Iddat Wali Aurat Ka Eid Milne Ke Liye Ghar Se Nikalna

عدت والی عورت کا عید ملنے کے لیے گھرسے نکلنا

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2838

تاریخ اجراء: 26ذوالحجۃالحرام1445 ھ/03جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرے  شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے اور میں عدت میں ہوں کیا میں عید پر اپنی فیملی سے ملنے کے لیے عدت والے  گھر سے باہر جا سکتی ہوں یا کیا میں اس گھر سے ہمیشہ کےلیے منتقل ہو سکتی ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت کوشوہرکے گھرمیں ہی عدت گزارناضروری ہےاوراس مدت کا خرچہ شوہر کے ذمہ لازم ہے نیز طلا ق بائن کی عدت میں یہ بھی ضروری ہے کہ شوہروعورت میں مکمل پردہ ہو ، اسی گھر میں بیوی کی رہائش کا ایسا انتظام ہوکہ کسی قسم کی بے  پردگی وغیرہ کااندیشہ نہ رہے۔

   پوچھی گئی صورت میں عورت کے لیے دورانِ عدّت  گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے، طلاق سے قبل شوہر نے جس مکان میں عورت کو رہائش دی، اس پرعدت ختم ہونے تک اسی مکان میں رہنا واجب ہے، سوائے یہ کہ کوئی عذرِ شرعی ہو ۔

   اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:’’ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍؕ- ‘‘ ترجمہ کنز الایمان: عدت میں انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ آپ نکلیں مگر یہ کہ کوئی صریح بے حیائی کی بات لائیں ۔‘‘ (سورۃ الطلاق،آیت:1)

   اس آیت کے تحت حضرت صدرالافاضل سیدمحمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:’’عورت کوعدت شوہر کے گھرپوری کرنی لازم ہے نہ شوہرکوجائز کہ مطلقہ کوعدت میں گھر سے نکالے نہ ان عورتوں کو وہاں سے خود نکلناروا۔‘‘(خزائن العرفان فی تفسیر القرآن،سورہ طلاق،تحت الآیۃ:1)

   مبسوط سرخسی میں ہے” الواجب علیھا المقام فی منزل مضاف الیھا ،قال اللہ تعالی(لا تخرجوھن من بیوتھن) والإضافۃ الیھا بکونھا ساکنۃ فیہ فعرفنا ان المستحق علیھا المقام فی منزل کانت ساکنۃ فیہ الی وقت الفرقۃ“یعنی عورت پر اس گھر میں عدت گزارنا واجب ہے جسے عورت کی طرف منسوب کیا جائے، اللہ تعالی نے فرمایا ( عدت میں انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو)اس  میں اضافت عورت کی طرف ہے کہ جس گھر میں عورت رہتی ہوپس ہم نے جان لیا کہ عورت پر اس گھر میں قیام کرنا واجب ہے جس میں وہ وقت فرقت تک رہتی تھی۔(المبسوط للسرخسی، جلد6، صفحہ34، الناشر: دار المعرفة - بيروت)

   درمختار میں ہے:’’(وتعتدان)ای :معتدۃ طلاق  وموت(فی بیت وجبت فیہ )ولا یخرجان منہ (إلاأن  تخرج ،أویتھدم المنزل  أو تخاف)انھدامہ أو (تلف مالھا،أولا تجدکراءالبیت)ونحو ذلک  من الضرورات‘‘ ترجمہ:دونوں  یعنی  طلاق اورموت کی عدت گزارنے والی   عورتیں  اسی  گھر میں عدت گزاریں جہاں عدت گزارنا  واجب ہوئی ہے اوراس گھر سے نہ نکلیں  الا یہ کہ  انہیں نکال دیا جائے یا گھر گر جائے یا اس کےگرنے کا خوف ہو،یا مال تلف ہونے کا خوف ہو یا گھر کاکرایہ نہ ہویا اس کی مثل کوئی  ضرورت ہو۔(الدرالمختار مع رد المحتار، جلد3، صفحہ536، الناشر: دار الفكر-بيروت)

   فتاوی خانیہ میں ہے ”المعتدۃ عن الطلاق تستحق النفقۃ والسکنی کان الطلاق رجعیا اوبائنا او ثلاثا حاملا کانت اولا “ ترجمہ :طلاق کی عدت والی عورت نفقہ اوررہائش کی مستحق ہے طلاق رجعی ہویابائنہ یاتین طلاقیں ہوں ،عورت حاملہ ہویاغیرحاملہ ۔(الفتاوی الخانیۃ علی ھامش الفتاوی الہندیۃ،فصل فی نفقۃ العدۃ،ج01، ص440، کوئٹہ)

   بہارشریعت میں ہے:”جس عورت کو طلاق دی گئی ہے بہر حال عدت کے اندر نفقہ پائے گی طلاق رجعی ہو یا بائن یا تین طلاقیں، عورت کو حمل ہو یا نہیں۔“ (بہارشریعت،ج02،حصہ08،ص263،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم