Handwriting Wali Company Ke Zariye Earning Karne Ka Hukum?

ہینڈ رائٹنگ(Hand writing)والی کمپنی(Company)کے ذریعے ارننگ کرنے کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-7193

تاریخ اجراء:20رمضان المبارک1444ھ11اپریل2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتےہیں علمائےدین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آج کل ورک فرام ہوم(Work from home) کی مختلف صورتیں رائج ہیں،جن میں انسان گھر بیٹھے ارننگ (Earning)یعنی کمائی کر سکتا ہے۔اس کی ایک صورت(Hand writing)یعنی ہاتھ سے مختلف تحریریں لکھنے کی بھی ہے،جس کا مکمل طریقہ کار درج ذیل ہے:

   کمپنی(Company)نےمختلف(Packages)متعارف کروا رکھے ہیں،کمپنی کا ممبر (Member) بننے کے لیے ان میں سےایک پیکج (Package)لازمی طور پر (buy)یعنی خریدنا پڑتا ہے،اگرپانچ سو500والا پیکج خریدیں گے،تو اس کی بنیاد پہ روزانہ پچاس 50روپے اور اگر ہزار 1000والا خریدیں گے،تو روزانہ سو100روپے کما سکیں گے ۔یونہی پیکج جتنا مہنگا ہوگا ،اس حساب سے آمدن بھی بڑھتی چلی جائے گی اور ایک پیکج کی مدت تیس30 دن ہوتی ہے،یعنی ایک پیکج خریدنے کے بعد اس کی بنیاد پہ تیس30دن تک ارننگ کرسکتے ہیں، اس کے بعد دوبارہ کوئی پیکج خریدنا ہوگا۔بعض کمپنیاں اسے پیکج کی خریداری کا نام دیتی ہیں اور بعض رجسٹریشن فیس کا،لیکن یاد رہے کہ اس طرح پیکج کی خریداری یا رجسٹریشن فیس کے بدلے میں کسٹمر(Customer)کو کمپنی کی جانب سے کچھ بھی نہیں ملتا،بس اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ وہ کمپنی کا(Member)بن جاتا ہےاور کمپنی سے کام لے کر اسے کرنے کا اہل ہو جاتا ہے۔

   اور کام یہ ہوتا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پہ بذریعہ واٹس ایپ (WhatsApp) کچھ کمپیوٹرائز (Computerize) نوٹس(Notes)سینڈ (Send)کیے جاتے ہیں،جنہیں ایک رجسٹر (Register)پر ہاتھ سے لکھنا ہوتا ہے اور ان کی تصاویر بذریعہ واٹس ایپ ہی واپس بھیجنی ہوتی ہیں،جس کی بنیاد پہ   اجرت اکاؤنٹ(Account)میں آجاتی ہے ۔

   پھر ارننگ کے لیے کام اور اس کی اجرت دینے کے حوالےسے مختلف کمپنیوں  کا اپنا اپنا طریقہ اور اصول ہیں،مثلاً: بعض کی طرف سے یہ شرط ہوتی ہے کہ پیکج کی خریداری/رجسٹریشن کے باوجودمخصوص تعداد میں لوگوں  کو کمپنی جوائن (Join)کروانے کے بعد کام ملے گا،اس سے پہلے ارننگ کی کوئی صورت نہیں،بعض کی طرف سے کام تو مل جاتا،لیکن کام کمپلیٹ(Complete) کر لینے کے باجود اجرت تب ملے گی،جب مختلف افراد کو جوائن کروالیں گے ،البتہ بعض کمپنیز کی جانب سے نئے ممبر(Members) بنانے کی شرط نہیں ہوتی،بس  کام پورا کر کے اس کی اجرت لے سکتے ہیں۔اب پوچھنا یہ ہے کہ  اس طرح کی کمپنیز (Companies)جوائن کر کے ارننگ کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال میں ذکر کردہ طریقہ کار کے مطابق ایسی کمپنیز(Companies)جوائن (Join)کر کے ارننگ(Earning)یعنی کمائی کرنا،ناجائز و حرام اور گناہ ہے ،جس کی مکمل تفصیل اور وجوہات درج ذیل ہیں:

    (1)رشوت:

   کمپنی جوائن کرنے کے لیے سب سے پہلے پیکج(Package)کی خریداری/رجسٹریشن فیس کے نام پر کچھ رقم دینی پڑتی ہے اور اس رقم کے مقابلے میں قابلِ معاوضہ کوئی چیز بھی  نہیں ہوتی،بلکہ دینے والے کا مقصد اپنا کام نکالنا ہوتا ہے،کہ وہ اس کے بدلے میں اپنے آپ کو کمپنی کا ممبر(Member)  بنانا چاہتا ہے اور شرعی طور پر اپنا کام بنانے کے لیے صاحبِ امر کو کچھ دینا  رشوت کہلاتا ہے اور رشوت کالین دین ناجائز و حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔

   دلائل:

   رشوت کی حرمت کے بارے میں حدیثِ پاک میں ہے:’’لعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الراشی والمرتشی والرائش، یعنی الذی یمشی بینھماترجمہ:حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم نے رشوت دینے والے ،رشوت لینے والے اوران دونوں کے درمیان چل کر معاملہ کروانے والے پرلعنت فرمائی ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، ج4،ص444،مطبوعہ الریاض)

   اسی بارے میں مزید ارشاد فرمایا:’’الراشی والمرتشی فی النار‘‘ترجمہ: رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔(المعجم الاوسط،ج2،ص295،مطبوعہ دار الحرمین، قاھرہ)

   سوال میں بیان کردہ صورت رشوت کیسے ہے؟ اس کے لیے رشوت کی تعریف اور اس کا انطباق ملاحظہ فرمائیں۔ رشوت کی تعریف کے بارے میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:” جو پرایا حق دبانے کے لیے دیا جائے، رشوت ہے،یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لیے حاکم (کسی صاحبِ اختیار)کو دیا جائے،رشوت ہے۔“  (فتاوٰی رضویہ،ج23،ص597،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   اورمفتی نظام الدین رضوی دامت برکاتہم العالیہ اسی طرح کی کمپنیوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اس کے ناجائز ہونے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ فیس کی شرعی حیثیت رشوت کی ہے، جو یقینا حرام ہے ، وجہ یہ ہے کہ اپنا یا کسی کا بھی کام بنانے کے لیے ابتداء ً صاحبِ امر کو کچھ روپے وغیرہ دینا  رشوت ہے اور یہاں کمپنی کو فیس اس لیے دی جاتی ہے کہ اسے اجرت پر ممبر سازی کا حق دے دیا جائے اورفیس کے مقابل کوئی چیز نہیں ہوتی ۔‘‘ (ماھنامہ اشرفیہ،شمارہ مئی2008ء،ص38)

   جن کمپنیز میں مزید  ممبر بنانے کی شرط ہوتی ہے،ان میں مزید کئی  خرابیاں پائی جاتی ہیں،مثلاً:

    (2)جُوا:

   کمپنی جوائن کرنے والا شخص پیکج کی خریداری/رجسٹریشن کے نام پر اپنا سرمایہ داؤ پہ لگا دیتا ہے،جبکہ آئندہ مطلوبہ شرائط کے مطابق ممبر بنا لینا یقینی نہیں،بلکہ  ایک موہوم امید کی حدتک ہوتا ہے ، تو یوں لالچ میں اپنی رقم داؤ پر لگانا قمار (جُوئے بازی) کے معنی میں ہے کہ امید موہوم پر پانسا ڈال دیا، اب فائدہ بھی ہو سکتا ہے اور نقصان بھی اور قمار بھی اسی چیز کا نام ہے، جو حرام ہے ۔مزید ایسی کمپنیز سے وابستہ رہنے والے کئی افراد سے یہ معلومات بھی ملیں کہ اس طرح کی کئی کمپنیاں ممبرز  والی شرط پوری کر لینے کے باوجود بھی مزید کام دینا بند کر دیتی ہیں ،بلکہ جو کام کیا ہوتا  ہے،اس کی اجرت بھی نہیں دیتیں۔ یہ جداگانہ فراڈہے جو ایسی کمپنیوں میں بہت رائج ہے۔

   دلائل:

   جوئے کی حرمت کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿یَسْـئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا﴾ترجمہ:تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں،تم فرمادو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ دنیوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے۔(پارہ2،سورۃ البقرہ،آیت219)

   ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَترجمہ:اے ایمان والو! شراب اور جوااور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام،تو ان سے بچتے رہنا، کہ تم فلاح پاؤ ۔(پارہ7،سورۃ المائدہ،آیت 90)

   جوئے کی تعریف کے بارے میں تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے:”القمار من القمر الذی  يزاد تارة وينقص اخرى  وسمي القمار قمارا،لان كل واحد من المقامرين ممن يجوز ان يذهب ماله الى صاحبه ويجوز ان يستفيد مال صاحبه۔۔وهو حرام بالنص“ترجمہ:قمار ،قمر سے مشتق ہے، جو کبھی بڑھتا ہے اور کبھی کم ہو جاتا ہے ، قمار کو قمار اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں یہ امکان ہوتاہے کہ جوئےبازوں میں سے ایک کامال دوسرے کے پاس چلاجائے اوریہ بھی امکان ہوتاہے کہ وہ اپنے ساتھی کامال حاصل کرلے اور یہ نص سے حرام ہے ۔(تبیین الحقائق ، مسائل شتی ، ج6، ص 227، مطبوعہ ملتان)

   اسی بارے میں مبسوطِ سرخسی میں ہے:’’ثم ھذا تعلیق استحقاق المال بالخطر وھو قمار والقمار حرام فی شریعتنا‘‘ترجمہ: پھر یہ  مال کے مستحق ہونے کوخطرپرمعلق کرناہے اوریہ قمارہے اورقمارہماری شریعت میں حرام ہے ۔(مبسوطِ سرخسی ،ج7،ص76،مطبوعہ دارالمعرفہ،بیروت )

   اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اس سے ملتی جلتی ایک صورت کہ جس میں ایک (بے قیمت) ٹکٹ خریدنا پڑتا تھا ، کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:”حقیقت دیکھئے تو معاملہ مذکورہ بنظر مقاصد ٹکٹ فروش و ٹکٹ خراں ہرگز بیع و شراوغیرہ کوئی عقد شرعی نہیں،بلکہ صرف طمع کے جال میں لوگوں کو پھانسنا اور ایک امید موہوم پر پانسا ڈالنا ہے اور یہی قمار ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج17، ص330، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اور اسی طرح کی صورت کے بارے میں صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’یہ جوا اور حرام ہے، کہ ایک روپیہ دےکر اس رقم کثیر کے ملنے کی خواہش ہوتی ہے اور اس کے ملنے نہ ملنے دونوں کا احتمال ہوتاہے ، اگر فارم فروخت ہو گئے ،تو رقم ملے گی ورنہ روپیہ گیا ، اس میں شرکت حرام ہے ۔“(فتاوی امجدیہ، ج4، ص234،مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)

    (3)اپنے آپ کواوردوسروں کوضررمیں ڈالنا:

   اس طریقہ کارمیں اپنے آپ اور دوسروں کو بھی ضرر میں ڈالنا ہے،کہ جس طرح بندہ پیسے کمانے کے لالچ میں اپنا سرمایہ داؤ پہ لگا کر اپنے آپ کو ضرر میں ڈالتا ہے،یونہی دوسروں کو ممبر بنوا  کرانہیں بھی  ضرر میں ڈالتا ہے اور خود یا کسی دوسرے کو ضرر میں ڈالنا ممنوع اور اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔

   دلائل:

   حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’لاضرر ولاضرار فی الاسلام ‘‘ترجمہ: اسلام میں نہ اپنے آپ کو ضررمیں ڈالناہے، نہ دوسرے کو ضرر دینا۔(المعجم الاوسط ، ج5، ص238، دار الحرمین، قاھرہ)

    (4)شرط فاسد:

   اجرت کے بدلے میں کوئی چیز لکھنا اجارہ کہلاتا ہے اور اجارے میں ایسی شرط لگانا ،جس کاعقدتقاضانہ کرے اوراس میں ایگریمنٹ کرنے والوں میں سے کسی ایک کانفع ہو،تو وہ ناجائز اور اجارے کو فاسد کرنے والی ہوتی ہے ۔اب سوال میں ذکرکردہ تفصیل کے مطابق کام کے ساتھ مزید ممبرز کو ایڈ کروانے کی شرط بھی لگائی جاتی ہے اور اس میں کمپنی کا نفع ہے اورعقداس کاتقاضابھی نہیں کرتا  ۔لہذایہ شرط فاسدہے ،جس سے عقدفاسدہوجاتاہے اورایگریمنٹ کرنے والے دونوں افرادگنہگارہوتے ہیں ۔

   دلائل:

   حدیثِ پاک میں ہے:”ان  النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن بیع و شرط“ترجمہ:حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خریداری اور شرط سے منع فرمایا ہے۔(المعجم الاوسط للطبرانی، ج4،ص335،مطبوعہ دار الحرمین، قاھرہ)

   اورعقداجارہ بھی عقدبیع کی قسم سے ہے ۔چنانچہ العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:’’ والبيع والاجارة اخوان،لان الاجارة بيع المنافع‘‘ترجمہ:اوربیع اوراجارہ دونوں ایک ہی قسم سے ہیں،کیونکہ اجارہ،منافع کی بیع ہے ۔(العقود الد ریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ، ج 2،ص 140،مطبوعہ دار المعرفہ،بیروت)

   اورتبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے:’’(يفسد الاجارة الشروط)لانها بمنزلة البيع،الا ترى انها تقال وتفسخ، فتفسدها الشروط التي لا يقتضيها العقد كالبيع“ترجمہ:شرطیں ،اجارے کو فاسد کر دیتی ہیں ،کیونکہ وہ بیع کےحکم میں ہے ،کیا تو دیکھتا نہیں کہ اس کااقالہ ہوتاہے اوراسےفسخ  کیاجاتاہے ،پس ایسی شرائط جن کا عقد تقاضا نہیں کرتا وہ اجارے کو فاسد کردیتی ہیں ، جیسا کہ بیع کو فاسد کر دیتی ہیں۔(تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ج5،ص121،مطبوعہ ملتان)

   مزید اسی میں ہے:”ان كل شرط لا يقتضيه العقد وهو غير ملائم له ولم يرد الشرع بجوازه ولم يجز التعامل فيه وفيه منفعة لاهل الاستحقاق مفسد“ترجمہ:ہر وہ شرط جس کا نہ تو عقد تقاضا کر رہا ہو اور وہ عقد کے مناسب بھی نہ ہو ،شرع سے اس کا جواز بھی ثابت نہ ہو اور اس پر تعامل بھی نہ ہو اور اس میں اہل استحقاق کی منفعت ہو، تو ایسی شرط بیع کو فاسد کر دیتی ہے۔(تبیین الحقائق،کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،ج 4،ص 57، مطبوعہ  ملتان)

   عقدِ فاسد کرنے کی وجہ سے عاقدین گنہگار ہوتے ہیں،لہذا اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔العقود الدریہ فی  تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:’’ويجب على كل واحد منهماای من البائع والمشتري فسخه قبل القبض او بعده ما دام فی يد المشتری اعداما للفساد،لانه معصية،فيجب رفعها‘‘ترجمہ:بائع اور مشتری دونوں میں سے ہر ایک کےلیے(مبیع پر)قبضہ کرنے سے پہلے اور قبضہ کے بعد بھی جب تک مبیع باقی ہو ،بیع فاسدکوختم کرنا ضروری ہے،تاکہ فساد ختم ہو جائے،کیونکہ عقد ِ فاسد کرنا  گناہ ہے،لہذا اس  کو ختم کرنا واجب ہے ۔(العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ،ج2،ص120،مطبوعہ دار المعرفہ ،بیروت)

    (5)باطل طریقے سے دوسروں کا مال کھانا:

   کام پورا کر لینے کے باوجود کمپنی کا ممبر ایڈ نہ کرنے کی وجہ سے ممبر کی اجرت روک لیناصریح  ظلم اور باطل اور حرام طریقہ سے مسلمانوں کا مال کھانا ہےجس کی حرمت واضح طور پر قرآن و حدیث میں موجود ہے۔

   دلائل

   اللہ پاک ارشادفرماتا ہے:﴿ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ترجمہ  :اور آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاؤ ۔(پارہ2،سورۃ البقرہ،آیت188)

   اس آیت کے تحت تفسیر قرطبی میں ہے :’’الخطاب بھذہ الایۃ یتضمن جمیع امۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم والمعنی:لا یاکل بعضکم مال اخیہ  بغیر حق ،فیدخل فی ھذا :القمار والخداع والغصوب وجحد الحقوق ومالا تطیب بہ نفس مالکہ‘‘ترجمہ:اس آیت میں خطاب حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام امت کو شامل ہے اور معنی یہ ہے کہ تم میں سے کوئی بھی دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھائے،اس عموم میں جوا ،غصب، حق دینے سے انکار کر کے حق کھا جانا ،جس چیز کے دینے پر مالک راضی نہ ہو ،وہ لینا(وغیرہ سب شامل ہے۔)(تفسیر قرطبی،ج2،ص338، دار الکتب ،القاھرہ)

   اسی بارے میں مسند امام احمد بن حنبل میں ہے:’’لا یحل لامرء ان یاخذ مال اخیہ بغیر حقہ وذلک لما حرم اللہ مال المسلم علی المسلم ‘‘ترجمہ:کسی شخص  کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کا ناحق مال کھائے، اس لیے کہ اللہ تعالی نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا(بلا وجہ شرعی ) مال لیناحرام فرمایا ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل، ج39،ص19، مؤسسۃ الرسالہ ،بیروت)

    (6)گناہ پر تعاون:

   اوپر معلوم ہو چکا ہے کہ ایسی کمپنیز کے ذریعے ارننگ کرنا کئی محرمات کا مجموعہ ہے ،لہٰذا اس  میں دوسرے افراد کو شامل ہونے کی دعوت و ترغیب دینا گناہ پر تعاون ہے،جو ناجائز و ممنوع ہے۔

   دلائل:

   اللہ پاک  ارشاد فرماتا ہے:﴿وَتَعَاوَنُوۡا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی  وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوٰنِ ترجمہ:اور نیکی اور پرہیز گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔(پارہ6،سورۃ المائدہ،آیت2)

   اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من دعا الی ھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لا ینقص ذلک من اجورھم شیئا ومن دعاالی ضلالۃ کان علیہ من الاثم مثل اثام من تبعہ لا ینقص ذلک من اثامھم شیئا‘‘ترجمہ:جو کسی کو سیدھے راستے کی طرف بلائے، تو جتنے بھی لوگ اس کی پیروی کریں گے،اُن سب کے برابر اس (بلانے والے )کو بھی ثواب ملے گا اور پیروی کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی اور جو برائی کی طرف بلائے، تو جتنے بھی لوگ اس کی پیروی کریں گے ،ان سب کے برابر اس کو بھی گناہ ملے گا ،اور پیروی کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی ۔(الصحیح لمسلم ،کتاب العلم ، ج2،ص341،مطبوعہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم