Kya Namard Ki Aurat Par Bhi Talak Ki Iddat Lazim Hogi ?

کیا نامرد کی عورت پر بھی طلاق کی عدت لازم ہوگی؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13190

تاریخ اجراء:   08جمادی الثانی1445 ھ/22دسمبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ جو شخص بیوی کے ساتھ رہتا ہو مگر حقِ زوجیت ادا کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو ۔ پھر شادی کے چار سال بعد وہ اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے، تو کیا اس کی عورت پربھی طلاق کی عدت لازم ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں!  پوچھی گئی صورت میں اُس عورت پر طلاق کی عدت لازم ہوگی۔ 

   نامرد کی بیوی پر طلاق کی عدت لازم ہونے سے متعلق تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:(و لو وجدته عنينًا) هو من لا يصل إلى النساء لمرض أو كبر، أو سحر ۔۔۔۔(فإن وطئ) مرة فبها (و إلا بانت بالتفريق) من القاضي إن أبى طلاقها ترجمہ: ” عورت اگر شوہر کو نامرد  پائے اور اس سےمراد وہ شخص ہے جو مرض،  بڑھاپے یا جادو کے سبب عورت سے جماع کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو۔۔۔۔ اگر اُس نامرد نے ایک مرتبہ بھی اپنی عورت  سے وطی کرلی ہوتو بہتر، ورنہ قاضی کی جانب سے تفریق کی صورت میں وہ عورت طلاقِ بائنہ والی شمار ہوگی جبکہ شوہر نے طلاق دینے سے انکار کیا ہو۔ “

    (و إلا بانت بالتفريق) کے تحت رد المحتار میں ہے:لأنها فرقة قبل الدخول حقيقة، فكانت بائنة و لها كمال المهر و عليها العدة لوجود الخلوة الصحيحة، بحر  ترجمہ: ”کیونکہ یہ جدائی حقیقۃً دخول سے پہلے ہے،  لہذا اس عورت کو طلاقِ بائنہ واقع ہوگی اور اُس کے لیے پورا مہر ہوگا، نیز خلوتِ صحیحہ پائی جانے کی وجہ سے اُس عورت پر عدت بھی لازم ہوگی ، "بحر"۔“(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطلاق، ج 05، ص 175-171، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً)

   نامرد کی خلوت صحیح شمار ہوگی۔ جیسا کہ حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق میں ہے:”(قولہ: وعليها العدة لوجود الخلوة الصحيحة) أي لأن خلوة العنين صحيحة إذ لا وقوف على حقيقة العنة لجواز أن يمتنع من الوطء اختيارا تعنتا فيدور الحكم على سلامة الآلة۔اهـ۔ فتح۔“یعنی شارح کا یہ فرمانا کہ نامرد کی عورت پر خلوتِ صحیحہ پائی جانے کی وجہ سے عدت لازم ہوگی، کیونکہ  نامرد  کی خلوت صحیح ہوتی ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ نامرد ہونے کا حقیقی علم نہیں ہو سکتا ، ممکن ہے مرد جان بوجھ کر جماع سے باز رہے ۔ لہذا حکم آلہ تناسل کے سلامت رہنے پر دائر ہوگا۔(حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق ، کتاب الطلاق، ج 03، ص 23، مطبوعہ قاہرۃ)

   عنایہ شرح الہدایہ میں ہے:”(ولها كمال المهر إن كان خلا بها لأن خلوة العنين صحيحة) ۔۔۔۔ (ويجب العدة) لتوهم الشغل احتياطا استحساناً۔“یعنی نامرد نے  عورت سے خلوت کرلی ہو تو اُس کی عورت کو پورا مہر ملے گا کہ نامرد کی خلوت درست ہوتی ہے ۔۔ ۔ ۔ ہاں اُس کی عورت پر استحساناً احتیاط کے طور پر عدت لازم ہوگی کیونکہ ممکن ہے کہ عورت کو حمل ٹھہر چکا ہو ۔(العنایۃ شرح الھدایۃ، کتاب الطلاق، ج 04، ص 300، دار الفکر، ملتقطاً)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فتاوٰی رضویہ میں نامرد سے متعلق کیے گئے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :”جب ا س طرح سال کامل گزر جائے ا ور زید (عنین)ہندہ پر قدرت نہ پائے تو اس وقت بطلب ہندہ زید وہندہ میں تفریق کردی جائے، اب بعد عدت ہندہ کو اختیار نکاح ہوگا۔"وکل ماذکر نا مفصل فی الدرالمختار و ردالمحتار والفتاوی الخیریہ وغیرھا من الکتب الفقہیۃ۔(جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے ، وہ مفصل طور پر درمختار، ردالمحتار اور فتاوٰی خیریہ وغیرہ کتب میں موجود ہے)(فتاوٰی رضویہ،ج11،ص196،رضافاونڈیشن،لاہور)

   بہارِ شریعت میں ہے: ” شوہر کا عضو تناسل کٹا ہوا ہے یا انثیین نکال ليے گئے ہیں یا عنین (نامرد)ہے یا خنثیٰ ہے اور اس کا مرد ہونا ظاہر ہوچکا تو ان سب میں خلوتِ صحیحہ ہو جائے گی۔ خلوتِ صحیحہ کے بعد عورت کو طلاق دی تو مہر پورا واجب ہوگا، جبکہ نکاح بھی صحیح ہو ۔۔۔۔۔ خلوتِ صحیحہ کے یہ احکام بھی ہیں:    طلاق دی تو عورت پر عدّت واجب، بلکہ عدّت میں نان و نفقہ اور رہنے کو مکان دینا بھی واجب ہے۔“(بہارِ شریعت، ج02، ص70، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم