Kay Khula Ki Iddat Mein Bhi Shohar Par Nafqah Lazim Hoga ?

کیا خلع کی عدت میں بھی شوہر پر نفقہ لازم ہوگا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13151

تاریخ اجراء: 14جمادی الاولیٰ1445 ھ/29نومبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ کیا خلع کی عدت میں بھی شوہر پر عورت کا نفقہ لازم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! عورت اگر خلع کی عدت شوہر کے گھر پر ہی گزارے تو دورانِ عدت اُس کا نفقہ بلاشبہ شوہر کے ذمے پر لازم ہوگا، لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں طلاق و خلع کے واقعات میں شدید لڑائی جھگڑا ہوتا ہے  اور عورت میکے چلی جاتی ہے  ۔حالانکہ زندگی کے اس موڑ کو بھی احسن انداز سے انجام دیا جا سکتا ہے اور اسی کی ترغیب دی گئی ہے۔

   جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ؕ ترجمہ کنز الایمان: ”پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہےیا نکوئی(اچھے سلوک) کے ساتھ چھوڑدینا ہے ۔ “(القرآن الکریم: پارہ 02، سورۃ البقرۃ، آیت 229)

   اصل تو یہی ہے کہ عورت خلع یا طلاق کی عدت شوہر کے گھر میں شریعت مطہرہ کی تعلیمات کے مطابق گزارے اور شوہر اس دوران اِسے نان و نفقہ  کی سہولت اور طلاق ِبائن وخلع کی عدت میں مکمل پردے کی سہولت بھی فراہم کرے۔  ہاں! عورت اگر  اپنی مرضی سے چلی جاتی ہے اور عدت شوہر کے گھر نہیں گزارتی تو نفقہ کی مستحق نہیں ہوگی۔لہذا شوہر کے گھر میں بلا اجازتِ شرعی عدت نہ گزارنے کی صورت میں شوہر پر عدت کا خرچہ بھی لازم نہیں ہوگا۔

    البتہ اتنا ضرور ہے کہ خلع کے معاہدے میں ہی اگر یہ بات طے ہوجائے کہ عورت عدت کا نفقہ وصول نہیں کرے گی، تو اس صورت میں بلاشبہ خلع کا نفقہ ساقط ہوجائے گا اور عورت کو مطالبے کا حق حاصل نہیں ہوگا، مگر عدت اس صورت میں بھی شوہر کے گھر گزارنا ہوگی۔  لیکن طلاق میں ایسا ممکن نہیں کہ عورت آئندہ لازم ہونے والے نفقے کو قبل از وقت معاف نہیں کرسکتی، البتہ فقہائے کرام نے اس حکم سے خلع کا استثناء فرمایا ہے۔

   عدت سے متعلق  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:لَا تُخْرِجُوۡہُنَّ مِنۡۢ بُیُوۡتِہِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ ترجمہ کنزالایمان: ”عدت میں انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ آپ نکلیں۔ “(القرآن الکریم،پارہ28،سورۃ الطلاق،آیت:01)

   خلع کی عدت میں بھی نفقہ لازم ہوگا۔ جیسا کہ فتاوٰی شامی میں ہے:”فإن الخلع سبب لوجوب نفقة العدة۔“ یعنی خلع، عدت کا نفقہ واجب ہونے کا سبب ہے۔(رد المحتار مع الدر المختار ، کتاب الطلاق،  باب النفقۃ، ج 03، ص 453، مطبوعہ بیروت)

   عدت کا نفقہ اُسی وقت واجب ہوتا ہے جب معتدہ شوہر کے گھر میں رہے، ورنہ نہیں۔ جیسا کہ بدائع الصنائع، بحر الرائق وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے:”و النظم للبحر“المعتدۃ اذا خرجت من بیت العدۃ تسقط نفقتھا ما دامت علی النشوز، فان عادت الی بیت الزوج کان لھا النفقۃ و السکنیٰ“ یعنی عدت والی عورت اگر عدت والے گھر سے نکل جائے، تو جب تک وہ نافرمانی پر قائم رہے تب تک اس کا نفقہ ساقط ہوجائے گا۔ ہاں!  اگر وہ شوہر کے گھر  لوٹ آتی ہے تو وہ نفقہ اور رہائش کی مستحق ہوگی۔(البحر الرائق، کتاب الطلاق،  باب النفقۃ، ج 04،  ص 217، مطبوعہ بیروت)

   بہار شریعت میں ہے:” اگر بعدِ طلاق شوہر کے گھر میں رہی اور باہر جانا چھوڑدیا تو ( نفقہ)  پائے گی۔“(بہار شریعت ،ج02،ص263، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   آئندہ زمانے کا نفقہ معاف نہیں ہوسکتا، مگر خلع میں عورت اگر عدت کا نفقہ ساقط کردے تو وہ ضرور ساقط ہوجائے گا۔ جیسا کہ درِ مختار  میں ہے:”قالوا: الابراء قبل الفرض باطل و بعدہ یصح مما مضی“ یعنی فقہائے کرام نے فرمایا ہے کہ لازم ہونے سے پہلے معاف کردینا باطل ہے اور لازم ہونے کے بعد  سابقہ دین معاف کرنا درست ہے۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے:”یستثنی من ذلک ما لو خالعھا علی ان تبرئہ من نفقۃ العدۃ کما قدمناہ فی بابہ، لانہ ابراء بعوض و ھو استیفاء قبل الوجوب فیجوز، اما الاول فھو اسقاط الشئی قبل وجوبہ فلا یجوز، کما فی الفتح۔“ یعنی اس سے وہ صورت مستثنی ہےکہ عورت نے  اسی شرط پر خلع کیا  کہ وہ مرد کو عدت کے نفقہ سے بری کردے (تو اب عدت کا نفقہ ساقط ہوجائے گا)  جیسا کہ ہم نے اسے خلع کے باب میں پہلے ذکر کیا ہے، کیونکہ یہ عوض کے بدلے میں معافی دینا ہے اور یہ  نفقہ واجب ہونے سے پہلے اپنے حق کو وصول کرنا ہے، لہذا یہ جائز ہے۔ بہر حال (خلع کے علاوہ )پہلی صورت میں واجب ہونے سے پہلے ہی کسی چیز کو ساقط کرنا ہے اور یہ جائز نہیں، جیسا کہ فتح القدیر  میں مذکور ہے ۔(رد المحتار مع الدر المختار ، کتاب الطلاق،  باب النفقۃ، ج 03، ص 586، مطبوعہ بیروت)

   ایک دوسرے مقام پر علامہ شامی علیہ الرحمہ نقل فرماتے ہیں:”وفی المجتبی نفقۃ العدۃ کنفقۃ النکاح وفی الذخیرۃ وتسقط بالنشوز وتعود بالعود، وأطلق فشمل الحامل وغيرها والبائن بثلاث أو أقل كما في الخانية ، ويستثنى ما لو خالعها على أن لا نفقة لها ولا سكنى فلها السكنى دون النفقة یعنی مجتبیٰ میں ہے کہ عدت کا نفقہ نکاح کے نفقہ کی طرح ہے، اور ذخیرہ میں ہے کہ نشوز کے سبب نفقہ ساقط ہوجاتا ہےہاں  اگر زوجہ لوٹ آئے تو نفقہ بھی لوٹ آئے گا۔ یہاں نفقہ کا مطلق بیان ہوا ہے لہذا یہ حکم حاملہ اور غیر حاملہ عورت ،  تین طلاق والی بائنہ عورت یا اس سے کم طلاق والی عورت،  سب کو شامل ہے، جیسا کہ خانیہ میں مذکور ہے۔ مگر اس  سے وہ عورت مستثنیٰ ہے کہ جو اس شرط پر خلع کرے کہ اس کے لیے نفقہ اور رہائش نہیں ہے، تو اس کے لیے رہائش تو ہوگی مگر نفقہ نہیں ہوگا۔(رد المحتار مع الدر المختار ، کتاب الطلاق،  باب النفقۃ، ج 03، ص 609، مطبوعہ بیروت)

   الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:” إن خالعها على نفقة عدتها صح الخلع وسقطت عنه النفقة۔“ یعنی عورت نے اگر اس شرط پر خلع کیا کہ وہ عدت کا نفقہ وصول نہیں کرے گی، تو یہ خلع درست ہےاور شوہر سے اُس کا نفقہ ساقط ہوجائے گا۔(الجوہرۃ النیرۃ،کتاب الخلع،  ج 02،ص 61، المطبعة الخيرية)

   خلع میں نفقہ لازم ہونے سے متعلق بہار شریعت میں ہے:” خلع میں نفقہ ہے، ہاں اگر خلع اس شرط پر ہواکہ عورت نفقہ وسکنےٰمعاف کرے تو نفقہ اب نہیں پائے گی مگر سکنٰے سے شوہر اب بھی بَری نہیں کہ عورت اس کو معاف کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ “(بہارشریعت، ج 02، ص264، مکتبۃ  المدینہ، کراچی)

   عورت خلع کا نفقہ ساقط کردے تو ساقط ہونے سے متعلق بہارِ شریعت میں ہے:” اُس سال کا جوابھی نہیں آیا (نفقہ) معاف نہیں کرسکتی ۔۔۔۔۔ ہاں اگر اس شرط پر خلع ہوا کہ عورت عدت کانفقہ معاف کردے تو یہ معاف ہو جائیگا۔ “ (بہارشریعت، ج 02، ص268، مکتبۃ  المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

   ایک دوسرے مقام پر صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نقل فرماتے ہیں:”نکاح کی وجہ سے جتنے حقوق ایک کے دوسرے پر تھے وہ خلع سے ساقط ہو جاتے ہیں اور جو حقوق کہ نکاح سے علاوہ ہیں وہ ساقط نہ ہوں گے۔ عدت کا نفقہ اگرچہ نکاح کے حقوق سے ہے مگر یہ ساقط نہ ہوگا ہاں اگر اس کے ساقط ہونے کی شرط کر دی گئی تو یہ بھی ساقط ہو جائیگا۔“(بہارشریعت، ج 02، ص196-195، مکتبۃ  المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم