کمپنی کا ملازم کی میڈیکل انشورنس کروانا کیسا؟

مجیب:مولانا عرفان صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ہاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-10451

تاریخ اجراء:03رجب المرجب1442ھ/ 16فروری2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک پرائیویٹ کمپنی اپنے ملازموں کی خودبخودہیلتھ انشورنس کرواتی ہے،جس کے لیےملازم کوایگریمنٹ پردستخط وغیرہ نہیں کرنے پڑتے ،اس کی سیلری سے رقم بھی نہیں کٹتی،سارے معاملات کمپنی خودہی کرتی ہے ۔ہاں کمپنی ملازم کوایک فارم دیتی ہے ،جس پر ملازم طبی اخراجات لکھ کرکمپنی کودیتاہے اورپھرکمپنی اس کے مطابق انشورنس کمپنی سے رقم لے کربعینہ وہی رقم ملازم کودیتی ہے اوراس میں یہ بات  بھی ہے کہ اگرملازم کمپنی کوطبی اخراجات والا فارم فل کرکے نہ دے، بلکہ اسے کہہ دے کہ میں نے اخراجات نہیں لینے توپھرکمپنی ایسے ملازم کی ہیلتھ انشورنس ہی نہیں کرواتی ۔اگرپہلے سے اس کانام انشورنس کمپنی میں لکھوادیاہوتوکمپنی اس کانام وہاں سے خارج کروادیتی ہے، جس وجہ سے نہ توکمپنی کورقم جمع کروانی پڑتی ہے اورنہ اس پرانشورنس کمپنی کوئی پرافٹ دیتی ہے ۔      شرعی رہنمائی فرمائیں کہ:

     (1)کمپنی کاملازم کے نام کی ہیلتھ  انشورنس کرواناکیساہے؟

     (2) ملازم کے لیے اس صورت میں کیاحکم شرعی ہے ،یہ طبی اخراجات کافارم فل کرکے رقم لے سکتاہے یانہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     (1)صورت مسئولہ میں کمپنی مالک   کاملازموں کے لیے ہیلتھ انشورنس کروانا،جائزنہیں ہے کہ یہ جوئے پرمشتمل ہے کہ ہیلتھ انشورنس میں اپنی رقم کوخطرے پرپیش کیاجاتاہے کہ ہیلتھ انشورنس کی صورت میں اگربیماروغیرہ ہوئے توجمع کروائی گئی رقم سے زیادہ ملتاہے، ورنہ اپنی جمع کروائی گئی رقم بھی  واپس نہیں ملتی اورجواناجائزوحرام ہے ۔

    اللہ عزوجل کے فرمان کے مطابق جوا بہت بڑا گناہ ،ناپاک و شیطانی کام ہے ،جس سے بچنے میں ہی انسان کی فلاح ہے ۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿یَسْـئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا﴾ترجمہ کنزالایمان:’’تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں ،تم فرمادو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ دنیوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے۔‘‘

(سورۃ البقرہ،پارہ02، آیت 219)

    ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ترجَمہ کنزالایمان:’’اے ایمان والو!شراب اور جُوااور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

(سورۃ المائدہ،پارہ07، آیت90)

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”إن اللہ حرم علیکم الخمر والمیسر والکوبۃ وقال کل مسکر حرام‘‘ترجمہ:اﷲتعالیٰ نے شراب اور جوا اور کوبہ (ڈھول)حرام کیااور فرمایا:ہر نشے والی چیز حرام ہے۔

 (سنن الکبری للبیھقی،کتاب الشھادات ،باب ما یدل علی ۔الخ،جلد 10،صفحہ 360،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

    حاشیہ شلبی میں ہے:” ان اللہ تعالى حرم القمار “ترجمہ:اللہ عزوجل نے جوئے کوحرام  فرمایا۔

 ( تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي،جلد6،صفحہ31، مطبوعہ ملتان)

    المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی میں ہے:’’القمارمشتق من القمر الذی یزداد وینقص، سمی القمار قماراً، لا ن کل واحد من المقامرین ممن یجوز ان یذھب مالہ الی صاحبہ،ویستفیدمال صاحبہ،فیزداد مال کل واحد منھما مرۃ وینتقص اخری، فاذا کان المال مشروطاً من الجانبین کان قماراً، والقمار حرام، ولان فیہ تعلیق تملیک المال بالخطر، وانہ لا یجوز ‘‘ ترجمہ : قمار ،قمر سےمشتق(نکلا)ہے،جوبڑھتااورگھٹتاہے،اسےقماراس لیےکہاجاتاہےکہ مقامرین(جواکھیلنےوالوں)میں سےہرایک کامال اس کے ساتھی کے پاس جاسکتاہے اوروہ اپنے ساتھی کے مال سے فائدہ حاصل کرسکتاہے، پس ان میں سے ہرایک کا مال کبھی بڑھ جاتاہے اورکبھی کم ہوجاتاہے ،پس جب مال جانبین سے مشروط ہوتووہ قمارہوگا اورقمارحرام ہے اوراس لیے کہ اس میں مال کے مالک بنانے کو خطرے پر معلق کیاجاتاہے اوریہ ناجائزہے ۔

( المحیط البرھانی فی الفقہ النعمانی ،کتاب الاستحسان والکراھیۃ، جلد06،صفحہ54،مطبوعہ کوئٹہ)

     (2)اوررہاملازم کامعاملہ تواس میں دوطرح کی خرابیاں ہیں :

     (الف)اس انشورنس کے کرنے میں اگرچہ ملازم کودستخط نہیں کرنے پڑتے، لیکن اس انشورنس میں ملازم کاتعاون شامل ہے ،وہ اس طرح کہ اگرملازم طبی اخراجات والافارم فل کرکے نہ دے ،توکمپنی اس کے نام کاانشورنس ہی نہیں کروائے گی اوراگرکروایاہوتوختم کرادے گی ،تواب انکارنہ کرنا،بلکہ طبی اخراجات کافارم فل کرکے دینا،یہ انشورنس کروانے،اس کوبرقراررکھنے اورناجائزرقم لینے میں تعاون کرناہے اوریہ تمام کام گناہ ہیں اور گناہ کے کام پرتعاون کرنابھی گناہ  ہے ۔ارشادخداوندی ہے:﴿ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوانِ﴾ترجمہ کنزالایمان:’’اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔‘‘

(سورۃ المائدہ،پارہ06،آیت02)

     (ب)اگرچہ ملازم انشورنس کے ایگریمنٹ پراپنے دستخط وغیرہ نہیں کرتا،لیکن بعدمیں اسے انشورنس والی رقم ہی ملتی ہے اورانشورنس والی رقم میں جوئے کی  ناجائزوحرام رقم  شامل ہے،اس میں جتنی رقم دینے والے کی ہے، اتنی وہ خودرکھے یاکسی دوسرے کودے ،اس کاتواس کواختیارہے،لیکن جتنی رقم سامنے والے کی ہے وہ اسے واپس کرنالازم ہے ،ملازم کودینااورملازم کالینا،یہ دونوں کام ناجائزہیں ۔ جوئےمیں حاصل کردہ  مال باطل طریقہ سے کسی کے مال کولینے کے زمرے میں آتاہے،جس  کی ممانعت قرآن عظیم میں وارد ہے۔چنانچہ اللہ عزوجل فرماتاہے﴿وَلَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالْبَاطِلِ﴾ترجمہ کنزالایمان:’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ  ۔‘‘

 (سورۃ البقرہ،پارہ02، ،آیت 188)

    صدرالافاضل حضرت علامہ مولانامفتی نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس آیت  کی تفسیرکرتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں:’’اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا، خواہ لوٹ کر یا چھین کر ،چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی یا چغل خوری سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔‘‘

(تفسیرخزائن العرفان، سورۃ البقرہ، پارہ 02، ،آیت 188،ص63،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    فتاوی رضویہ میں ہے:’’جس قدر مال جوئے میں کمایا محض حرام ہے۔اور اس سے براءت کی یہی صورت ہے کہ جس جس سے جتنا مال جیتا ہے اسے واپس دے، یا جیسے بنے اسے راضی کرکے معاف کرالے،وہ نہ ہو تو اس کے وارثوں کو واپس دے، یا ان میں جو عاقل بالغ ہوں ان کا حصہ ان کی رضامندی سے معاف کرالے، باقیوں کا حصہ ضرور انہیں دے کہ اس کی معافی ممکن نہیں اورجن لوگوں کا پتہ کسی طرح نہ چلے، نہ ان کا، نہ ان کے ورثہ کا ، ان سے جس قدر جیتا تھا، ان کی نیت سے خیرات کردے، اگرچہ اپنے محتاج بہن، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں کو دے دے، اس کے بعد جو بچ رہے گا وہ اس کے لیے حلال ہے۔غرض جہاں جہاں جس قدر یاد ہو سکے کہ اتنامال فلاں سے ہار جیت میں زیادہ پڑاتھا اتنا تو انہیں یا ان کے وارثوں کو دے، یہ نہ ہوں تو ان کی نیت سے تصدق کرے، اورزیادہ پڑنے کے یہ معنی کہ مثلا ایک شخص سے دس بار جوا کھیلا ،کبھی یہ جیتا کبھی یہ، اس کے جیتنے کی مقدار مثلا سو روپے کو پہنچی اور یہ سب دفعہ کے ملا کر سوا سو جیتا، تو سو سو برابر ہوگئے، پچیس اس کے دینے رہے۔ اتنے ہی اسے واپس دے، وعلی ہذا القیاس ، اورجہاں یاد نہ آئے کہ کون کون لوگ تھےاور کتنا لیا، وہاں زیادہ سے زیادہ تخمینہ لگائے کہ اس تمام مدت میں کس قدر مال جوئے سے کمایا ہوگا، اتنا مالکوں کی نیت سے خیرات کردے، عاقبت یونہی پاک ہوگی۔‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد19،صفحہ651،652،رضافاونڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم