Biwi Ko Watan Mein Chor Kar Bahar Mulk Kamai Ke Liye Jana

بیوی کو وطن میں چھوڑ کر باہر ملک کمائی کے لیے جانا

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2082

تاریخ اجراء: 02ربیع الثانی1445 ھ/18اکتوبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   بیوی کو چھوڑکر باہر ملک پیسے کمانے جانا کیسا   ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مذہب اسلام نے میاں بیوی کے باہم ایک دوسرے پر کچھ حقوق مقرر کئے ہیں جن کی ادائیگی ان پر فرض و واجب قرار دی ،ان میں سے جس طرح بیوی کی خورد و نوش ،لباس و رہائش کا انتظام و انصرام مرد کے ذمے لازم کیا وہیں صحبت (جماع ) کو بھی واجب قرار دیا اگرچہ اس کی بابت کوئی تحدید و معین مدت مقرر نہ کی لیکن وقتا فوقتا صحبت کا حکم دیا حتی کہ عذر نہ ہونے کی صورت میں عورت کی رضا و اذن کے بغیر چار ماہ سے زائد ترک جماع کو ناجائز قرار دیا تاکہ دونوں کی عصمت و پاکدامنی سلامت رہے اور نگاہ کسی ناجائز و حرام کی طرف نہ اٹھے اور ایسے مواقع جہاں مجبورا شوہر کو اپنے اہل و عیال اور گھر بار چھوڑکر وطن سے باہر جانے کی حاجت پیش آتی ہے وہاں بیوی کے حقوق کے متعلق یہ رہنمائی موجود ہے کہ چارماہ سے زائد گھر سے دور نہ رہے ۔

   لہٰذا پوچھی گئی  صورت میں اولا تو ایسا کوئی انتظام ہونا چاہئے کہ چار ماہ کے اندر اندر اپنے گھر چکر لگانا ممکن ہو  اور اگر اس سے زائد وقت لگے تو پھر بیوی کی اجازت شامل ہو  اور بہتر تو یہ ہے کہ کسی ایسی جگہ نوکری اختیار کی جائے کہ گھر آنا جانا ممکن ہو  ورنہ تو اس کے مفاسد بہت واضح ہیں ۔

   فتاوی ہندیہ میں ہے”يؤمر الزوج أن يراعيها فيؤنسها بصحبته أياما وأحيانا من غير أن يكون في ذلك شيء مؤقت “ ترجمہ:شوہر کو حکم دیا جائے گا کہ وہ بیوی کی رعایت کرے اور کبھی کبھی اپنی صحبت سے اس کا دل بہلائے اس میں مقرر وقت کی کوئی قید نہیں ہے ۔)فتاوی ہندیہ ،ج01،ص 341،دار الفکر(

   رد المحتار میں ہے :”اعلم أن ترك جماعها مطلقا لا يحل له صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانا واجب ديانة ۔۔ ولم يقدروا فيه مدة ويجب أن لا يبلغ به مدة الإيلاء إلا برضاها وطيب نفسها به“ترجمہ:جان لے کہ عورت سے مطلقاً جماع نہ کرنا حلال نہیں کیونکہ ہمارے اصحاب احناف نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ  اس سے کبھی کبھی جماع کرنا دیانۃ واجب ہے  اور اس میں انہوں نے کوئی مدت مقرر نہیں فرمائی  اور واجب یہ ہے کہ یہ ترک،  ایلاء کی مدت یعنی چار ماہ تک نہ پہنچے الا یہ کہ بیوی کی رضامندی اور اس کی دلی خواہش سے ہو ۔

   فتاویٰ رضویہ میں ہے’’بالجملہ عورت کو نان ونفقہ دینا  بھی واجب اور رہنے کو مکان دینا بھی واجب اور گاہ گاہ اس سےجماع کرنا بھی واجب جس میں اسے پریشان نظری نہ پیدا ہواور اسے معلقہ کردینا  حرام اور بے اس کے اذن و رضا کے چار مہینے تک ترکِ جماع بلاعذرصحیح شرعی ناجائز ۔"(فتاوی رضویہ ،ج13،ص446 ،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم