Broker Commission Ka Mustahiq Kab Hota Hai ? Tafseeli Fatwa

بروکر کمیشن کا مستحق کب ہوتا ہے ؟ تفصیلی فتویٰ

مجیب:ابو محمد محمدسرفراز اخترعطاری

مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Har-3758

تاریخ اجراء:21جمادی الثانی1441ھ/16فروری2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ بروکر بروکری کا مستحق کب ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بروکر کے مستحقِ اجرت ہونے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ صرف زبانی بات چیت،صلاح و مشورہ کے بجائے اس کام کے لیے اپنا وقت صرف کرے،محنت و بھاگ دوڑکرے اورکام مکمل کر لے یعنی اگر خود عاقد ہے کہ کسی چیز کے خریدنے یا بیچنے کا وکیل ہے، تو اس چیز کو خرید لے یا بیچ لے، یونہی اگر خود عاقد نہ ہو، بلکہ فریقین کے درمیان مکان ،پلاٹ وغیرہ کسی چیز کاسودا کر ا رہا ہو، توسودا پایہ تکمیل تک پہنچ جائے، تب اجرت کا مستحق ہوگا،لہٰذا بروکر اگر محنت و بھاگ دوڑ نہ کرے صرف زبانی دو چار باتیں کرلے،صلاح و مشورہ دے دے یا محنت و بھاگ دوڑ تو کرے مگر کام  مکمل نہ کر سکے، تو کسی اجرت کا مستحق نہیں ہوگا۔

   نیز بروکر کام پورا کرادینے کی صورت میں صرف اجرت مثل کا مستحق ہوگا یعنی کام کی نوعیت  اور بروکر کی محنت و بھاگ دوڑ  کو ملحوظ رکھتے ہوئے عرفاً جتنی اجرت دی جاتی ہو ،وہی دی جائے گی،مقررہ اجرت اگرچہ کتنی ہی زیادہ ہو وہ نہیں دی جائے گی مثلاً کسی بروکر نے مکان کا سودا کراتے وقت یہ  طے کر لیا کہ میں پانچ پرسنٹ اجرت لوں گا ،جبکہ اس کام کی مارکیٹ میں رائج اجرت دو پرسنٹ ہو تو بروکر کو صرف دوپرسنٹ اجرت ہی ملے گی،زیادہ ناجائز ہوگی،البتہ مقرر کردہ اجرت اگر اجرت مثل سے کم ہو تو پھر مقررہ اجرت ہی دی جائے گی جیسے دو پرسنٹ اجرت مثل ہونے کی صورت میں دو کے بجائے ایک پرسنٹ مقرر کر لے، تو ایک پرسنٹ ہی ملے گی کہ  کمی پر خود راضی ہوا۔

   بروکری کے متعلق جزئیات:

   رد المحتار میں ہے:’’الدلالۃ والاشارۃ لیست بعمل یستحق بہ الأجر وان قال لرجل بعینہ ان دللتنی علی کذا فلک کذا، ان مشی لہ فدلہ فلہ اجر المثل للمشی لاجلہ، لان ذٰلک عمل یستحق  بعقد الاجارۃ‘‘محض بتانا اور اشارہ کرنا ایسا عمل نہیں ہے جس پر وہ اجرت کا مستحق ہو، اگر کسی نے ایک معین شخص کو کہا اگر تو مجھے فلاں چیز پر رہنمائی کرے تو تیرے لیے اتنی اجرت ہوگی، اگر وہ شخص چلا،اس کی رہنمائی کی تو اس کے لیے اجرت مثل ہوگی اس کے لیے چلنے کی وجہ سے، کیونکہ چلنا ایسا عمل ہے جس پر عقد اجارہ میں اُجرت کا مستحق ہوتاہے۔(رد المحتار،ج9،ص159،مطبوعہ کوئٹہ)

   محیط برہانی میں ہے:’’ وفي «نوادر ابن سماعة» عن أبي يوسف: رجل ضل شيئا، فقال: من دلني عليه فله درهم فدله إنسان فلا شيء له؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، ولو قال لإنسان بعينه: إن دللتني عليه فلك درهم، فإن دله من غير مشيء معه فكذلك الجواب لا يستحق به الأجر وإن مشى معه ودله فله أجر مثله، لأن هذا عمل يقابل الأجر عرفا وعادة إلا أنه غير مقدر ففسد العقد ووجب به أجر المثل‘‘نوادر ابن سماعہ میں امام ابویوسف علیہ الرحمۃ سے مروی ہے کہ کسی شخص کی کوئی شے گم ہوگئی ، اس نے کہا جوشخص اس بارے میں میری رہنمائی کرےگا اس کے لیے ایک درہم ہے،ایک شخص نے اس کی رہنمائی  کی،تو اسے کچھ نہیں ملے گا،کیونکہ رہنمائی کرنا یا اشارہ کرنا ایسا عمل نہیں جس سے اجرت کا مستحق ہوسکے۔اور اگر کسی معین شخص سے کہا:اگر تو میری اس شے پر رہنمائی کرے ،تو تیرے لئے ایک درہم ہےاگر اس نے اس کے ساتھ چلے بغیر اس چیز کی رہنمائی کی،تو بھی یہی جواب ہے کہ اس کے ذریعے اجرت کا مستحق نہیں ہوگااور اگر وہ اس کے ساتھ چلے اور رہنمائی کرے،تو اس کے لئے اجرت مثل ہوگی،کیونکہ یہ ایسا عمل ہے جو عرفاً وعادتاً اجرت کے مقابل ہوتا ہےمگر یہ کہ مقرر نہیں اس لئے عقد فاسد ہوا اور اجرت مثل لازم ہوگئی۔(محیط برھانی،ج11،ص352،مطبوعہ ادارۃ التراث الاسلامی، لبنان)

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:’’اگر کارندہ نے اس بارہ میں جو محنت وکوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی بائع کے لئے کوئی دوادوش نہ کی، اگرچہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں، مثلاً آقا کو مشورہ دیا کہ یہ چیز اچھی ہے خرید لینی چاہئے یا اس میں آپ کا نقصان نہیں اور مجھے اتنے روپے مل جائیں گے، اس نے خرید لی جب تو یہ شخص عمرو بائع سے کسی اُجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے محنت کرنے کی ہوتی ہے نہ بیٹھے بیٹھے، دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے مشورہ دینے کی۔غمز العیون میں خزانۃ الاکمل سے ہے:’’اما لو دلہ بالکلام فلا شئی لہ‘‘(اگر صرف زبانی رہنمائی کردی ،تو اس کے لئے کچھ نہیں)اور اگر بائع کی طرف سے محنت و کوشش و دوا دوش میں اپنا زمانہ صرف کیا، تو صرف اجر مثل کا مستحق ہوگایعنی ایسے کام اتنی سعی پر جو مزدوری ہوتی ہےاس سے زائد نہ پائے گا اگرچہ بائع سے قرارداد کتنے ہی  زیادہ کا ہو اور اگر قرار داد اجر مثل سے کم کا ہو تو کم ہی دلائیں گے کہ سقوط زیادت پر خود راضی ہو چکا ۔خانیہ میں ہے:’’ان کان الدلال عرض تعنی و ذھب فی ذلک روزگارہ کان لہ اجر مثلہ بقدر عنائہ و عملہ‘‘ (اگر روزگار کے سلسلہ میں بروکر نے محنت کی اور آیا گیا ،تو اس کی محنت اور عمل کے مطابق اجرت مثل ہوگی)اشباہ میں ہے:’’بعہ لی بکذا ولک کذا فباع فلہ اجر المثل و فی الحموی:ای ولا یتجاوز بہ ماسمی‘‘(دوسرے کو کہا تو میرے لئے اتنے میں اس کو فروخت کر تو تیرے لئے اتنی اجرت ہوگی پس اس نے اسے فروخت کر دیا تو اجرت مثل ملے گی اور حموی میں ہے:یعنی جو مقررہ اجرت سے زائد نہ ہوگی)،رد المحتار میں تتارخانیہ سے ہے:’’فی الدلال والسمسار یجب اجر المثل و ماتواضعوا علیہ ان کل عشرۃ دنانیرکذا فذلک حرام علیھم‘‘(بروکر کے لئے اجرت مثل واجب ہوگی اورانہوں نے دس دینار میں  جو مخصوص اجرت مقرر کی تو وہ ان کے لئے حرام ہے)۔ملخصا‘‘(فتاوی رضویہ،ج19،ص452،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   بروکری  کی اجرت کا استحقاق کب ہوگا؟

   بروکر سودا نہ کراسکا تو اجرت کا مستحق نہیں ہوگا۔چنانچہ تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:’’و فی نور العین سئل بعضھم عمن قال لدلال اعرض ارضی علی البیع و بعھا و لک اجر کذا فعرض و لم یتم البیع ثم ان دلالاً آخر باعھا فللدلال الاول اجر بقدر عملہ و عنائہ و ھذا قیاس والاستحسان لا اجر لہ اذ اجر المثل یعرف بالتجارۃ والتجار لا یعرفون لھذ الامر اجراً و بہ ناخذ و فی المحیط و علیہ الفتوی۔اھ‘‘اور نور العین میں بعض  فقہائے کرام سے اس   شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے بروکر سے کہا   تو میری زمین بیع پر پیش کر اور اس  کو بیچ  اور تیرے  لیے اتنی ا جرت  ہے  پس اس نے  پیش کیا  لیکن بیع مکمل نہ ہو ئی  پھر دوسرے  بروکر نے اس کو بیچا،  تو پہلے بروکر کے لیے اس  کے عمل اور مشقت کے برابر  اجرت ہو گی   یہ قیاس کے اعتبار سے حکم ہے اور استحساناً یہ حکم ہے کہ اس کے لئے کوئی اجرت نہیں ہوگی، کیونکہ اجرت مثل تجارت سے معلوم ہوتی اور تاجر اس کام کی کوئی اجرت نہیں سمجھتے  اور اسی کو ہم لیتے ہے اور محیط میں ہے اسی پر فتوی ہے۔ (تنقیح الفتاوی الحامدیہ،ج1،ص445،مطبوعہ کراچی)

   محیط برہانی میں ہے:’’وفي فتاوى أبي الليث : إذا قال لدلال: إعرض ضیعتي وبعها على أنك إذا بعتها فلك من الأجر كذا، فلم يقدر الدلال على إتمام الأمر فباعها دلال آخر.قال الفقيه أبو القاسم رحمه الله: إن كان الأول قد عرضها وذهب له في ذلك روزگار يعتد به فأجر المثل له واجب بقدر عنائه وعمله.قال الفقيه أبو الليث رحمه الله: هذا هو القياس أما في الاستحسان لا يجب له الأجر؛ لأن العرف والعادة جرت أنهم لا يأخذون الأجر إلا بالبيع ، وعليه الفتوى ملخصا‘‘فتاوی ابواللیث میں ہے:کسی نےبروکر سے کہا:میری یہ زمین بیع پر پیش کرو اور اس کو بیچو اس شرط پرکہ تمہیں اس میں سے اتنی اجرت ملے گی،بروکر معاملہ مکمل کرنے پر قادر نہ ہوا،تو کسی اوربروکر نےاس زمین کو بیچ دیا۔فقیہ ابوالقاسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اگر پہلے نے زمین کوبیع پر پیش کیا اور روزگارکے سلسلے میں اس میں اچھی طرح بھاگ دوڑ کی،تو اس کے عمل اور محنت کے بدلے اس کے لئے اجرت مثل واجب ہو گی۔فقیہ ابواللیث رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ قیاس ہے جبکہ بطوراستحسان اس کے لئے اجرت واجب نہیں ہوگی۔کیونکہ عرف وعادت جاری ہے کہ تجار بیع کے بغیر اجرت نہیں لیتے۔اسی پر فتویٰ ہے۔(محیط برھانی،ج11،ص351،مطبوعہ ادارۃ التراث الاسلامی، لبنان)

   اشکال: بروکر جس صورت میں وکیل بن کر کام کرے اور کام مکمل نہ کر سکے تو مستحق اجرت نہیں ہوگا ،اس کا تو صریح جزئیہ اوپرمذکور ہوا لیکن بروکر جس صورت میں وکیل نہ ہو بلکہ فریقین کے درمیان سودا کروا رہا ہو، اس صورت کے بارے میں کوئی جزئیہ ذکر نہیں کیا گیا ،اس صورت کا حکم بھی پہلی صورت جیسا ہے ، اس پر کیا دلیل ہے؟

   جواب:اس صورت کا حکم بھی وکیل بن کر بروکری کرنے والی صورت کی طرح ہے۔

   اولاً: اس لئے کہ  یہ درزی وغیرہ کی طرح اجیر مشترک ہے اور اجیر مشترک کے بارے میں جزئیات موجود ہیں کہ وہ کام مکمل کرنے پر اجرت کا مستحق ہوگا، بلکہ درمختار میں اجیر مشترک کی مثالوں میں "دلال"کی مثال مطلق بیان کی ہے اور اسے وکیل والی صورت کے ساتھ مقید نہیں کیا ،جس سے اس حکم کابروکری کی دونوں صورتوں کوشامل ہونا ظاہر ہوتا ہے۔

   فتاوی عالمگیری میں ہے:’’الدلال اجیر مشترک‘‘بروکر اجیر مشترک ہوتا ہے۔(فتاوی عالمگیری،ج04،ص512،مطبوعہ کوئٹہ)

   تنویر الابصار ودرمختار میں ہے :’’(ولا یستحق المشترک الاجر حتی یعمل کالقصار ونحوہ) کحمال ودلال و ملاح‘‘ اجیر مشترک اجرت کااس وقت تک مستحق نہیں ہو تا جب تک کام مکمل نہ کر لے جیسےدھوبی اور اس کی مثل دوسرے لوگ جیسے سامان اٹھانے والا اور بروکر اور کشتی چلانے والا۔ (تنویر الابصار ودر مختار مع رد المحتار، ج 9،ص  109،مطبوعہ کوئٹہ)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فر ماتے ہیں:’’اجیر مشترک اُجرت کا اُس وقت مستحق ہے جب کام کرچکے مثلاًدرزی نے کپڑےکے سینے میں سارا وقت صرف کردیا مگر کپڑا سی کر تیار نہیں کیا یا اپنے مکان پر سینے کے لئے تم نے اُسے مقرر کیا تھا دن بھر تمھارے یہاں رہامگر کپڑانہیں سیا،  اُجرت کا مستحق نہیں ہے۔‘‘(بھارِ شریعت،ج3،ص155،مکتبہ المدینہ ،کراچی)

   ثانیاً: اس لیے کہ جو جزئیہ بروکر کی وکیل والی صورت کے لیے دلیل ہے، وہی جزئیہ بروکر کے فریقین کے درمیان سودا کرانے والی صورت کے لئے بھی دلیل ہوگا۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ بروکر جس صور ت میں وکیل بن کر کام کرے اور کوشش کے باوجود چیز فروخت نہ کر سکے ،تو اس صورت میں قیاس یہ تھا کہ چونکہ یہ اجارہ فاسد ہے اور اجارہ فاسد میں اجیر اپنے کام کی مقدار کے مطابق اجرت کا مستحق ہوتا ہے، لہٰذا یہ بھی اگرچہ چیز فروخت نہ کرسکا لیکن چونکہ محنت و کوشش کی ہے، لہذا اپنی کوشش و محنت کے مطابق اجرت پائے گا ،اسی قیاس کو لیتے ہوئے یہ حکم امام ابو قاسم علیہ الرحمۃ نے بیان فرمایا لیکن امام فقیہ ابو اللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے برخلاف استحسانا یہ حکم بیان فرمایا کہ چونکہ تاجروں کے عرف میں بیع مکمل کئے بغیر اجرت کا استحقاق نہیں ہوتا ،لہذا اس صورت میں کچھ بھی اجرت کا مستحق نہیں ہوگا،یہی قول ماخوذ و مفتیٰ بہٖ ہے۔

   بروکری کی وکیل والی صورت میں بیع نہ کرنے پرقیاس کو  چھوڑ کر عرف کے مطابق اجرت کے عدم استحقاق کا حکم بیان ہوا اور آج کل تمام چھوٹے بڑے شہروں میں جائیداد مکان،دکان،پلاٹ یونہی گاڑیوں کی فریقین کے درمیان کی جانے والی بروکری میں یہی رائج ہے کہ سودا مکمل کروا دینے پر اجرت کا لین دین ہوتا ہے،بروکر فریقین کے درمیان سودا مکمل نہ کرا سکے توکوئی اجرت نہیں دی جاتی، تو جس طرح بروکری کی وکیل والی صورت میں قیاس کے تقاضے کے باوجود اجرت نہ دینے کے عرف کی وجہ سے اجرت نہیں دی جاتی ،عرف کی بناء پر اس صورت میں بھی یہی حکم دیا جائے گا ۔

   ثالثاً:اس لیے کہ  عالمگیری وغیرہ بعض کتب میں یہ مسئلہ بیان ہوا کہ ایک آدمی جو "بیع من یزید"کا ارادہ رکھتا ہو اس نے کسی شخص کو چیز بیچنے کے لئے آواز لگانے کا کہا کہ تم آواز لگاؤ  پھر چیز میں خود بیچوں گا،اس شخص نے آواز لگائی مگر چیز والے نے چیز نہ بیچی تو اگروقت مقرر کرنے کے بجائے کتنی بار آواز لگانی ہے، یہ مقرر ہوا تو بعض فقہاء نے فرمایا کہ یہ جائز ہے یعنی اپنے کام کے مطابق اجرت کا مستحق ہوگا مگر امام فقیہ ابو اللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ اسے کچھ نہیں ملے گا کیونکہ تاجروں کی عادت یہی ہے کہ وہ بیع کی تکمیل کے بغیر کچھ نہیں  دیتے،اسی کو مختار کہا گیا۔

   اس صورت میں بروکر وکیل نہیں  ہے، بلکہ چیز والے نے خود بیع کرنی تھی ،یہی صورت فریقین کے درمیان کی جانے والی بروکری میں ہوتا ہے کہ بروکر صرف کوشش کرتا ہے،خریدو فروخت فریقین خود کرتے ہیں ،لہٰذا جس طرح آواز لگانے والا کوشش کے باوجود بیع کی عدم تکمیل کی وجہ سے اجرت کا مستحق نہ ہوا،اسی طرح فریقین کے درمیان کوشش کے باوجود سودا مکمل نہ کروانے پر بروکر اجرت کا مستحق نہیں ہوگا۔  

   عالمگیری میں ہے:’’رجل أراد أن يبيع بالمزايدة فأمر رجلا لينادي ثم يبيع صاحبه فنادى ولم يبع قالوا إن بين ذلك وقتا جازت الإجارة وله الأجر المسمى وكذا إن لم يذكر الوقت ولكن أمره أن ينادي كذا صوتا جاز أيضا قال الفقيه أبو الليث رحمه الله تعالى  لا شيء له لأن العادة فيما بين الناس أنهم لا يعطون الأجر إذا لم يتفق البيع وهو المختار. كذا في الظهيرية.وهكذا في فتاوى قاضي خان‘‘ایک آدمی جوزیادہ قیمت پر بیچنے کا ارادہ رکھتا ہو،پس اس نے کسی شخص کو حکم دیا کہ وہ آواز لگائے،پھر چیز والا اپنی چیز بیچے گا ،پس اس نے آواز لگائی اور چیز والے نے چیز نہ بیچی، تو فقہاء نے فرمایا اگر آوا ز لگانے کا وقت مقرر کر دیا تھا، تو اجارہ جائز ہے اور اس کے لیے مقرر کردہ اجرت ہوگی اور اسی طرح اگر وقت مقرر نہیں کیا تھا، لیکن اسے یہ حکم دیا تھا کہ اتنی بار آواز لگاؤ، تو بھی اجارہ جائز ہے ،فقیہ ابواللیث رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ اس کے لئے کچھ نہیں ہوگا، کیونکہ لوگوں کے درمیان عادت یہی ہے کہ وہ بیع نہ ہونے کی صورت میں اجرت نہیں دیتے اور یہی مختار ہے ،اسی طرح ظہیریہ میں ہے اور اسی طرح فتاوی قاضی خان میں ہے۔ (عالمگیری،ج4،ص451،مطبوعہ کوئٹہ)

   تنبیہ:بروکر کی وکیل والی صورت یونہی فریقین کے درمیان بروکری والی صورت میں کام مکمل نہ کرنے کے باوجود قیاس یہ تھا کہ اجارہ فاسدہ کے حکم کے مطابق جتنا کام کیا اس کے مطابق اجرت ملنی چاہیے،مگرعرف نہ ہونے کی وجہ سے استحسانا ًیہ حکم بیان ہوا کہ اس صورت میں بالکل اجرت کا استحقاق نہیں ہوگا یعنی قیاس چھوڑنے کی وجہ عرف نہ ہونا بنا۔آجکل رشتہ کرانے والے،رشتہ کے لئے کوشش و محنت کرتے ہیں فریقین کو ملواتے ہیں اور رشتہ چاہے نہ بھی ہو ،کچھ نہ کچھ اجرت ضرور لیتے ہیں ،یہی معروف و رائج ہے،لہذابروکری کی  اس صورت کا حکم پہلی دو صورتوں سے مختلف ہوگا اور رشتہ نہ ہونے کے باوجود بروکر اپنے علاقہ کے اعتبارسے اپنی کوشش و محنت کے مطابق اجرت کا مستحق ہوگا،کیونکہ پہلی دو صورتوں میں  قیاس چھوڑنے کی وجہ اجرت کے لین دین کا عرف نہ ہونا تھا ،یہاں جب قیاس کے ساتھ ساتھ عرف بھی اسی پر جاری ہے توضروراجرت کے استحقاق کا حکم دیا جائے گا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم