Parosi Ke Ghar Ki Taraf Apne Makan Ki Khirki Kholne Aur usay Aziyat Dene Ka Hukum?

پڑوسی کے گھر کی طرف اپنے مکان کی کھڑکی کھولنے اور اسے اذیت دینے کا حکم؟

مجیب:مولانا نوید صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Har-5749

تاریخ اجراء:26جمادی الاولی1441ھ/22جنوری2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے مکان سےمتصل زید کا  مکان ہے۔ اس نے اپنا دو منزلہ مکان بنایا اور اس مکان کے بالا خانے کی کھڑکی میرے گھر کے صحن کی طرف کھول دی ، حالانکہ وہ کھڑکی گلی کی طرف بھی کھول سکتا تھا۔جس کی وجہ سے میرے گھر کی بے پردگی ہوتی ہے اور گھرکی مستورات صحن میں نہیں آ سکتیں۔ زید کو جب منع کیا گیا تو اس نے کہا کہ میرا گھر ہے ، میں جیسے چاہوں کروں۔ جب اہل محلہ نے اسے منع کیا ، تو کہنے لگا : میں نے ہوا کی کراسنگ کے لیے کھڑکی بنائی  ہے۔اسے کہا گیا کہ ہوا کی کراسنگ کے لیے آپ روشن دان بنا لو ۔ اس کے لیے کھڑکی ضروری نہیں۔زید اس پر بھی نہیں مانابلکہ وہ کہتا ہے کہ اپنے مکان کے بالا خانے میں کھڑکی بنانا میرا قانونی اور شرعی حق ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا زید کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ پڑوسی کے صحن کی طرف کھڑکی بنائے اور پڑوسی کے گھر کی مستورات کی بے پردگی اور اذیت کا سبب بنے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    صورتِ مسئولہ میں زید پر لازم ہے کہ وہ اپنے مکان کے بالا خانے سے مذکورہ کھڑکی ختم کرے  اور ہوا کی کراسنگ کی ضرورت کے لیے اتنا بلند روشن دان بنائے ، جس میں سے پڑوسی کے صحن میں جھانکے جانے کا اندیشہ نہ ہویا پھر گلی کی طرف کھڑکی بنائے تاکہ پڑوسیوں کی بے پردگی نہ ہو۔

حدیث پاک میں ہے : ” عن عبادۃ بن الصامت ان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قضی ان لا ضرر و لا ضرار “ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ  نہ ضرر اٹھانا  ہے اور نہ ہی ضرر دینا ہے۔

(سنن ابن ماجہ،ص169،مطبوعہ کراچی)

    درمختار میں ہے:”(ولا یمنع الشخص من تصرفہ  فی ملکہ الااذاکان الضرر )بجارہ ضررا (بینا) فیمنع من ذلک، وعلیہ الفتوی بزازیہ واختیارہ فی العمادیہ وافتی  بہ قاریءالھدایۃ،حتی یمنع الجار من فتح الطاقۃ،وھذا جواب المشایخ استحساناً “اور آدمی کو  اس کی ملکیت مں تصرف کرنے سے نہیں روکا جا ئے گا مگر جب  پڑوسی کو واضح ضرر ہو تو اس سے رو کا جائے گا۔اس پر فتوی ہے۔بزازیہ۔ اور عمادیہ میں اس کو اختیار کیااور قارئ الہدایہ نے اس پر فتوی دیا ہے  ، یہاں تک کہ پڑوسی کھڑکی کھولنے سے روک سکتا ہے اور یہ مشائخ کا  استحساناً جواب ہے ۔

(درمختارمع ردالمحتار،ج8،ص172،173،مطبوعہ کوئٹہ )

    ردالمحتار میں ہے:” (حتی یمنع الجار من فتح الطاقۃ) ای: التی یکون فیھا ضرر بین بقر ینۃ ما قبلہ ، وھو ما افتی بہ  قاریء الھدایۃ  لما  سئل : ھل یمنع الجاران یفتح کوۃ یشرف منھا علی جارہ و عیالہ؟فاجاب  بانہ یمنع من ذلک اھ۔  وفی المنح عن المضمرات: اذا کانت  الکوۃ للنظر وکانت  الساحۃ محل الجلوس للنساء یمنع ،و علیہ الفتوی “ حتی کہ پڑوسی کو کھڑکی کھولنے سے روکا جائے گا یعنی اس صورت میں  کہ جس میں واضح   ضرر ہو قرینہ کی وجہ سے جو ما قبل گزرا، یہی وہ ہے جس پر  قار ئ الھدایہ نے فتوی دیا ، جب ان سے پوچھا گیا  کہ کیا پڑوسی کو ایسی کھڑکی کھولنے سے منع کیا جائے گا   جس سے اپنے پڑوسی اور  اس کے عیال پر جھانک سکے؟تو جواب دیا کہ اسے اس  سے منع کیا جائے گااور منح میں  مضمرات سے ہے  جب کھڑ کی دیکھنے کے لیے  ہو اور  صحن عورتوں کے بیٹھنے کا محل  ہو  تو  منع کیا جائے گا اور اسی پر فتوی ہے۔

(ردالمحتار،ج8،ص173،مطبوعہ کوئٹہ )

    بہار شریعت میں ہے:” بالا خانہ پر کھڑکی بناتا ہے ، جس سے پڑوس والے کے مکان کی بے پردگی ہوگی ، اس سے روکا جائےگا۔“

(بہار شریعت ،ج،2ص921،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)                                                                                                         

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم