Iddat Ke Doran Surkh Libas Pehnna Kaisa Hai ?

عدت کے دوران سرخ لباس پہننا کیسا ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:58

تاریخ اجراء: 03ذالحجۃ الحرام1442ھ/14جولائی2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں  کہ  کسی کا شوہر فوت ہو گیا، توبیوہ  کے لیے دورانِ عدت سرخ لباس پہننا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیوہ کے لیے دورانِ عدت سرخ  لباس پہنناناجائز و گناہ ہے، کیونکہ بیوہ پر عدت کے دوران سوگ  کا اظہار کرنا  واجب ہوتاہے اور سوگ  کا مطلب یہ ہے کہ عورت ہر قسم کی زینت ترک کردے ،جبکہ سرخ لباس زینت کے طور پر پہنا جاتا ہے، لہٰذا یہ لباس پہننا جائز نہیں ہے۔البتہ اگراس کا رنگ اتنا پرانا ہو چکا ہو کہ  اب اس لباس کو بطورِ زینت استعمال نہ کیا جاتا ہو، تو ایسا سرخ لباس پہننے میں حرج نہیں ، کیونکہ ممانعت کی اصل وجہ زینت ہے اور وہ یہاں نہیں پائی جا رہی۔

   بیوہ پر دورانِ عدت سوگ کا اظہار کرنا واجب  ہے ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:”لا تحد امراۃ  علی میت فوق ثلاث الا علی زوج اربعۃ اشھر و عشرا و لاتلبس ثوبا مصبوغا الا ثوب عصب “ترجمہ:عورت کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ کرے، سوائے اپنے شوہر کے کہ اس پر چار ماہ دس دن سوگ کرے اور (دورانِ عدت ) رنگے ہوئے کپڑے  نہ پہنے، سوائے عصب (نامی رنگ)سے رنگے ہوئے کپڑے(کیونکہ یہ رنگ زینت کے لیے استعمال نہیں ہوتا)۔(صحیح مسلم ، ج2، ص1127، داراحیاء التراث العربی، بیروت)

   تنویر الابصار مع رد المحتار میں ہے:”تحد(تحد ای وجوبا)مکلفۃ مسلمۃ  ولو امۃ منکوحۃ  اذا کانت معتدۃ بت او موت“ ترجمہ: مسلمان مکلّف عورت اگرچہ منکوحہ لونڈی ہو ،جب طلاقِ بائن (یعنی  تین طلاقوں والی یا ایک یا دو بائن طلاقوں  والی) یا موت کی عدت والی ہو، تو اس پرسوگ کرنا واجب ہے۔(تنویر الابصار، ج5، ص220تا 221، مطبوعہ پشاور)

   سوگ ترکِ زینت کو کہتے ہیں۔چنانچہ تبیین الحقائق  میں ہے:”الاحداد و ھو ترک الزینۃ و الطیب “ترجمہ :سوگ زنیت اور خوشبو کے استعمال کو ترک کر دینے کا نام ہے۔(تبیین الحقائق، ج3، ص34، مطبوعہ ملتان)

    دورانِ عدت  عورت کے لیے  سرخ یا ایسا لباس  جو زینت کے لیے پہنا جاتا ہو، پہننا جائز نہیں  ہے۔ فتاوی عالمگیری میں ہے:”والحداد الاجتناب عن الطیب والدھن والکحل والحناء والخضاب ولبس المطیب والمعصفر والثوب الاحمر ۔۔  قال شمس الائمۃ المراد من الثیاب المذکورۃ ما کان جدیدا منھا تقع بہ الزینۃ ، اما اذا کان خلقا لا تقع بہ الزینۃ فلا باس بہ کذا فی المحیط۔۔  وانما یلزمھا الاجتناب فی حالۃ الاختیار ، اما فی حالۃ الاضطرار فلا باس بھا“ترجمہ:  خوشبو ، تیل، سرمہ،مہندی ، خضاب لگانے ، مطیب (خوشبو والے)، معصفر (زرد)اور سرخ  رنگ کے کپڑے پہننے ۔۔نیز زیور پہننے، زینت اختیار کرنے اورکنگھی کرنے سے بچنے کا نام سوگ ہے،جیسا کہ تاتارخانیہ میں ہے ۔ امام شمس الائمہ نے فرمایا کہ مذکورہ کپڑوں سے مرادنئے کپڑے ہیں، جن سے زینت اختیار کی جاتی ہے ، اگران کپڑوں کا رنگ بوسیدہ(پرانا)ہوگیا ہو، جس سے زینت اختیار نہ کی جاتی ہو ، اس کو پہننے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ محیط میں ہے ۔۔ اور ان سب چیزوں سے بچنے کا حکم حالتِ اختیار(نارمل حالت) میں ہے ، مجبوری کی حالت میں حرج نہیں ۔    ( فتاوی عالمگیری ، ج 1 ، ص 533  ،دار الفکر ، بیروت )

    بہار شریعت میں ہے :’’سوگ کے یہ معنی ہیں کہ زینت کو ترک کرے یعنی ہر قسم کے زیور چاندی سونے جواہر وغیرہا کے اور ہر قسم اور ہر رنگ کے ریشم کے کپڑے ،اگرچہ سیاہ ہوں ۔۔یوہیں سفید خوشبودار سرمہ لگانا اور مہندی لگانا اور زعفران یا کسم یا گیرو کا رنگا ہوا یا سرخ رنگ کا کپڑا پہننا منع ہے ، ان سب چیزوں کا  ترک واجب ہے ، یوہیں پڑیا کا رنگ گلابی ، دھانی ، چمپئی اور طرح طرح کے رنگ جن میں تزین ہوتا ہے ، سب کو ترک کرے۔ جس کپڑے کا رنگ پرانا ہو گیا کہ اب اس کا پہننا زینت نہیں ، اسے پہن سکتی ہے ،یوہیں سیاہ رنگ کے کپڑے میں بھی حرج نہیں، جبکہ ریشم کے نہ ہوں ۔“(بھار شریعت ، ج2،حصہ 8، ص242، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم