بروکر کے ذریعے کیا ہوا سودا ختم ہوجانے کی صورت میں کمیشن اور بیعانہ کا حکم

مجیب:      مولاناعبدالرب شاکرعطاری مدنی زیدمجدہ

مصدق:      مفتی محمد قاسم عطاری مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Sar:7116

تاریخ اجراء: 20 ربیع الاول 1442 ھ/07نومبر2020 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

      کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفیان ِشرع متین اس مسئلے کےبارےمیں کہ زیدنے چل پھرکرمحنت ومشقت کرکے ایک فیصدکمیشن پربکرکامکان خالدکے ہاتھ فروخت کردیا اوربکرنے ایک لاکھ بیعانہ بھی وصول کرلیا، لیکن پھرکچھ عرصے کے بعدخالد سے بقیہ پیسوں کابندوبست نہ ہونے کے بناپرباہمی رضامندی سےسوداختم ہوگیا۔سوال یہ ہے کہ زیدنے جوایک فیصدکمیشن لیاہے، کیاوہ کمیشن سودافسخ ہونے کی بناپرواپس لیا جائے گایانہیں؟نیزبکرنے جوایک لاکھ بیعانہ لیاتھا،بکراورخالد کی باہمی رضامندی سےسوداختم ہونے پروہ بیعانہ واپس کرے گا یانہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     دریافت کی گئی صورت میں زیدنے جوچل پھرکرمحنت ومشقت کرکے بکراورخالدکے مابین مکان کاسودامکمل کرواکرایک فیصد کمیشن لیاتھا،وہ سودا ختم ہونے پرواپس نہیں لیاجاسکتا،کیونکہ کمیشن سودامکمل کروانے کے عوض قرارپایاتھا اورزیدنے سودا مکمل کروادیاتھا،لہذاوہ کمیشن کامستحق ہوگیاتھا،اب سوداختم ہونے سے زیدکاکمیشن باطل نہیں ہوگا۔

    بکرنے خالدسے جوبیعانہ لیاتھا،باہمی رضامندی سے سوداختم ہونے کی بِناپربکرپربیعانہ واپس کرنالازم ہے،کیونکہ سوداختم ہونے سے بکرکواس کامکان واپس مل گیا،توخالد کواس کے پیسے واپس کرنے ہوں گے،اگربکرواپس نہیں کرے گا ،توغیرکا مال ناحق طریقے سے لینالازم آئے گا،جوناجائز،حرام وگناہ ہے۔

     عقدتام ہوکرفسخ ہونے کی صورت میں بروکری کے استحقاق کے بارے میں فتاوی قاضی خان میں ہے:دلال باع شیئاً وأخذ الدلالیة ثم استحق المبیع علی المشتری أو رد بعیب بقضاءأو غیرہ لا یسترد الدلالیة وان انفسخ البیع لأنہ وان انفسخ لا یظھر أن البیع لم یکن فلا یبطل عملہترجمہ:بروکرنے کوئی چیز  بیچی اورکمیشن لے لیا،پھربیچی گئی چیزکے مالک ہونے کاخریدارپرکسی نے دعوی کردیایاقاضی کے فیصلہ یابغیرفیصلہ کے عیب کی بِناپراسے واپس کردی گئی ،توبروکرسے کمیشن واپس نہیں لیاجاسکتا،اگرچہ سودا ختم ہوگیا ہو،کیونکہ اگرچہ خریدوفروخت کا معاہدہ  ختم ہوگیا ہے ، مگراس سے یہ ظاہرنہیں ہوتا ، کہ وہ ہواہی نہیں تھاکہ اس کاعمل باطل ہوجائے۔

(فتاوی قاضی خان برھامش ھندیہ ،ج02،ص293،مطبوعہ کوئٹہ)

     اسی میں ہے:الدال فی البیع اذا أخذ دلالتہ بعد البیع ثم انفسخ البیع بینھما بسبب من الأسباب سلمت لہ الدلالیة لأن الأجر عوض مقابل بالعمل وقد تم العمل….کالخیاط اذاخاط الثوب ثم فتقہ صاحب الثوب فانہ لایرجع علی الخیاط بالاجرترجمہ:جب بروکرنے عقدکروانے کے بعداپناکمیشن لے لیا،پھران خریداراورفروخت کرنے والے کے درمیان کسی سبب سے بیع فسخ ہوگئی،توبروکرکوکمیشن دیاجائے گا،کیونکہ کمیشن عمل کے مقابل معاوضہ ہے اوربیشک عمل مکمل ہوچکا،جیسے درزی نے جب کپڑے سلائی کیے ، پھرکپڑے کے مالک نے اسے ادھیڑ دیا،توکپڑے کامالک درزی سے اجرت واپس نہیں لے گا۔

(فتاوی قاضی خان برھامش ھندیہ،کتاب الاجارات،ج02،ص327،مطبوعہ کوئٹہ)

     بیعانہ واپس نہ کرنا باطل طریقے سے مال کھاناہےاورباطل طریقے سے مال کھانے کے حرام ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمْ بَیۡنَکُمْ بِالْبَاطِلِترجمہ کنز الایمان : ’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔‘‘

 (پارہ 5،سورة النساء ،آیت29)

     بیعانہ واپس نہ کرنے کے ظلم ہونے کے بارے میں فتاوی رضویہ میں ہے:”بیشک واپس پائے گا، بیع نہ ہونے کی حالت میں بیعانہ ضبط کرلیناجیسا کہ جاہلوں میں رواج ہے،ظلم صریح ہے۔“

(فتاوی رضویہ ،ج17،ص94،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

     فتاوی فیض رسول میں ہے:”جبکہ بیچنے والے نے خریدار کے انکار کومان لیا اور بیع کا فسخ منظور کر لیا، تو بیعانہ کی رقم واپس کرنا اس پر لازم ہے،اگر نہیں واپس کرے گا ،تو سخت گنہگار حق العبد میں گرفتار ہوگا۔‘‘

(فتاوی فیض رسول،ج2،ص377 ،مطبوعہ شبیر برادرز،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم