ملازم کے تین دن لیٹ ہونے پر ایک دن کی تنخواہ کاٹنا کیسا؟

مجیب:مفتی فضیل صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: FMD-1541

تاریخ اجراء:27 ذوالحجۃ الحرام1440ھ/29اگست2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے  بارے میں کہ میں ایک تعلیمی ادارےمیں ملازم ہوں ۔وہاں کا اصول ہے کہ کوئی ٹیچر مہینے میں 3دن لیٹ ہوا، تو اس کی ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جائے گی ۔کیا شرعی طور پر اس طرح پورے دن کی تنخواہ کاٹنا جائز ہے ؟ نیز کیا اس اصول کے تحت کسی ٹیچر کے 18 دن لیٹ آنے  کی وجہ سے 6دن کی کٹوتی کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ شرعی رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اجرت و تنخواہ پر کام کرنے والےافراد کی دو قسمیں ہیں:

    (1)اجیر خاص :وہ شخص جو ایک وقت میں صرف ایک ہی ادارے یا شخص کا کام کرنے کاپابند ہو، اس وقت میں وہ کسی دوسرے  کا کام نہیں کر سکتا۔ جیسے کسی کمپنی وغیرہ میں کام کرنے والاملازم۔

    (2) اجیر مشترک: وہ شخص جو کسی ایک ادارے یا شخص کا کام کرنے کا پابند نہ ہو، بلکہ وہ ایک ساتھ کئی لوگوں کے کام کر سکتا ہو۔ جیسے حجام، درزی وغیرہ۔

    اسکول کے ٹیچر اجیر خاص ہیں کہ وہ اس ڈیوٹی کے وقت میں کسی اور جگہ کام نہیں کر سکتےاور اجیرِ خاص کے متعلق حکمِ شرعی یہ ہے کہ وہ تسلیمِ نفس(مقررہ وقت میں کام کے لیے اپنے آپ کو پیش کردینے) سے  اجرت ( تنخواہ) کا مستحق ہوجاتا ہے۔

    پوچھی گئی صورت میں آپ جتنا وقت اسکول میں حاضر رہے اوراپنے ذمہ کا کام کیایعنی دستور کے مطابق پڑھاتے رہے ، شرعاً آپ اتنے وقت کی تنخواہ کے مستحق ہیں اور جتنے منٹ تاخیر سے آئےاتنے منٹ کی تنخواہ کے مستحق نہیں ہیں۔لہٰذا تاخیر والے منٹ کے مقابل جو اجرت بنتی ہے ،اسکول انتظامیہ کے لیےصرف اتنی کٹوتی کرنا ،جائز ہے،اس سے زیادہ کٹوتی کرنایعنی 3دن لیٹ آنے کی بِنا پرآپ کی پورے ایک دن کی تنخواہ کاٹنا ،بلکہ سوال کے مطابق 18 دن لیٹ آنے کی وجہ سے پورے6 دن کی تنخواہ کاٹ لینا ظلم و زیادتی وناجائز وحرام ہےاور زائد کاٹی جانے والی تنخواہ واپس کرنا اسکول انتظامیہ پر لازم ہے ۔

    امام ابو الحسین احمد بن محمد قدوری رحمۃ اللہ علیہ مختصر القدوری میں اجیر خاص کے متعلق  فرماتے ہیں:”الاجیر الخاص ھو الذی یستحق الاجرۃ بتسلیم نفسہ فی المدۃ وان لم یعمل، کمن استأجر رجلا شھرا للخدمۃ  او لرعی الغنم“اجیرِ خاص وہ ہے جو  مقررہ مدت میں تسلیمِ نفس کرنے سے اجرت کا مستحق ہوجاتا ہے، اگرچہ (کام نہ ہونے  کی وجہ سے ) کام نہ کیا ہو۔جیسے کسی شخص کو ایک مہینے تک خدمت کے لیے یا بکریاں چرانے کے لیے اجیر رکھا۔

                                                                     (مختصر القدوری مع جوھرۃ النیرۃ،جلد1، صفحہ 584، مطبوعہ کوئٹہ)

    صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ القوی بہار شریعت میں اجیر کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”اجیر دو قسم کے ہیں :(1) اجیر مشترک و (2) اجیر خاص۔اجیر مشترک وہ ہے جس کے لیے کسی وقتِ خاص میں ایک ہی شخص کا کام کرنا ضروری نہ ہو، اس وقت میں دوسرے کا بھی کام کر سکتا ہو،جیسے دھوبی، خیاط(درزی)،حجام،حمال(سامان اٹھانے والامزدور) وغیرہم ،جو ایک شخص کے کام کے پابند نہیں ہیںاور اجیر خاص ایک ہی شخص کا پابند ہوتا ہے(مزید ارشاد فرماتے ہیں)اجیر خاص جس کی تعریف پہلے ذکر ہوچکی ، اس کے ذمہ تسلیمِ نفس واجب ہے یعنی جو وقت اس کے لیے مقرر کردیا گیا ہے اس وقت میں اس کا حاضر رہنا ضروری ہے ،(کام نہ ہونے کی وجہ سے )اس نے اگر کام نہیں کیا ہے جب بھی اجرت کا مستحق ہے۔جیسے کسی کو خدمت کے لیے نوکر رکھا یا جانوروں کے چرانے کے لیے نوکر رکھا اور تنخواہ بھی متعین کر دی۔ملتقطاً ‘‘

                     (بھارِ شریعت، جلد 3، حصہ 14، صفحہ 155،160، مکتبۃ المدینہ،کراچی)  

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:”مدرسین و امثالہم اجیر خاص ہیں اور اجیر خاص پر وقت مقررہ معہود میں تسلیمِ نفس لازم ہے اور اسی سے وہ اجرت کا مستحق ہوتا ہے اگرچہ کام نہ ہو ۔مثلاً مدرس (ٹیچر)وقت معہود پر مہینہ بھر برابر حاضر رہااور طالب علم کوئی نہ تھا کہ سبق پڑھتا ،مدرس کی تنخواہ واجب ہوگئی ۔ہاں اگر تسلیم نفس میں کمی کرے،مثلاً: بلا رخصت چلا گیا ، یا رخصت سے زیادہ دن لگائے یا مدرسے کا وقت چھ گھنٹے تھااس نے پانچ گھنٹے دئیےبہر حال جس قدر تسلیم نفس میں کمی کی ہے اتنی تنخواہ وضع ہوگی (یعنی کاٹی جائے گی۔)معمولی تعطیلیں مثلاً جمعہ و عیدین و رمضان مبارک کی یا جہاں مدارس میں سہ شنبہ کی چھٹی بھی معمول ہے ،وہاں یہ بھی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں کہ ان ایام میں بے تسلیم نفس بھی مستحق تنخواہ ہے،سوا اس کے اور کسی صورت میں تنخواہ کل یا بعض ضبط نہیں ہوسکتی۔ملتقطاً ‘‘

                                                                                       (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 506، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور) 

    امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ سے فتاوی رضویہ میں ایک جگہ اس طرح کا سوال ہوا کہ ٹیچر نے کچھ وقت پڑھانے کے بعد جس کے یہاں پڑھاتا تھا اس سے چھٹی لینا چاہی تو اس نے کہا کہ اپنا پورا وقت پڑھاؤ ورنہ آدھے دن کی تنخواہ کاٹوں گا ۔تو اس شخص کا آدھےدن کی تنخواہ کاٹنا درست ہے یا نہیں؟تو سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:”اس روز جتنے گھنٹے کام میں تھا ان میں جس قدر کی کمی ہوئی صرف اتنی ہی تنخواہ وضع ہوگی (یعنی کاٹی جائے گی)،ربع ہو تو ربع ، یا کم زیادہ جس قدر کی کمی ہوئی صرف اتنی تنخواہ وضع ہوگی ،مثلاً چھ گھنٹے کام کرنا تھا اور ایک گھنٹہ نہ کیا تو اس دن کی تنخواہ کا چھٹا حصہ وضع ہوگا ،زیادہ وضع کرنا ظلم ہے۔“

        (فتاوی رضویہ، جلد19، صفحہ 516، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم