Pehle Se Bataye Bagair Job Chorne Par Ujrat Na Dena

پہلے سے بتائے بغیر کام چھوڑنے پر اجرت نہ دینا؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ اکثر دکانوں پر لڑکے کام کے لئے رکھے جاتے ہیں تو ان سے یہ طے کیا جاتا ہے کہ اگر کام چھوڑنے کا ذہن ہو تو بتا کر چھوڑنا ہے، ورنہ بیچ مہینے میں بغیر بتائے چھوڑ کر گئے، تو اس مہینے میں کام کیے ہوئے جتنے دن ہوں گے، اُن کی تنخواہ نہیں ملے گی۔ یہ چیز دکانوں پر لڑکے رکھتے ہوئے عموماً طے ہوتی ہے۔ کیا یہ طریقہ کار شرعاً درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اجارہ کرتے ہوئے یہ طے کرنا کہ اگر بغیر بتائے چھوڑ کر گئے تو مہینے میں جتنے دن کام کر چکے ہو، اُس کی بھی تنخواہ نہیں ملے گی، یہ شرط فاسد ہے اور ایسی شرط لگانا، ناجائز وگناہ ہے۔ دکان دار اور جس ملازم نے یہ ناجائز عقدِ اجارہ کیاہو، وہ دونوں گناہگار ہوں گے اور اُن پر توبہ لازم ہو گی اور اگر سوال میں بیان کردہ صورت کے مطابق عقد ہو چکا ہو اور ایک وقت آنے پر ملازم بغیر بتائے مہینے کے دوران کام چھوڑ گیا، تو مالک کو قطعاً یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی خلافِ شرع لگائی ہوئی شرط کے مطابق اُس کی تنخواہ ضبط کرے، بلکہ اِس صورت میں مالک پر لازم ہے کہ جتنے دن ملازم نے کام کیا ہے، اُتنے دن کی حساب لگا کر اُجرت مثل ادا کرے۔ اجرتِ مثل کا مطلب یہ ہے کہ جتنے دن اُس کام کی عرفاً اجرت بنتی ہو، وہ ادا کرے، اگرچہ طے زیادہ کی ہو۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم