت سے شوہر کے مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے،تو شوہراور بیوی  دونوں کواس کا ثواب ملتا ہے،شوہر کومال کمانے(اورحقیقتاًاسی کے مال سے صدقہ ہونے کا)اور بیوی کو صدقہ دینے کا ۔ نیزعلمائے کرام فرماتے ہیں کہ شوہر نے چونکہ محنت و مشقت سے مال کمایا ،لہٰذا اُسے ثواب بھی زیادہ ملےگا، اس لیے جب آپ کی اجازت سے آپ کے گھر والےآپ کی کمائی سےزکوٰۃ وصدقہ وغیرہ دیتے ہیں،تواس کا ثواب آپ کو بھی ملے گا اور آپ کے گھر والوں کو بھی ملے گا،بلکہ علماء و محدثین کی تصریحات کے مطابق آپ کو زیادہ ثواب ملے گا ، البتہ زکوٰۃ کے معاملے میں پوری صراحت و وضاحت سے اجازت دیں اور اس چیز کا خیال بھی رکھیں کہ آپ کا فرض ادا ہو گیا ہے۔

    نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اذا تصدقت المرأۃ من بیت زوجھا کان لھا بہ اجر وللزوج مثل ذالک وللخازن مثل ذالک ولاینقص کل واحد من اجر صاحبہ شیئا للزوج بما اکتسب ولھا بما انفقت‘‘ترجمہ:جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے کچھ صدقہ کرتی ہے،تو اسے اس کا ثواب ملتا ہےاور اسی طرح شوہر کوبھی ثواب ملتا ہے اور اسی طرح خازن(ملازم) کو بھی ثواب ملتا ہے اور ان میں سے کسی کے اجر و ثواب میں کمی نہیں ہوگی،شوہر کے لئے کمانے اور عورت کے لئے خرچ کرنےکاثواب ہے۔

(مسند امام احمد بن حنبل،ج41،ص214،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)

    علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمۃ اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اعلم انہ لابد فی العامل وھو الخازن وفی الزوجۃ والمملوک من اذن المالک فی ذلک فان لم یکن لہ اذن اصلا فلا یجوز لاحد من ھؤلاء الثلاثۃ بل علیھم وزر تصرفھم فی مال غیرھم بغیر اذنہ والاذن ضربان احدھما الاذن الصریح فی النفقۃ والصدقۃ والثانی الاذن المفھوم من اطراد العرف کاعطاء السائل کسرۃ ونحوھا مماجرت بہ العادۃ‘‘ترجمہ:جان لو!عامل(ملازم) اورو ہی خازن ہے اور بیوی اور غلام کے لئے مالک کی طرف سےان تصرفات کی اجازت ہوناضروری ہے،اگرکسی اندازسے بھی اجازت ثابت نہ ہو،توان تینوں میں سے کسی کابھی ایسا تصرف کرنا ،جائز نہیں ہے،بلکہ غیر کے مال میں بغیر اجازت تصرف کرنے کا گناہ اُن پر ہوگااور اجازت کی دو قسمیں ہیں:(۱)خرچ کرنے اور صدقہ کرنے کی صراحۃً (واضح الفاظ میں)اجازت  ہواور(۲)عرف کی وجہ سے جو اجازت مفہوم ہوتی ہے(یعنی دلالۃ اجازت) جیسے کسی سائل (بھیک مانگنے والے کو) کوئی پرانی ٹوٹی ہوئی چیزیا اس طرح کی کوئی چیز دینا ،جس پر عرف جاری ہو۔

(عمدۃ القاری،ج8،ص305،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

    علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں:’’وظاھرہ یقتضی تساویھم فی الاجر ویحتمل ان یکون المراد بالمثل حصول الاجر فی الجملۃ وان کان اجر الکاسب اوفر‘‘ترجمہ:حدیث پاک کےظاہر کا یہ تقاضاہے کہ اجر و ثواب میں یہ (شوہر،بیوی اورغلام) برابر ہیں اوراس میں اس بات کا احتمال موجود ہے کہ  حدیث پاک میں موجود لفظ’’مثل‘‘سے مرادصرف یہ ہو کہ فی الجملہ ان سب کو ثواب ملے گا ،اگرچہ کمانے والے کا ثواب زیادہ ہوگا۔                            (فتح الباری،ج3،ص304،دارالمعرفۃ،بیروت)

    کسی کی طرف سے زکوٰۃادا کی،تو اُس کی طرف سے زکوٰۃ تب ہی ادا ہو گی،جبکہ اُس نے اجازت اس کی دی ہو۔چنانچہ علامہ ابن نجیم علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’لایجزئہ عن الزکوۃ وان قضاہ بامرہ جاز ویکون القابض کالوکیل لہ فی قبض الصدقۃ‘‘ترجمہ:اگر ایک شخص نےدوسرے کے کہےبغیر اُس کے مال سےزکوٰۃ ادا کر دی،تویہ اُس کی طرف سے ادا نہیں ہوگی اور اگر اُس کےکہنے پرزکوٰۃادا کی،توجس کی طرف سے اداکی،اُس کی طرف سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اور وہ زکوٰۃ ادا کرنے والا دوسرے شخص کا صدقے میں قبضہ کرنے کے وکیل کی طرح ہو گا۔

(البحرالرائق،ج2،ص261، دارالکتاب الاسلامی،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم