Iddat e Wafat Ke Baad Aurat Ka Zewar Pehnna Kaisa ?

عدتِ وفات کے بعد عورت کا زیور پہننا

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13288

تاریخ اجراء: 13 شعبان المعظم 1445 ھ/24 فروری 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا عورت  عدتِ وفات گزارنے  کے بعد زیورات پہن سکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسلمانوں میں ہندوؤں سے میل جول کی وجہ سے بہت سی غلط  رسموں کا چلن ہوگیا ہے ،ان ہی میں سے ایک رسم یہ بھی ہے کہ جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے تو  اب ساری زندگی اس پر سوگ لازم ہے ، نہ وہ نکاح کرسکتی ہے   اور نہ ہی ساری زندگی کسی قسم کی زیب و زینت اپنا سکتی ہے۔  اسی طرح  کا رواج زمانۂ جاہلیت میں بھی تھا کہ بیوہ عورتیں بعدِ عدت بھی زیب و زینت اختیار نہیں کرسکتی تھیں،جبکہ دینِ اسلام نے اعتدال کے ساتھ عدت کے مکمل احکام بیان کرتے ہوئے عورتوں پر ہونے والے اس ظلم کو ختم کیا۔

   اسلامی تعلیمات کے مطابق بیوہ عورت کو  عدتِ وفات کے دوران ، اسی طرح جس عورت کوتین طلاقیں یا طلاقِ بائن ہوجائے،اس پر دورانِ عدت سوگ کرنا واجب ہے ، جس کے پیشِ نظر عورت  پر لازم ہوتا ہے کہ وہ ہر طرح کی زینت کو ترک کردے مثلاً کسی قسم کے زیور  یہاں تک کہ انگوٹھی ، چھلا  وغیرہ ، مہندی، سرمہ،نئے  کپڑے یا بدن پر خوشبو وغیرہ کا استعمال ، بلا ضرورتِ شرعی تیل لگانا، کنگھا کرنا، ریشم کا کپڑا پہنناچھوڑ دے ۔البتہ جب  عدت  مکمل ہوجائے تو اب اس کے لئے شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے نکاح کرنا،  زیب وزینت اختیارکرنا، زیوارت پہننا بالکل جائز ہےکہ یہی قرآن کریم سے ماخوذ حکمِ شریعت  ہے، بلا وجہِ شرعی اس  سے روکنا احکامِ شریعت سے جہالت ہے۔

   واضح رہے کہ بعدِ عدت بناؤ سنگھار اور فیشن اختیار کرنے کا  وہ طریقہ  جو شرعاً ناجائز ہو وہ ناجائز ہی رہے گا۔

   اللہ رب العالمین ارشاد فرماتا ہے:” فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ؕوَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ “ترجمۂ کنز الایمان:تو جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو اے والیو!  تم پر مُواخذہ نہیں اس کام میں جو عورتیں اپنے معاملہ میں موافق شرع کریں اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ (سورۂ بقرہ، آیت 234)

   تفسیر ابی سعود میں ہے:”فإذا بلغن أجلهن أي انقضت عدتهن فلا جناح عليكم ايها الحكام والمسلمون جميعا فيما فعلن في انفسهن من التزين والتعرض للخطاب وسائر ما حرم على المعتدة بالمعروف بالوجه الذي لا ينكره الشرع “یعنی جب ان کی عدت پوری ہوجائے ، اے حکام اور  مسلمانو! تم میں سے کسی پر کوئی گناہ  نہیں اس کام میں جو عورتیں خود زینت اختیار کریں یا کسی کو نکاح کا پیغام بھیجیں اور وہ تمام کام جو معتدہ پر حرام تھے بشرطیکہ ایسے طریقہ پر ہوں جس سے شریعت نے منع نہ کیا ہو۔(تفسیر ابی سعود، جلد1 ،صفحہ 232، داراحیاء التراث  العربی، بیروت)

   تفسیر سمرقندی میں ہے:”( فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ) يعني انقضت عدتهن (فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ) أي فلا أثم عليكم (فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ) من الزينة  والكحل والخضاب وذلك أن المرأة إذا انقضت عدتها فكان أولياؤها يمنعونها من الزينة فأباح الله تعالى لهن الزينة بعد العدة “یعنی جب ان کی عدت پوری ہوجائے ، تو تم پر کوئی گناہ نہیں اس کام میں جو عورتیں کریں یعنی زینت  کرنا ، سرمہ لگانا، مہندی لگانا۔ اس آیت کے نازل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ  جب عورت کی عدت پوری ہوجاتی، تو اس کے اولیا اس کو زینت سے منع کیا کرتے تھے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے بعدِ عدت زینت کو مباح قرار دے دیا۔(تفسیر سمرقندی، جلد1، صفحہ 180،دارالفکر ، بیروت)

   مشہور مفسر مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ماسے  ساری وہ چیزیں مراد ہیں جو عدت میں عورتوں پر حرام ہوگئیں تھیں یعنی عدت پوری ہوچکنے پر عورتیں بناؤ ، سنگھار یا دوسرا نکاح ، گھر سے نکلنا وغیرہ جو کچھ بھی کریں ، اس میں اے حاکمو! تم پر کوئی گناہ نہیں  مگر بالمعروف یہ فعلن کے فاعل کا حال ہے اور اس سے جائز کام مراد ہیں یعنی جو جائز چیزیں عدت کی وجہ سے اس پر حرام ہوگئیں تھیں وہ سب کرسکتی ہیں ، ناجائز کام جو عدت سے پہلے بھی حرام تھے وہ اب بھی حرام ہیں“(تفسیرِ نعیمی، جلد2، صفحہ 493، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم