Kiraye Ki Cheez Aage Zyada Kiraye Par Dene Ka Hukum

کرائے کی چیز آگے زیادہ کرائے پر دینے کا حکم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0098

تاریخ اجراء:16ربیع الآخر1445ھ/01نومبر 2023ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم شادی بیاہ ،انتقال اورسالگرہ وغیرہ کی تقریبات میں ٹینٹ (Tent) اور ڈیکوریشن کا سامان(Decoration Equipment) کرائے پر دیتے ہیں،ان کاموں کے لیے لیبر سروس(Labour Service)بھی ہماری طرف سے ہوتی ہے ۔ معلوم یہ کرناہے کہ  بعض اوقات ہمارے پاس کرائے پر دینے کے لئے سامان موجود نہیں ہوتا تو ہم کسی قریبی دوکان والے سے اس کا سامان کرائے پر لے کر اپنا نفع شامل کرکے آگے کرائے پر دے دیتے ہیں اور ساتھ اپنی لیبر(Labour) بھیج دیتےہیں۔ لیبر کو اجرت ہم خود دیتے ہیں۔ کیا ہمارا اس طرح نفع حاصل کرنا درست ہے ؟ 

   نوٹ:سائل نے اس بات کی وضاحت کی ہے  کہ ہم کسٹمر(Customer) سے لیبرکے چارجز (Charges)الگ سے مقرر نہیں کرتے،بلکہ لیبر چارجز(Labour Charges)وغیرہ سب ذہن میں رکھ کر ریٹ (Rate) مقررکرتے ہیں۔ کبھی کبھار ایسابھی ہوتاہےکہ پانچ مزدوروں کاکام ہوتوہم تین مزدوروں سے بھی یہ  کام لے لیتے ہیں۔  لیکن چونکہ ٹینٹ لگانے اور ڈیکوریشن کا  طے شدہ کام  مکمل ہوجاتاہے ، اس لیے کسٹمرکی طرف سے کوئی اعتراض(Objection) بھی نہیں ہوتا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ کا دوسری دوکان والے سے  ڈیکوریشن کا سامان (Decoration Equipment) لے کر اپنا نفع شامل کرکے آگے کرائے پر دینا،جائز ہے۔

   مسئلے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ  کسی چیز کو کرائے پر لے کر آگے اتنے ہی کرائے یا کم کرائے پر دینا تو جائز ہے مگر زیادہ کرائے پر  دینے کی جو شرائط  (Conditions)ہیں،  وہ سوال میں بیان کی  گئی صورت میں نہ پائی جاتیں تو پھر یہاں بھی ناجائز کا حکم ہوتا۔

   ایک چیز خود کرایہ پر لے کر آگے زیادہ کرایہ پر دینا ہو تو درج ذیل کوئی ایک شرط کا پایا جانا جواز کے لئے کافی ہے:

1.       اس میں ایسا اضافہ کردیا جائے جو اس چیز کے ساتھ قائم ہو اور اس چیزکی ویلیو (Value)بڑھا دے مثلاً مکان ہے تو اس میں رنگ کروادیا جائے۔

2.       جس جنس (Kind)  کے کرائے پر سامان لیا گیا ہے، اس کے علاوہ کسی دوسری جنس کے  بدلے کرائے پر دیا جائے۔

3.       اس چیز کے ساتھ کسی اور  چیز کو کرایہ پر دیں اور دونوں کا کرایہ ایک ہی مقرر کرلیں۔

   یہاں اس تیسری شرط کے پائے جانے کے سبب آپ کے لئے ڈیکوریشن کا سامان آگے زیادہ کرائے پر دینا جائز ہے۔

   کرائے پر لی جانے والی چیز کو آگے زیادہ کرائے پر دینےسے متعلق درمختار میں ہے:’’ولو آجر باكثر تصدق بالفضل الا فى مسئلتين:  اذا آجر ها بخلاف الجنس او اصلح فيها شيئاً‘‘ یعنی:اگر کسی نے کرائے پر لی ہوئی چیز آگے زیادہ کرائے پر دے دی تو زیادہ ملنے والی اجرت کو صدقہ کر دے، ہاں دوصورتوں میں زیادہ کرائے پر دینے کی اجازت ہے، جب اس نے خلاف جنس چیز پر اجارہ کیا ہو یا اس چیز میں اصلاح کرکے اسے بہتر کیا ہو۔

   بخلاف الجنس کے تحت علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’وكذا اذا آجر مع مااستأجر شيئا من ماله يجوز ان تعقد عليه الاجاره فانه تطيب له الزيادة‘‘یعنی: اسی طرح زیادہ کرائے پر دینے کی اس وقت بھی اجازت ہے کہ جب یہ شخص اس چیز کے ساتھ اپنی کوئی چیز ملا کر اجارے پر دے دے ،  اس صورت میں زیادہ کرائے کی صورت میں ملنے والا نفع بھی اس کے لئے حلال ہوگا۔(در مختار مع رد المحتار،جلد6،صفحہ29،مطبوعه بیروت)

   فتاوی رضویہ میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کرائےپر لی جانے والی چیز کو زیادہ کرائے پر دینے کے جواز کی صورتیں یوں بیان فرماتے ہیں:’’ زیادہ لینا صرف تین صورت میں جائز ہوسکتاہے ورنہ حرام:

1.        زمین میں نہر یا کنواں کھودے یا اور کوئی زیادت ایسی کرے جس سے اس کی حیثیت بڑھائے ۔۔۔۔

2.         جس شے کے عوض خود اجارہ پرلی ہے اس کے خلاف جنس کے اجارہ کو دے۔۔۔۔

3.         زمین کے ساتھ کوئی اور شے ملاکر مجموعاً زیادہ کرائے پر دے کہ اب یہ سمجھا جائے گا کہ زمین تو وہی روپیہ بیگھ کو دی گئی اور باقی زیادت جس قدر ہو دوسری شے کے عوض رہے۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ ،جلد19،صفحہ489،رضا فاؤنڈیشن لاھور، ملتقطا)

   بہارِ شریعت میں ہے:”مستاجر نے مکان یا دکان کو کرایہ پر دیدیا اگر اُتنے ہی کرایہ پردیا ہے جتنے میں خو دلیا تھا یاکم پر جب تو خیر اور زائد پر دیا ہے تو جوکچھ زیادہ ہے اُسے صدقہ کردے ۔ہاں اگرمکان میں اصلاح کی ہو اُسے ٹھیک ٹھاک کیا ہو تو زائد کا صدقہ کرنا ضرور نہیں یاکرایہ کی جنس بدل گئی مثلاًلیا تھا روپے پردیا ہو اشرفی پر اب بھی زیادتی جائز ہے۔“ (بهار شریعت،جلد3،صفحہ124،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم