Gunah Wali Website Banane Aur Iski Ujrat Ka Hukum

گناہ والی ویب سائٹ بنانے اور اس کی اجرت کاحکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Hab-0289

تاریخ اجراء:28رجب المرجب1445ھ/09 فروری 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میرا کام سافٹ ویئر انجینئرنگ کا ہے ،جس میں ہم مختلف ویب سائٹس بناتے ہیں،ابھی  دفتر  نے مجھ سے جُوئے والی ویب سائٹ بنانے کوکہا  ہے۔ یہ ویب سائٹ ایسی ہوگی، جہاں ایک سے زیادہ لوگ ادائیگی کریں گےاور پیسے لگانے کے بعد سب  گیم کھیلیں گے اور صرف ایک ہی فرد  جیتنے والا ہوگا، باقی دوسرے لوگ وہاں پیسے کھو بیٹھیں گے یعنی وہ ویب سائٹ جُوا کھیلنے کے لیےہوگی،اس کے علاوہ اس کا کوئی اور مقصد و استعمال نہیں ہے،اس میں ویب سائٹ بنانے والی ہماری ٹیم کو بھی فائدہ ہوگا کہ وہ بھی لوگوں کی ادائیگی والی رقم میں سے کچھ فیصد اپنے لیے رکھیں گے۔ رہنمائی فرمائیں کیا ایسی ویب سائٹ بنانا  اور اس پر اجرت لینا جائز ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جبکہ وہ ویب سائٹ گناہ کے لیے متعین ہے یعنی اس پر جُوا ہی کھیلا جائے گا ،تو ایسی ویب سائٹ بنانا ، بنوانا شرعاً ناجائز و گناہ ہےاور ناجائز کام پر اجارہ بھی ناجائز ہے،کیونکہ اس میں گناہ پر مدد کرنا ہے اور گناہ پر مدد کرنا گناہ کبیرہ ہے،جس سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں منع فرمایا ہے، لہٰذا اس طرح کی ویب سائٹ بنانے کی اجرت لینا بھی جائز نہیں ۔

   گناہ  کے کام پر مدد کرنا گناہ کبیرہ ہے ،جس سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں منع فرمایا ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :﴿ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِترجمہ: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔(القرآن الکریم،پارہ 06،سورۃ المائدہ،آیت 02)

   اس آیت مبارکہ کے تحت احکام القرآن للجصاص میں ہے:”نھی عن معاونۃ غیرنا علیٰ معاصی  اللہ تعالیٰ “ترجمہ: اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں پر  کسی  کی  مدد کرنے سے منع  کیا گیا ہے ۔(احکام القرآن للجصاص ،جلد 03،صفحہ 296،دار احياء التراث العربی،بیروت)

   محیط برہانی میں ہے:”الاعانۃ علی المعاصی و الفجور و الحث علیھا من جملۃ الکبائر ترجمہ:گناہوں  اور فسق و فجور کےکاموں پر مدد کرنا اور اس پر ابھارنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔(المحیط البرھانی ،جلد 08،صفحہ 312،دار الكتب العلميہ،بيروت)

   ناجائز کام پر اجارہ بھی ناجائز ہے،چنانچہ  مبسوط میں ہے:”و لا تجوز الاجارۃ علیٰ شیئ من الغناء و النوح و المزامیر و الطبل و شیئ من اللھو لأنہ معصیۃ و الاستئجار علی المعاصی باطل ،فان بعقد الاجارۃ یستحق تسلیم المعقود علیہ شرعاً و لا یجوز أن یستحق علی المرأ فعل بہ یکون عاصیاً شرعاً ترجمہ:اور گانے باجے،نوحہ ،مزامیر،طبل بجانے اور کسی بھی قسم کے لہو ولعب کے کام پر اجارہ جائز نہیں، کیونکہ یہ گناہ ہے اور گناہوں پر اجارہ کرنا باطل ہے ،کیونکہ عقد اجارہ کے سبب معقود علیہ (جس چیز پر اجارہ کیاگیا ہے )کو سپرد کرنے کا شرعاً استحقاق ثابت ہوجاتا ہے اور یہ جائز نہیں کہ کسی شخص پر ایسے فعل کا استحقاق ثابت ہو جس سے وہ شرعاً گنہگار ہوجائے۔(المبسوط للسرخسی، ج 16،ص 38،دار المعرفہ،بیروت)

   اسی طرح مجمع الانہر میں ہے:”لا یجوز أخذ الأجرۃ علی المعاصی کالغناء و النوح و الملاھی ۔۔ و ان اعطاہ الأجر و قبضہ لا یحل لہ و یجب علیہ ردہ علی صاحبہ“ترجمہ:گناہ کے کاموں پر اجرت لینا جائز نہیں جیسے گانے باجے،نوحہ اور تمام لہو و لعب کے کام   اور اگر اس نے اجرت دی  اور اس نے قبضہ کرلیا تو وہ اجرت اس کے لیے حلال نہیں اور اس پر واجب ہے کہ وہ مالک کو واپس کردے۔(مجمع الانھر ،جلد 03،صفحہ 533،مطبوعہ کوئٹہ)

   جب کوئی چیز معصیت کے لیے متعین ہو یا اس کا بڑا مقصود معصیت ہو ، تو اس پر معصیت والے احکام جاری ہوتے ہیں ،چنانچہ سیّدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ جد الممتار“ میں فرماتے ہیں:”أن معنی ما تقوم المعصیۃ بعینہ أن یکون فی أصل وضعہ موضوعاً للمعصیۃ أو تکون ھی المقصودۃ العظمیٰ منہ فانہ اذا کان کک یغلب  علی الظن أن المشتری انما یشتریہ لاتیان المعصیۃ لأن  الأشیاء انما تقصد للاستمتاع بھا فما کان مقصودہ الأعظم تحصیل معصیۃ معاذ اللہ تعالیٰ کان شراؤہ دليلاواضحاً علیٰ ذالک القصد فیکون بیعہ اعانۃ علی المعصیۃ ۔۔و کذالک ما لم یکن موضوعاً لذالک بعینہ و لا ما ھو المقصود  الأعظم منہ لکن قامت قرینۃ ناصۃ علیٰ أن  مقصود ھذا المشتری انما یستعملہ معصیۃ ترجمہ:وہ معنی جس کے عین کے ساتھ معصیت قائم ہوتی ہے وہ  یہ ہے کہ وہ شے اپنی اصل وضع میں معصیت کے لیےوضع کی گئی ہو یا اس کا بڑا مقصود معصیت ہو، تو جب اس طرح ہوگا تو اس بات کا ظن غالب ہوجائے گا کہ مشتری اس شے کو معصیت کا ارتکاب کرنے کے لیے ہی خرید رہا ہے  ،کیونکہ چیزوں کی خرید و فروخت کا قصد ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے  ہی کیاجاتا ہے ،تو جس کا بڑا مقصود معاذ اللہ معصیت کو حاصل کرنا ہو تو اس کا خریدنا اس قصد پر واضح دلیل ہے تو ایسے شخص کے ہاتھ اس شے کو بیچنا معصیت پر مدد کرنا ہوگا  اور یہی حکم اس صورت میں ہے کہ کوئی شے بعینہٖ معصیت کے لیےتو وضع نہ کی گئی ہو اور نہ ہی اس کا مقصود اعظم معصیت ہو لیکن کوئی ایسا قرینہ قائم ہو جو اس بات پر نص کرنے والا ہو کہ  اس مشتری کا اصل مقصود یہ ہے کہ اسے معصیت  کے طور پر استعمال کرے۔ (جد الممتار علیٰ رد المحتار، ملتقطا ،جلد 07،صفحہ 76 ، مکتبۃ المدینہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم