Iddat Ke Doran Khushboodar Sabun(Soap) Ya Shampoo Istemal Karna

عدت کے دوران خوشبودار صابن یا شیمپو استعمال کرنا

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:57

تاریخ اجراء: 17ذوالحجۃ الحرام1442ھ/28جولائی2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں  کہ بیوہ کے لیے عدت کے دوران خوشبو والا شیمپو یا صابن استعمال کرنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیوہ  کے لیے دورانِ عدت شیمپو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے،خواہ وہ خوشبو والا ہو یا بغیر خوشبو  کے۔ خوشبو والاتو اس لیے منع ہے کہ خوشبو کا استعمال زینت میں شمار ہوتاہے، جبکہ بیوہ  کے لیے کسی بھی قسم کی زینت اختیار کرنا، ناجائز و گناہ  ہے اور بغیر خوشبووالا شیمپواس لیے منع ہے کہ وہ بالوں  کی صفائی کے ساتھ اُنہیں چمکدار اور ملائم  بھی کرتا ہے، جبکہ بیوہ کو دورانِ عدت بالوں کو نرم و ملائم اور چمکدار کرنے کے لیے کوئی چیز استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے کہ یہ بھی زینت میں داخل ہے، ہاں اگر کوئی ایسا شیمپو ہو جو صرف میل دور کرنے یا جوئیں مارنے کا کام کرے اور چمک و ملائمت پیدا نہ کرے ، اس کی اجازت ہے جیسے دیسی ٹوٹکوں سے بعض اوقات ایسے شیمپو بنائے جاتےہیں۔

   اورایسا صابن  جو خوشبودار ہو یا رنگت میں نکھار اور خوبصورتی پیدا کرتا ہو جیسا کہ مارکیٹ میں اس طرح کے  صابن دستیاب ہیں کہ جوجلد کی صفائی کے ساتھ  رنگت کو گورا بھی کرتے ہیں (جنہیں بیوٹی سوپ یا وائٹننگ سوپ  (Beauty soap/whitening soap)کے نام سے جانا جاتا ہے )، ایسے صابن کااستعمال بھی ممنوع ہے، کیونکہ  خوشبو والی  یا  رنگت کو خوبصورت بنانے والی کوئی چیز استعمال کرنا زینت میں داخل ہے ، جس  کی بیوہ کو اجازت نہیں ہے۔البتہ ایسا صابن کہ جو نہ تو خوشبودار ہو ، نہ رنگت کو خوبصورت بنائے ، بلکہ محض صفائی ستھرائی کا کام کرتا ہو، دورانِ عدت اسے استعمال کرنے کی اجازت ہے کہ یہ زینت میں داخل نہیں ۔

   بیوہ کے لیے دورانِ سوگ خوشبو کا استعمال جائز نہیں۔نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:”لا تحد امراۃ  علی میت فوق ثلاث الا علی زوج اربعۃ اشھر و عشرا و لاتلبس ثوبا مصبوغا الا ثوب عصب و لا تکتحل و لاتمس طیبا “ترجمہ:عورت کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ کرے، سوائے اپنے شوہر کے کہ اس پر چار ماہ دس دن سوگ کرے اور (دورانِ عدت ) رنگے ہوئے کپڑے  نہ پہنے، سوائے عصب (نامی رنگ)سے رنگے ہوئے کپڑے(کیونکہ یہ رنگ زینت کے لیے استعمال نہیں ہوتا) اور وہ نہ سرمہ لگائے اورنہ ہی  خوشبو  لگائے۔(صحیح مسلم ، ج2، ص1127، داراحیاء التراث العربی، بیروت)

   تنویر الابصار مع رد المحتار میں ہے:”تحد(تحد ای وجوبا)مکلفۃ مسلمۃ  ولو امۃ منکوحۃ  اذا کانت معتدۃ بت او موت “ ترجمہ: مسلمان مکلّف عورت اگرچہ منکوحہ لونڈی ہو ،جب طلاقِ بائن (یعنی  تین طلاقوں والی یا ایک یا دو بائن طلاقوں  والی) یا موت کی عدت والی ہو، تو اس پرسوگ کرنا واجب ہے۔(تنویر الابصار، ج5، ص220تا 221،  مطوعہ پشاور)

   تبیین الحقائق  میں ہے:”الاحداد و ھو ترک الزینۃ و الطیب“ترجمہ:سوگ زنیت اور خوشبو کے استعمال کو ترک کر دینے کا نام ہے۔(تبیین الحقائق، ج3، ص34، مطبوعہ ملتان)

   جو چیز چہرے  میں نکھار اور رنگت کو خوبصورت بنائے،دورانِ عدت اس کا استعمال بھی ممنوع ہے۔چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:”دخل علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حین توفی ابوسلمۃ و قد جعلت علی عینی  صبرا فقال ماھذا یا ام سلمۃ ؟ فقلت انما ھو صبر  یا رسول اللہ لیس فیہ طیب قال انہ یشب الوجہ فلا تجعلیہ الا باللیل و تنزعینہ بالنھار“ترجمہ:جب حضرت ابو سلمہ فوت ہوئے، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں نے اپنے چہرے پرایلوا لگا رکھا تھا، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے ام سلمہ! یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ !  یہ ایلوا ہے، جس میں خوشبو نہیں ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ چہرے کو نکھارتا ہے، پس اسے نہ لگاؤ، مگر (ضرورتاً لگانا پڑے) تو رات کو  لگاؤ اور دن کو اتار لو۔(سنن ابی داؤد، ج2، ص292، الرقم2305،مطبوعہ بیروت)

   اس کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”یعنی عدت میں صرف خوشبو ہی  ممنوع نہیں ، بلکہ زینت بھی ممنوع ہے ، ایلوا خوشبودار تو نہیں ، مگر چہرے کا رنگ نکھار دیتا ہے ، اسے رنگین بھی کر دیتا ہے ،  لہٰذا زینت ہونے کی وجہ سے اس کا لیپ ممنوع ہے ۔ اگر لیپ کی ضرورت ہی ہو ، تو رات میں لگا لیا کرو ۔“(مرآۃ المناجیح، ج5، ص154، نعیمی کتب خانہ ، گجرات)

   دورانِ عدت ایسی چیز استعمال کرنا بھی ممنوع ہے کہ جو بالوں کو نرم و ملائم  اور چمکداربنائے۔علامہ شامی علیہ الرحمۃ سوگ والی عورت  کے لیے بغیر خوشبو والےتیل کے ممنوع ہونے کی علت  بیان کرتے ہوئے فرماتے  ہیں :”(قولہ کزیت خالص) ای من الطیب وکالشیرج والسمن وغیر ذلک، لانہ یلین الشعر فیکون زینة زیلعی، وبہ ظھر ان الممنوع استعمالہ علی وجہ یکون فیہ زینة، فلا تمنع من مسہ بید لعصر، او بیع او اکل“ ترجمہ :مصنف کا قول خالص زیتون کا تیل لگانا منع ہے یعنی جو خوشبو سے خالص(پاک) ہو اور یہی حکم تل کے تیل اور گھی وغیرہ  کا ہے، کیونکہ یہ بالوں کو نرم کرتا ہے، لہٰذا یہ زینت میں آئے گا۔ اسی سے ظاہر ہو گیا کہ  اس کا استعمال زینت کے طور پر کرنا ممنوع ہے، پس  اسے نچوڑنے، بیچنے اور کھانے کے لیے انہیں ہاتھ سے چھونا منع نہیں ہے۔(رد المحتار، ج5، ص221تا222، مطبوعہ پشاور)

   بنایہ شرح ہدایہ میں تیل   استعمال کرنے کے ممنوع  ہونے کی علت یہ بیان کی گئی : ”لانہ یحسنہ و یزید فیہ بھجۃ ترجمہ:کیونکہ تیل بالوں کو خوبصورت بناتا اور اس کی چمک میں اضافہ کرتا ہے۔(البنایۃ شرح الھدایۃ، ج5، ص621، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم