Aurat Iddat Ke Doran Apne Damad Se Phone Par Baat Kar Sakti Hai Ya Nahi ?

عورت عدت کے دوران اپنے داماد سے فون پر بات کرسکتی ہے یا نہیں؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13005

تاریخ اجراء:        06ربیع الاول1445 ھ/23ستمبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ کیا عورت دورانِ عدت اپنے داماد سے فون پر بات کرسکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شرعی مسئلہ ذہن نشین رہے کہ عورت کا عدت سے پہلے جن لوگوں سے پردہ فرض تھا تو دورانِ عدت بھی انہی   لوگوں سے پردہ کرنا فرض ہے، اورجن لوگوں سےپردہ کرنا عورت پر عدت سے پہلے فرض نہیں تھا تو دورانِ عدت بھی ان لوگوں سے پردہ کرنافرض نہیں۔

   اب جبکہ داماد محرم ہے ، ساس کا اپنے داماد سے پردہ نہیں ہے، لہذا دورانِ عدت عورت اپنے داماد سے فون پر بات کرسکتی ہے۔ البتہ   فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق ساس اگر جوان ہو تو کچھ چیزوں میں احتیاط کی حاجت ہوگی مثلا سفر کرنا،  خلوت اختیار کرنا وغیر ذالک  ۔

   داماد کے لیے ساس محرم ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”اُمَّهٰتُ  نِسَآىٕكُمْ“ترجمہ کنزالایمان:(حرام ہوئیں تم پر ) عورتوں کی مائیں۔(القرآن الکریم، پارہ 04،سورۃ النساء،آیت نمبر 23)

   فتاوٰی ہندیہ میں ہے:(القسم الثاني المحرمات بالصهرية)۔ وهي أربع فرق: (الأولى) أمهات الزوجات وجداتهن من قبل الأب والأم وإن علونیعنی محرمات کی دوسری قسم سسرالی رشتے سے حرام  عورتیں ہیں اور یہ چار گروہ ہیں۔ ان میں سے پہلے گروہ میں  بیویوں کی  مائیں اور دادیاں نانیاں اوپر تک داخل ہیں  ۔ (فتاوٰی عالمگیری، کتاب النکاح، ج 01، ص 274، دار الفکر، بیروت)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے: ”ساس پر داماد مطلقا حرام ہے اگرچہ اس کی بیٹی کی رخصت نہ ہوئی ہو اور قبل رخصت مرگئی ہو، قال اللہ تعالٰی: وامھات نسائکم (اور تمھاری بیویوں کی مائیں تم پر حرام ہیں)۔(فتاوٰی رضویہ، ج 11، ص 439، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   عورت کا محارم سے پردہ نہیں جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:”ضابطہ کلیہ ہے کہ نامحرموں سے پردہ مطلقا واجب؛ اور محارم نسبی سے پردہ نہ کرنا واجب، اگر کرے گی گنہگار ہوگی؛ اور محارم غیر نسبی مثل علاقہ مصاہرت ورضاعت ان سے پردہ کرنا اورنہ کرنادونوں جائز۔ مصلحت وحالت پرلحاظ ہوگا۔اسی واسطے  علماء نے لکھا ہے کہ جوان ساس کو داماد سے پردہ مناسب ہے۔ یہی حکم خسر اور بہو کا“(فتاوٰی رضویہ، ج 22، ص 240، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

   جوان ساس سے پردہ کرنا ، مناسب ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ میں ہے: ”علاقہ صہر ہو جیسے خسر، ساس، داماد ، بہو، ان سب سے نہ پردہ واجب نہ نادرست ہے ۔ کرنا نہ کرنا دونوں جائز اور بحالت جوانی یا احتمال فتنہ پردہ کرنا ہی مناسب۔ (فتاوٰی رضویہ، ج 22، ص 235، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   عدت میں عورت کا کن لوگوں سے پردہ ہے اور کن سے نہیں؟ اس حوالے سے مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی محمد وقارالدین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”قبلِ عدت جن سے پردہ فرض تھا،دورانِ عدت بھی ان سے پردہ کرنافرض ہے۔اورجن لوگوں سے عدت سے پہلے پردہ کرنافرض نہیں تھاان سے عدت میں بھی پردہ کرنافرض نہیں۔(وقارالفتاوی، ج03، ص212، بزم وقار الدین)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم