Ghair Muslim Ke Hotel Mein Haram Cheezain Khilane Ki Naukri Karna Kaisa?

غیر مسلم کے ہوٹل میں حرام چیزیں کِھلانے کی نوکری کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Pin-6233

تاریخ اجراء:19ذوالقعدۃ الحرام1440ھ23جولائی 2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ زید اٹلی میں کفار کے ایک ریسٹورنٹ میں نوکری کرتا ہے، اس کے ذمے فوڈ ڈیلیوری کا کام ہے، اس ریسٹورنٹ میں حلال و حرام ہر طرح کا گوشت پکایا جاتا ہے اور جن کو ڈیلیور کرنا ہوتا ہے ان میں مسلمان بھی ہوتے ہیں اور کفار بھی۔ زید کا کام صرف وہاں سے پیک شدہ ڈبہ اٹھا کر مطلوبہ گھر تک پہنچانا ہوتا ہے ۔ اسے کبھی تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پیک میں شراب یا حرام گوشت پر مشتمل کوئی چیز ہے ، لیکن اکثر یہ بھی معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اس میں کیا ہے،  تو کیا زید کے لیے یہ نوکری کرنا ، جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں زید کا یہ نوکری کرنا شرعاً ناجائز و گناہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جن چیزوں کا کھانا پینا خود مسلمان کے لیے ناجائز ہے، وہ چیزیں مسلمانوں کو تو درکنار، غیر مسلموں کو کھانے پینے کے لیے فراہم کرنا بھی ناجائز ہے،کیونکہ صحیح قول کے مطابق کفار بھی فروعات کے مکلّف ہیں ، انہیں کھانے پینے کے لیے حرام اشیاء فراہم کرنا  ضرور گناہ پر تعاون ہے اور اللہ عزوجل نے گناہ پر تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ نیز جب زید کو اتنا معلوم ہے کہ اس ریسٹورنٹ سے حلال کے ساتھ حرام اشیاء بھی ڈیلیور کرنی پڑتی ہیں، تو اِس کام کے ناجائز ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے، ہر پیک کے متعلق الگ سے معلوم ہونا ضروری نہیں۔

    مسلم و غیر مسلم کو کھانے پینے کے لیے حرام اشیاء فراہم کرنا گناہ پر تعاون ہے ،اور گناہ پر تعاون جائز نہیں ۔اللہ عزوجل قرآن کریم میں  ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللہَ اِنَّ اللہَ شَدِیۡدُ الْعِقَابِ ﴾ ترجمہ کنز العرفان:اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرواور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے‘‘۔

(پارہ 6، سورۃ المائدہ،آیت2)

    حدیث پاک میں شراب سے متعلق دس افراد پر لعنت فرمائی گئی ہے۔ چنانچہ جامع ترمذی میں ہے:’’لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فی الخمر عشرۃ: عاصرھا ومعتصرھا وشاربھا وحاملھا والمحمولۃ الیہ وساقیھا وبائعھا واٰکل ثمنھا والمشتری لھا والمشتراۃ لہ‘‘ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے معاملے میں دس بندوں پر لعنت فرمائی ہے، جو شراب کے لیے شیرہ نکالے،جو شیرہ نکلوائے،جو شراب پیے،جو اٹھا کر لائے،جس کے پاس لائی جائے،جو شراب پلائے،جو بیچے،جو اس کے دام کھائے،جو خریدے اور جس کے لیے خریدی جائے ۔ ‘‘

(جامع ترمذی، ابواب البیوع، جلد 1، صفحہ 242، مطبوعہ کراچی)

    سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’ شراب کابنانا، بنوانا، چھونا، اٹھانا، رکھنا، رکھوانا، بیچنا، بکوانا، مول لینا، دلواناسب حرام حرام حرام ہے اور جس نوکری میں یہ کام یا شراب کی نگہداشت، اس کے داموں کا حساب کتاب کرنا ہو،سب شرعاًناجائز ہیں ۔ قال اللہ تعالیٰ: ﴿ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾‘‘

(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 566،565، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    کفار بھی فروعات کے مکلّف ہیں۔چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:’’حرمۃ الخمر والخنزیر ثابتۃ فی حقھم کما ھی ثابتۃ فی حق المسلمین،لانھم مخاطبون بالحرمات وھو الصحیح عند اھل الاصول‘‘ترجمہ:شراب اور خنزیر کی حرمت غیر مسلموں کے حق میں بھی بالکل اسی طرح ثابت ہے ،جس طرح مسلمانوں کے حق میں ثابت ہے ،کیونکہ وہ بھی محرمات کے مکلف ہیں اور یہی اہلِ اصول کے نزدیک صحیح ہے ۔ ‘‘                                                                                                                    

(بدائع الصنائع، کتاب السیر، جلد 6، صفحہ 83، مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاوی رضویہ میں ہے:’’صحیح یہ ہے کہ کفار بھی مکلّف با لفروع ہیں ۔ ‘‘

(فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 382، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    کفار کو شراب پلانے کے متعلق ہدایہ شریف میں ہے :’’ولا ان یسقی ذمیا ولا ان یسقی صبیا للتداوی والوبال علی من سقاہ‘‘ ترجمہ:ذمی اور بچہ کو دوا کے لیے (بھی )شراب پلانا ، جائز نہیں اور اس کا وبال پلانے والے پر ہو گا ۔ ‘‘

(الھدایہ، کتاب الاشربہ، جلد 4، صفحہ 503، مطبوعہ پشاور)

    صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں :’’کافر یا بچہ کو شراب پلانا بھی حرام ہےاگرچہ بطورِ علاج پلائے اور گناہ اسی پلانے والے کے ذمہ ہے ۔بعض مسلمان انگریزوں کی دعوت کرتے ہیں اور شراب بھی پلاتے ہیں وہ گناہ گار ہیں ،اس شراب نوشی کا وبال انہیں پر ہے ۔ ‘‘

(بہارشریعت، جلد 3، صفحہ 672، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    اورنا جائز کام کی نوکری کے متعلق موسوعہ فقہیہ کوییتہ میں ہے:’’اتفقوا علی انہ لا یجوز للمسلم ان یؤجر نفسہ للکافر لعمل لا یجوز لہ فعلہ کعصر الخمر ورعی الخنازیر وما اشبہ ذلک‘‘ ترجمہ: فقہاء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمان کا کافر کے پاس ایسے کام کے لیے اجیر ہونا ، جائز نہیں جو کام اس کے لیے شرعاً جائز نہ ہو، جیسے شراب (کے لیے انگور) نچوڑنا، خنزیروں کو چرانا اور اسی طرح کے دیگر ناجائز افعال ۔ ‘‘

(موسوعہ فقھیہ کویتیہ، جلد 19، صفحہ 45، مطبوعہ کویت)

    صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ دو مسلمان ایسے ہوٹل میں ملازم ہوئے کہ جس میں خنزیر کا گوشت پکتا تھا اور بھی ہر قسم کا گوشت پکتا تھا۔ ان دونوں میں سے ایک کا کام ڈھکی ہوئی رکابی اٹھا کر دوسرے مسلمان کو دینا اور دوسرے کا کام میز پر رکھنا تھا، لیکن دونوں کو علم نہ تھا کہ اس ڈھکی ہوئی رکابی میں کیا ہے، تو اب ان دونوں کے حق میں کیا حکم ہے؟ تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا : ” جبکہ یہ معلوم تھا کہ اس ہوٹل میں خنزیر کا گوشت پکتا ہے اور ان دونوں کے متعلق یہ کام تھا کہ کھانا میز تک پہنچائیں، تو ایسے ہوٹل میں انہیں ملازمت ہی نہ چاہیے تھی، توبہ کر کے برادری میں شامل ہو جائیں۔ حدیث میں ہے: التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ۔ ‘‘

(فتاوی امجدیہ، جلد 3، صفحہ 270 تا 271، دار العلوم امجدیہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم