Talaq Ki Iddat Wali Aurat Ke Liye Doran e Iddat Nokri Ke Liye Ghar Se Nikalna Kaisa?

طلاق کی عدت والی عورت کے لیے دورانِ عدت نوکری کرنے کے لیے گھر سے نکلنا کیسا ؟

مجیب: مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Lar-10562

تاریخ اجراء:14شعبان المعظم 1442ھ/29مارچ 2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ ہندہ کو اس کے شوہر نے  تین طلاقیں دے کر اپنے گھر سے نکال دیا ہے اور وہ اپنے والد کے گھر  عدت گزار رہی ہے ، دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا  ہندہ عدت میں نوکری کرنے کے لیے جاسکتی ہے؟جبکہ ہندہ  کا والد اس کا خرچہ برداشت کررہا ہے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شرعی قوانین کی رو سے عورت کوطلاق سے قبل جس مکان میں شوہرنےرہائش دی ہو،اسی میں عدت گزارناواجب اوربغیر ضرورت شرعیہ اس گھر سے نکلنا حرام ہے،نیزعدت کے ختم ہونے تک سکونت اور نفقہ شوہر کے ذمے لازم ہےاوراگر کسی ضرورت شرعی کی وجہ سے وہ عورت دوسرے مکان میں منتقل ہوجائے ،تو عدت کے معاملے میں اس مکان کے بھی وہی احکام ہوتے ہیں، جو پہلے مکان کے تھے۔بیان کی گئی صورت میں ہندہ پر اولاً شوہر کے گھر میں ہی عدت گزارنا لازم تھا، لیکن جب اسے شوہر نے گھر سے نکال دیا اور یہ اپنے والد کے گھر منتقل ہو گئی، تو اب والد کے گھر کا عدت کے معاملے میں وہی حکم ہے جو شوہر کے گھر کا  تھایعنی  بغیر ضرورت شرعیہ اس گھر سے نکلنا جائز نہیں اور  جب ہندہ کا والد اس کا خرچہ اٹھا رہا ہے ،تو اس کا نوکری کے لیے گھر سے نکلنا ضرورت شرعیہ نہیں ہے، لہذا  ہندہ کا  عدت کے دوران نوکری کے لیے جانا ،جائز نہیں ہے۔

   اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے﴿لَا تُخْرِجُوہُنَّ مِن بُیُوتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَترجمہ:”عدت میں انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالواورنہ وہ آپ نکلیں۔“ (پارہ 28،سورۃ الطلاق،آیت 1)

   اس آیت  مبارکہ کی تفسیر میں فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”وَلا یَخْرُجْنَ یعنی:لیس لھن أن یخرجن من البیوت“ترجمہ: اور وہ خود نہ نکلیں یعنی عدت والی عورتوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ گھروں سے نکلیں ۔تفسیر سمرقندی ،سورۃ الطلاق،آیت1، جلد 3، صفحہ460،مطبوعہ خدمۃ مقارنۃ التفاسیر(

   فتاوی عالمگیری میں ہے : ”علی المعتدۃ ان تعتد فی المنزل الذی یضاف الیھا بالسکنی حال وقوع الفرقۃ والموت“ترجمہ: عدت والی پر لازم ہے کہ وہ اس مکان میں عدت گزارے جس میں جدائی اور موت کے وقت سکونت پذیر تھی ۔)فتاوی عالمگیری ،جلد1،صفحہ 535،مطبوعہ کوئٹہ(

   درمختار میں ہے: ”تعتدان أی: معتدۃ طلاق و موت فی بیت وجبت فیہ و لا تخرجان منہ الا أن تخرج أو ینھدم المنزل أو تخاف انھدامہ أو تلف مالھا أو لا تجد کراء البیت و نحو ذٰلک من الضرورات فتخرج لأ قرب موضع الیہ“ یعنی موت اور طلاق کی عدت والی عورتیں اسی مکان میں عدت گزاریں جس میں عدّت واجب ہوئی ہو، اور وہاں سے نہ نکلیں سوائے یہ کہ ان کو زبردستی نکالا جائے یا وہ مکان گرجائے یا گرنے کا خطرہ ہو یا مال کے ضائع ہوجانے کا خطرہ ہو یا مکان کرایہ پر ہو اور عورت کرایہ نہ دے پائے، اور دیگر ایسی ضروریات کی وجہ سے مجبور ہو، تو قریب ترین مکان میں منتقل ہوجائے۔ (ردالمحتارعلی الدر المختار، جلد5، صفحہ229، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی ہندیہ میں ہے:’’المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان ‘‘ترجمہ:طلاق کی معتدہ نفقہ اور رہائش کی مستحق ہے، چاہے طلاق رجعی ہو یا بائنہ ہو یا تین طلاقیں ہو ں ،وہ حاملہ ہو یا نہ ہو ۔فتاوی قاضی خان میں ایسے ہی ہے ۔(فتاوی ھندیہ ، جلد1،صفحہ557،دارالفکر، بیروت)

   بہار شریعت میں ہے :’’ جس مکان میں عدت گزارنا واجب ہے ،اُس کو چھوڑ نہیں سکتی، مگر اُس وقت کہ اسے کوئی نکال دے ،مثلاً:طلاق کی عدت میں شوہر نے گھر میں سے اس کو نکال دیا، یا کرایہ کامکان ہے اور عدت عدتِ وفات ہے، مالک مکان کہتا ہے کہ کرایہ دے یا مکان خالی کر اور اس کے پاس کرایہ نہیں یا وہ مکان شوہر کا ہے، مگر اس کے حصہ میں جتنا پہنچا وہ قابل سکونت نہیں اورورثہ اپنے حصہ میں اسے رہنے نہیں دیتے یا کرایہ مانگتے ہیں اور پاس کرایہ نہیں یا مکان ڈھ رہا ہویا ڈھنے کا خوف ہو یاچوروں کاخوف ہو، مال تلف ہو جانے کا اندیشہ ہے یا آبادی کے کنارے مکان ہے اور مال وغیرہ کا اندیشہ ہے، تو ان صورتوں میں مکان بدل سکتی ہے۔“(بھار شریعت،جلد2،حصہ 8،صفحہ245،246،مکتبۃ المدینہ،کراچی(

   اگر کسی عذر کی وجہ سے معتدہ عورت دوسرے مکان میں منتقل ہوجائے ،تو عدت کے معاملے میں اس کے بھی وہی احکام ہوتے ہیں جو پہلے مکان کے تھے،جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے :”وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة“ترجمہ: اگر عورت کسی عذر کی وجہ سے دوسرے مکان  میں منتقل ہو گئی ،تو باہر نکلنے کی حرمت میں یہ مکان پہلے مکان کی طرح ہے ، کیونکہ پہلے مکان سے منتقل ہونا عذر کی وجہ سے تھا، لہذا  یہ مکان اس کے لیے اصل مکان کے قائم مقام ہوجائے گا اور  عدت کے مکمل ہونے تک اسی مکان میں رہنا لازم ہوگا۔ (بدائع الصنائع،جلد3،صفحہ 206،دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

   بہارشریعت میں ہے:” موت یا فرقت کے وقت جس مکان میں عورت کی سکونت تھی اُسی مکان میں عدت پوری کرے اور یہ جو کہا گیاہے کہ گھر سے باہر نہیں جاسکتی اس سے مراد یہی گھر ہے اور اس گھر کو چھوڑکر دوسرے مکان میں بھی سکونت نہیں کرسکتی ،مگر بضرورت اور ضرورت کی صورتیں ہم آگے لکھیں گے ۔آج کل معمولی باتوں کو جس کی کچھ حاجت نہ ہو،محض طبیعت کی خواہش کو ضرورت بولا کرتے ہیں ،وہ یہاں مراد نہیں بلکہ ضرورت وہ ہے کہ اُس کے بغیر چارہ نہ ہو۔“(بھارشریعت ،جلد2،حصہ 8،صفحہ245،مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم