Beauty Parlour Ke Liye Dukan Kiraye Par Dena Kaisa Hai ?

بیوٹی پارلر کے لیے دکان کرائے پر دینا کیسا ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی  نمبر:84

تاریخ  اجراء: 23ربیع الثانی 1443ھ/29 نومبر2021ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عورت کا لیڈیز بیوٹی پارلر کھولنا کیسا ہے ؟ نیز کیا بیوٹی پارلر کے لیے جگہ کرایہ پر دے سکتے ہیں ؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   بیوٹی پارلر میں دو طرح کے کام ہوتے ہیں :

   (1)صرف زینت و خوبصورتی کے لئے آئی بروز(Eyebrows)بنانا ، مردانہ اسٹائل کے بال کاٹنا ، ران (Thigh) کے بالوں کی صفائی کرنا ، بالوں کو سیاہ رنگ یاسیاہ  خضاب کرنا ، یہ گناہ والے کام ہیں اور ان کاموں کے علاوہ خارجی طور پر ایسے مقام پر یا کسی بھی مقام پر موسیقی (Music)چلانا ، عورتوں کی بے پردگی ، جاذبِ نظر اور پرنٹ تصاویر لگانا بھی ناجائز ہے۔

   (2)چہرے کے زائد بالوں کی صفائی  ،کریمز (Creams) ، پاؤڈر اور آئی شیڈز (Eye Shades) وغیرہ کے ذریعے میک اَپ کر کے چہرے کو خوبصورت بنانا ۔ سیاہی مائل رنگت کو نکھارنا ، عورتوں کے ہاتھوں پاؤں میں مہندی لگانا ، بالوں کو سنوارنا ، پاک چیزوں کے ذریعے میک اَپ کرنا ، یہ تمام جائز کام ہیں ۔

   ان میں سے پہلی قسم کے کام کرنا اور ان کاموں کی اجرت لینا ناجائز ہے اگرچہ دینے والا حلال مال سے اجرت دے رہا ہو ، جبکہ دوسری قسم کے کام کرنا اور ان کی اجرت لینا جائز ہے ۔باقی بیوٹی پارلر کے لیے جگہ کرائے پر دینے کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ بیوٹی پارلر کو کرائے پر جگہ دینا شرعاً جائز ہے ، بشرطیکہ اس میں ہونے والے ناجائز کاموں پر مدد کرنے کی نیت نہ ہو ، محض اجارہ اور آمدنی حاصل کرنے کی نیت ہو ، کیونکہ وہاں پر ناجائز کام کا وبال ان لوگوں کو ہوگا ، جو ناجائز کام کریں گے ، اُن کا گناہ اِس شخص کے ذمہ نہیں ہوگا ، البتہ اس کی جگہ پر یہ ناجائز کام ہوں گے تو سہی ، اس لیے بیوٹی پارلر کے لیے جگہ کرائے پر دینے سے بچنا چاہیے ۔

   سنن ابو داؤد میں حضرتِ سیِدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے : ”لعِنت الواصلۃ و المستوصلۃ و النامصۃ و المتنمّصۃ و الواشمۃ و المستوشمۃ من غیر داء “ ترجمہ : بال ملانے والی اور ملوانے والی اور ابرو کے بال نوچنے والی اورنو چوانے والی اور گودنے والی اور گودوانے والی پر لعنت ہے ،  جبکہ بیماری کی وجہ سے نہ کیا ہو ۔ (سنن ابی داؤد ، کتاب الترجل ، باب في صلۃ الشعر ، جلد 2 ، صفحہ 221 ، مطبوعہ لاھور)

   عورت کا مردانہ اسٹائل کے بال رکھنا مردوں سے مشابہت اختیار کرنا ہے ، جبکہ حدیثِ پاک میں ہے : ”لعن النبیُ صلی اللہ علیہ و سلم المتشبھین من الرجال بالنساء و المتشبھات من النساء بالرجال “ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں سے مشابہت بنانے والے مردوں اور مردوں سے مشابہت بنانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ۔(صحیح البخاری ، کتاب اللباس ، باب المتشبھون بالنساء الخ ،  جلد 2 ، صفحہ 874 ، مطبوعہ کراچی)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں : ”عورت کو حرام ہے کہ اپنے بال تراشے کہ اس میں مردوں سے مشابہت ہے ، یونہی مردوں کو حرام ہے کہ اپنے بال عورتوں کی طرح بڑھائیں اور وجہ دونوں جگہ وہی مشابہت ہے کہ حرام وموجبِ لعنت ہے۔“(فتاویٰ رضویہ ، جلد 22 ، صفحہ 688 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   ران کے ستر ( یعنی چھپانے کی چیز ) ہونے سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ’’ أما علمت أن الفخذ عورة ‘‘ ترجمہ : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ران ستر ( یعنی چھپانے کی چیز ) ہے ؟( سنن ابی داؤد ، کتاب الحمام ، باب النھی عن التعری ، جلد 2 ، صفحہ 201 ، مطبوعہ لاھور )

   اسی طرح ایک عورت کے لیے دوسری عورت کی ستر دیکھنے سے منع کرتے ہوئے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ’’ لا ينظر الرجل إلى عرية الرجل ولا المرأة إلى عرية المرأة ‘‘ ترجمہ : ایک مرد دوسرے مرد کی اور ایک عورت دوسری عورت کی ستر ( یعنی جسم کے جن حصوں کو شرعاً چھپانا لازمی ہے ، ان) کو نہ دیکھے ۔( سنن ابی داؤد ، کتاب الحمام ، باب فی التعری ، جلد 2 ، صفحہ 201 ، مطبوعہ لاھور )

   ایک عورت دوسری عورت کے کس حصے کو دیکھ سکتی ہے ؟ اس سے متعلق شیخ الاسلام علامہ علی بن ابو بکر المرغینانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ وينظر الرجل من الرجل إلى جميع بدنه إلا ما بين سرته إلى ركبته ۔۔۔ وتنظر المرأة من المرأة إلى ما يجوز للرجل أن ينظرإليه من الرجل ‘‘ ترجمہ : ایک مرد دوسرے مرد کے تمام جسم کو دیکھ سکتا ہے ، سوائے ناف کے نیچے سے لے کر گھٹنے تک ( کہ اس حصے کو نہیں دیکھ سکتا ، اسی طرح ) ایک عورت دوسری عورت کا وہی حصہ دیکھ سکتی ہے ، جو ایک مرد دوسرے مرد کا حصہ دیکھ سکتا ہے ۔( الھدایہ ، کتاب الکراھیۃ ، فصل فی الوطء و النظر و المس ، جلد 4 ، صفحہ 419 ، 420  ، مطبوعہ بیروت )

   کالا خضاب لگانے والوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”یکون قوم فی اخر الزمان یَخضِبون بھذا السواد کحواصل الحمام لا یریحون رائحۃ الجنۃ “ترجمہ : آخری زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے ، جو سیاہ خضاب لگایا کریں گے ، جیسے کبوتروں کے پوٹے ، وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھیں گے۔ (سنن ابی داؤد ، کتاب الترجل ، باب ما جاء فی خضاب السواد ، ، جلد 2 ، صفحہ 226 ، مطبوعہ لاھور)

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک  کے تحت فرماتے ہیں : ”سیاہ خضاب مطلقا مکروہِ تحریمی  ہے، مرد عورت ، سر داڑھی ، سب اسی ممانعت میں داخل ہیں ۔ “(مرآۃ المناجیح ، جلد 6، صفحہ  166 ، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز ، کراچی)

   باجے کی آواز کو دنیا و آخرت میں ملعون قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ مسند بزار میں ہے:’’صوتان ملعونان فی الدنيا والآخرة مزمار عند نعمة ورنة عند مصيبة‘‘ ترجمہ : دو آوازیں دنیا و آخرت میں ملعون ہیں: نعمت کے وقت باجے کی آواز اور مصیبت کے وقت رونے کی آواز ۔ ‘‘(مسند بزار، مسند ابی حمزہ انس بن مالک، جلد 14، صفحہ 62، مطبوعہ مدینۃ المنورہ)

   گانوں کے متعلق شعب الایمان میں ہے:”الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء الزرع‘‘ ترجمہ : گانا ، دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے، جیسے پانی کھیتی کو اگاتا ہے ۔( شعب الایمان، فصل و مما ینبغی للمسلم المرء ان یحفظ اللسان ، جلد 7، صفحہ 108، مطبوعہ ریاض )

   تصویربنانےپرعذاب کےمتعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’ ان اشدالناس عذابا عنداللہ يوم القيامة المصورون“ترجمہ:بےشک قیامت کےدن اللہ کےنزدیک سب سےزیادہ عذاب والےتصویر بنانے والے ہیں۔(صحیح البخاری،کتاب  اللباس،باب عذاب المصورین ،جلد 2،صفحہ 880،مطبوعہ کراچی)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتےہیں:”شک نہیں کہ ذی روح کی تصویرکھینچنی بالاتفاق حرام ہےاگر چہ نصف اعلی بلکہ صرف چہرہ کی ہی ہوکہ تصویرچہرہ کانام ہے۔ “ (فتاوی رضویہ،جلد 21،صفحہ 196،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   چہرے کے زائد بال اتارنے سے متعلق علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ فلو کان فی وجھھا شعر ینفر زوجھا عنھا بسببہ ففی تحریم ازالتہ بعد لأن الزینۃ للنساء مطلوبۃ للتحسین ۔۔۔  اذا نبت للمرأۃ لحیۃ أو شوارب فلا تحرم ازالتہ بل تستحب ‘‘ ترجمہ : اگر عورت کے چہرے پر بال ہوں تو اس کے سبب سے شوہر کو بیوی سے نفرت ہوگی لہذا یہ بال صاف کرنے کو حرام قرار دینا بعید ہے ( یعنی یہ بال صاف کرنا، جائز ہے )کیونکہ عورتوں کے لئے زینت ،خوبصورتی کےلئے مطلوب ہے( اسی طرح ) جب عورت کے داڑھی یا مونچھ کے بال نکل آئیں ، تو ان کو صاف کرنا حرام نہیں ، بلکہ مستحب ہے ۔(رد المحتارعلی الدر المختار ، جلد 9،صفحہ 615،مطبوعہ کوئٹہ)

   جائز چیز سے چہرے کا میک اَپ کرنے سے متعلق علامہ بدر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ ولا يمنع من الادوية التي تزيل الكلف وتحسن الوجه‘‘ترجمہ:اور ان دوائیوں کا استعمال منع نہیں،جو جھائیاں(چہرے کے سیاہ داغ) ختم کرتی ہیں اور چہرے کو خوبصورت بناتی ہیں۔(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری،کتاب فضائل القران،جلد 14، صفحہ 179،مطبوعہ ملتان)

   عورتوں کو مہندی لگانے کی تو خود سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام نے تاکید فرمائی ہے ، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:’’ان هندا  ابنۃ عتبة قالت: يا نبی اللہ! بايعني، قال:لا ابايعك حتى تغيّري كفيك كانهما كفا سبع‘‘ترجمہ:بیشک ہندہ بنتِ عتبہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کی:اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے بیعت کر لیجئے۔ارشاد فرمایا:میں تجھے بیعت نہیں کروں گایہاں تک کہ تو اپنی ہتھیلیاں (مہندی کے رنگ سے) تبدیل نہ کر لے،(مہندی کے بغیرتو)گویا یہ کسی درندے کی ہتھیلیاں ہیں۔(سنن ابی داؤد،کتاب الترجل،باب فی الخضاب للنساء،جلد 2،صفحہ 220،مطبوعہ  لاھور)

   ناجائز کام کا اجارہ کرنے سے متعلق فقہِ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں ہے : ’’ ولایجوز الاستیجار علی الغناء والنوح وکذا سائر الملاھی لانہ استیجار علی المعصیۃ والمعصیۃ لاتستحق بالعقدترجمہ: گانے، نوحے اور اسی طرح تمام لہوولعب کے کاموں پر اجارہ کرنا ، ناجائز ہے،کیونکہ یہ معصیت(یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے کام)ہیں اور معصیت کا استحقاق کسی عقد سے نہیں ہوتا۔(الھدایہ،کتاب الاجارات،باب الاجارۃ الفاسدۃ،جلد 3، صفحہ 306، مطبوعہ لاهور)

ناجائز کام کی اجرت کے متعلق امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ایک وہ جس میں خودناجائزکام کرناپڑے،جیسے یہ ملازمت جس میں سودکالین دین،اس کالکھناپڑھنا،تقاضاکرنااس کے ذمہ ہو،ایسی ملازمت خودحرام ہے،اگرچہ اس کی تنخواہ خالص مال حلال سے دی جائے،وہ مالِ حلال بھی اس کے لئے حرام ہے۔مال حرام ہے توحرام درحرام۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد 19، صفحہ 515، رضافاؤنڈیشن لاهور)

   جائز میک اپ کرنے کی اجرت سے متعلق فتاویٰ عالمگیری میں ہے :’’ولو استأجر مشاطۃ لتزین العروس مباح ۔۔۔ ینبغی أن تجوز الاجارۃ اذا کانت مؤقتۃ أو کان العمل معلوماً ولم ینقش التماثیل علی وجہ العروس ویطیب لھا الاجر لان تزیین العروسِ مباح‘‘ترجمہ:اور اگر کسی نے دلہن سجانے والی کو اجارہ پر لیا تو یہ جائز ہے ۔ اگر  اس کا وقت معلوم ہے یا کام معلوم ہے تو اس کا اجار ہ جائز اور اجرت پاک ہے ، کیونکہ دلہن کو سجانا ایک جائز کام ہے ، لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ دلہن کے چہرے پر کسی قسم کی تصویریں نہ بنائے۔ ‘‘(فتاویٰ عالمگیری ، جلد 4 ، صفحہ526 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   ایسے شخص کو جگہ کرائے پر دینا  جو اس میں ناجائز کام کرتا ہو ، اس کے متعلق محیط برہانی میں ہے :”وإذا استأجر الذمي من المسلم دارا ليسكنها فلا بأس بذلك لأن الإجارة وقعت على أمر مباح فجازت وإن شرب فيها الخمر أو عبد فيها الصليب أو أدخل فيها الخنازير، لم يلحق المسلم في ذلك شيء لأن المسلم لم يؤاجر لها إنما يؤاجر للسكنى، وكان بمنزلة ما لو أجر دارا من فاسق كان مباحا، وإن كان يعصي فيها“ترجمہ : ذمی نے مسلمان سے گھر رہنے کے لیے کرائے پر لیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ یہ ایک جائز کام کا عقد (Contract) ہے ، تو یہ اجارہ جائز ہوا اور اگر وہ اس میں شراب پیے یا صلیب کی پوجا کرے یا خنزیر اس میں رکھے ، تو مسلمان کو کچھ گناہ نہیں ، کیونکہ مسلمان نے اسے ان کاموں کے لیے نہیں دیا ، اس نے تو صرف رہنے کے لیے دیا ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی فاسق کو جائز کام کے لیے گھر کرائے پر دیا اگرچہ وہ اس میں گناہ بھی کرتا ہو ۔(المحیط البرھانی ، کتاب الاجارۃ ، الفصل الخامس عشر ،جلد11، صفحہ348، ادارۃ القرآن ، کراچی )

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فوٹو گرافر کو دکان کرائے پر دینے سے متعلق فرماتے ہیں : ’’اس شخص کو دکان کرائے پر دی جاسکتی ہے ، مگر یہ کہہ کر نہ دیں کہ اس میں تصویر کھینچے ۔ اب یہ اس کا فعل ہے کہ تصویر بناتا ہے اور عذابِ آخرت مُول لیتا ہے پھر بھی بہتر یہ ہے کہ ایسے کو دیں ، جو جائز پیشہ کرتا ہو۔ملخصاً ‘‘( فتاویٰ امجدیہ ، جلد 3 ، صفحہ 272 ، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم