Maa Bachon Par Apni Raqam Kharch Kare Tu Kya Wapsi Ka Mutalba Kar Sakti Hai ?

ماں بچوں پر اپنی ذاتی رقم خرچ کرے، تو واپسی کا مطالبہ کرسکتی ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13122

تاریخ اجراء: 03جمادی الاولیٰ1445 ھ/18نومبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ طلاق کے بعد بچی کی پرورش کرتے ہوئے ماں اگر اپنی رضا مندی سے اپنی ذاتی رقم سے بچی پر کچھ اخراجات کرے، تو کیا اُن اخراجات کی رقم بچی کے باپ سے وصول کی جاسکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نابالغ اولاد کی ملکیت میں اگر اپنا ذاتی  مال نہ ہو تو اُن کا نان نفقہ باپ پر لازم ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ باپ ان کا خرچ اٹھائے البتہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اولاد کا گزشتہ مدت کا نفقہ خواہ مقرر کیا ہو یا نہ کیا ہو، بہر صورت  باپ پر دین نہیں بنے گا لہذا باپ سے اُس نفقہ کا مطالبہ بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ زوجہ  کے علاوہ دیگر اقارب کا نفقہ دین نہیں بنتا  اور زوجہ کا سابقہ نفقہ بھی مطلقاً شوہر پر دین نہیں بنتا بلکہ اس کی بھی کچھ شرائط ہیں۔

   لہذا  پوچھی گئی صورت میں ماں نے اپنی ذاتی رقم کو  خود سے بچی  کے اخراجات  میں جو بھی خرچ کیا ،  وہ باپ پر دین نہیں بنیں گےبلکہ یہ اخراجات خیر  خواہی اور بھلائی کے طور پر قرار پائیں گے، لہذا بچی کے باپ سے ان اخراجات کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔

   نابالغ بچے کے پاس مال نہ ہو،تو اس کا نفقہ باپ پر لازم ہے۔ جیسا کہ  جوہرۃ النیرۃ میں ہے:”تجب نفقۃ الصغیر علی ابیہ یعنی اذا لم یکن لہ مال“یعنی چھوٹے بچے کا نفقہ باپ پر واجب ہے جبکہ اس کی ملکیت میں مال نہ ہو۔ (الجوھرۃ النیرۃ،ج02، ص89، المطبعۃ الخیریۃ)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:” ا س بچے نابالغ کی پرورش بیشک ذمہ زید لازم ہے۔۔۔۔  اور نفقہ پائے گا باپ سے بشرطیکہ اپنا کوئی مال نہ رکھتا ہو ۔(فتاوٰی رضویہ، ج 13، ص 429، رضا فاؤنڈیشن،  لاہور، ملتقطاً)

   زوجہ کے علاوہ دیگر اقارب کا نفقہ مدت گزرنے کے سبب دین نہیں بنے گا خواہ مقرر ہی کیوں نہ کیا ہو۔ جیسا کہ ہدایہ وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے: ”إذا قضي القاضي للولد والوالدين وذوي الأرحام بالنفقة فمضت مدة سقطت لأن نفقة هؤلاء تجب كفاية للحاجة حتى لا تجب مع اليسار وقد حصلت بمضي المدة بخلاف نفقة الزوجة إذا قضي بها القاضي لأنها تجب مع يسارها فلا تسقط بحصول الاستغناء فيما مضى۔“یعنی جب قاضی اولاد، والدین اور دیگر ذوی الارحام رشتہ داروں کا نفقہ مقرر کرے تو مدت گزرنے سے ان کا نفقہ ساقط ہوجاتا ہے کہ ان کا نفقہ حاجت پوری کرنے کے لیے واجب ہوتا ہے حتی کہ یہ لوگ خوشحال ہوں تو نفقہ بھی  واجب نہیں ہوتا ۔ جب   مدت گزرنے کے سبب حاجت پوری ہوچکی ( تو نفقہ ساقط ہو گیا)، برخلاف بیوی کے نفقہ کے  کیونکہ بیوی کا نفقہ خوشحالی میں بھی واجب ہوتا ہے تو  مدت  گزرنے  پر استغناکی وجہ سے ساقط نہیں ہوگا ۔(الھدایۃ، باب النفقۃ، ج 02، ص 294، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

   ماں نے بچے پر جو اخراجات خود سے کیے وہ باپ سے وصول نہیں کرسکتی۔ جیسا کہ فتاویٰ شامی، بحر الرائق وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے:”والنظم للاول“ و ان انفقت علیہ من مالھا اومن المسئلۃ من الناس لاترجع علی الاب۔“ یعنی اگر ماں نے بچے پر اپنا مال خرچ کیا یا لوگوں سے مانگ کر خرچ کیا ہو، تو اس خرچہ کو بچے کے والد سے وصول نہیں  کرسکتی ۔(رد المحتار  مع الدر المختار، کتاب الطلاق، ج 03، ص634، مطبوعہ بیروت)

   اولاد کا گزشتہ عرصہ کا نفقہ باپ پر دین نہیں بنے گا۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ میں ہے:” اولاد کا نفقہ ان کی محتاجی کی حالت میں لازم ہوتا ہے، اگر مال رکھتے ہیں ان کا نفقہ باپ پر نہیں،  ورنہ ہےاگرچہ وہ اس کے یہاں نہ رہیں۔  پھر جو نفقہ نہ باہمی قرارداد سے مقرر ہوا ہو ، نہ حاکم کے حکم سے ، اسے اگر ایک مہینہ یا زیادہ کتنے ہی برس گزرجائیں اور اس مدت میں عورت اور اولاد قرض دام سے ، خواہ کسی طریقہ سے اپنی حاجت نکالتے رہیں یا عورت اپنے مال،  خواہ قرض یا گداگری سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالے،  تن ڈھکے تو ا س مدت کے کسی حبہ کا مطالبہ شوہر سے نہیں ہوسکتا، ہاں اگر بحکم حاکم یا تراضی باہمی قرار داد نفقہ ہولیا تھا کہ مثلاً اتنا ماہوار دینا ٹھہرااور مدتیں گزریں شوہر نے نہ اس کا نفقہ دیا نہ اولاد کا، تو عورت اپنے نفقہ مقرر شدہ کا مطالبہ کرسکتی ہے اور اولادکا نفقہ اگرچہ برضائے باہمی یا بحکم حاکم مقرر ہوا ہو ، جب وقت گزر گیا ساقط ہوگیا کہ وہ بوجہ حاجت تھا اور مدت گزشتہ کی حاجت نکل چکی اگرچہ کسی طرح نکلی ۔(فتاوٰی رضویہ، ج 13، ص 462-461، رضا فاؤنڈیشن،  لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم