تنخواہ لینے والے امام ومدرس کو ثواب ملے گا یا نہیں

مجیب:        محمد سجاد  عطاری مدنی  زید مجدہ

فتوی نمبر: Web:32

تاریخ اجراء: 01 جمادی الاولی 1442 ھ/ 17 دسمبر 2020 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

      کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ  دینی خدمت کے امور مثلا امامت  ،مؤذنی ،قرآن  و حدیث   کی تعلیم وغیرہ پر   تنخواہ لینا کیسا ؟    نیز اگر کوئی شخص تنخواہ لے   کر یہ کام کرتا ہے تو  اسے ثواب ملے گا یانہیں برائے کرم اس کے بارے میں رہنمائی فرمائیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     فی زمانہ  امامت  ،اذان دینے ،قرآن و حدیث اور  دیگر دینی علوم پڑھانے پرتنخواہ لیناجائز ہے،البتہ اگر کوئی فقط پیسے کمانے کے لیے  یہ کام کرتاہے توان امور  کا جو ثواب  بیان ہو ا ،وہ اسے  حاصل نہ ہوگاہاں اگر اصل مقصددین کی خدمت ہےتنخواہ اس لیے لیتا ہے کہ اپنا اور اہل وعیال کا گزر بسرکر سکے اگر یہ مجبوری نہ ہوتی تو فی سبیل اللہ کام کرتا اس صورت میں اللہ عزوجل کی رحمت سے امید ہے کہ ثواب کا بھی حقدار ہو گا ۔

     ابوداؤشریف میں حدیث مبارکہ ہے :’’عن رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   یقول : العامل  علی الصدقۃ   بالحق  کالغازی  فی سبیل اللہ  حتی یرجع الی بیتہیعنی رافع بن خدیج سے روایت ہے وہ فرماتےہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ عزوجل کی رضا کی کے لئے حق کے مطابق صدقہ وصول کرنے والااپنے گھر لوٹنے تک اللہ عزوجل کی راہ ميں جہاد کرنے والے غازی کی طرح ہے۔‘‘

(سنن ابوداؤد جلد2،صفحہ59،مطبوعہ لاہور)

     اس کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ  فرماتے ہیں :’’اس  حدیث سے معلوم ہوا اگر نیت خیر ہو تو دینی خدمت پر تنخواہ لینے کی وجہ سے اس کا ثواب کم نہیں ہوتا،دیکھو ان عاملوں کو پوری اُجرت دی جاتی تھی مگر ساتھ میں یہ ثواب بھی تھا۔ چنانچہ مجاہد کو غنیمت بھی ملتی ہے اور ثواب بھی،حضرات خلفائے راشدین سوائے حضرت عثمان غنی(رضی اللہ عنھم) کے سب نے خلافت پر تنخواہیں لیں مگر ثواب کسی کا کم نہیں ہوا،ایسے ہی وہ علماء یا امام و مؤذن جو تنخواہ لے کر تعلیم،اذان،امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اگر ان کی نیت خدمت دین کی ہے ان شاءاللہ عزوجل ثواب بھی ضرور پائیں گے۔‘‘

 (مراۃ المناجیح،جلد3،صفحہ 18، ضیاء القران )

     علامہ ابنِ عابدین شامی علیہ الرحمہ رد  المحتار میں اجرت لینے والے مؤذن کو اذان دینے کا ثواب ملنے یا نہ ملنے کی بحث میں فرماتے ہیں :’’ قد يقال إن كان قصده وجه الله تعالى لكنه بمراعاته للأوقات والاشتغال به يقل اكتسابه عما يكفيه لنفسه وعياله فيأخذ الأجرة لئلا ليمنعه الاكتساب عن إقامة هذه الوظيفة الشريفة ولولا ذلك لم يأخذ أجرا فله الثواب المذكور بل يكون جمع بين عبادتين وهما الأذان والسعي على العيال وإنما الأعمال بالنيات یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ (مؤذن ) رضائے الہٰی کا قصد کرے لیکن اوقات کی پابندی اور اس کام میں مصروفیت کی بنا پر اپنے عیال کے لئے قدرِ کفایت روزی نہ کماسکے ۔ چنانچہ وہ اس لئے اجرت لے کہ روزی کمانے کی مصروفیت کہیں اسے اِس سعادتِ عظمیٰ سے محروم نہ کروا دے اور اگر اسے مذکورہ مجبوری نہ ہوتی تو وہ اجرت نہ لیتا توایسا شخص بھی مؤذن کے لئے ذکرکردہ ثواب کا مستحق ہوگا بلکہ وہ دوعبادتوں کا جامع (یعنی جمع کرنے والا)ہوگا ،ایک اذان دینا اور دوسری عیال کی کفالت کے لئے سعی کرنا ،اور اعمال کا ثواب نیتوں کے مطابق ہوتا ہے ۔‘‘ (رد المحتار مع درمختار ،جلد2،صفحہ74 ،مطبوعہ کوئٹہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

Title: Fatawa ahlesunnat - Description: https://www.daruliftaahlesunnat.net/ur/fatawa