Thora Kaam Karne Ke Mazdoor Ko Paise Milenge Ya Nahi ?

تھوڑا کام کرنے پر مزدور کو مزدوری ملے گی یا نہیں؟

مجیب:مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2829

تاریخ اجراء:21ذوالحجۃالحرام1445 ھ/28جون2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک ملازم کو   پانچ دن کے لیے   دکان میں کام کرنے پر رکھا  ،وہ پہلے دن آیا  اور کام کیا ،لیکن  پھر دوسرے دن  سے  نہیں آیا،تو اگر وہ ایک دن  کام کرنے کے  پیسے خود سے  نہ مانگے  تو کیا   اسے  اس  دن کے پیسے دینا ضروری ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! اس   ملازم نے  جو ایک دن کام کیا ہے ،وہ  اس   دن کی اجرت کا حقدار ہے اور آپ پر  وہ اجرت  دینا لازم ہے،  اگرچہ وہ خود سے نہ مانگے ۔ اورجن دنوں میں اس نے کام نہیں کیا،ان دنوں کی اجرت کاوہ مستحق نہیں ہے ،لہذاان دنوں کی اجرت دینالازم نہیں ہے ۔

   مزدورسے کام لے کراجرت نہ دینے کے حوالے سے بخاری شریف  میں ہے:”عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: قال الله: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر، ورجل باع حرا فأكل ثمنه، ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعط أجره یعنی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے  ارشاد  فرمایا  کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: میں قیامت کے دن  تین شخصوں کا  مد مقابل  ہوں گا :ایک وہ شخص  جو میرے  نام پر وعدہ دے پھر  عہد شکنی کرے۔دوسرا  وہ شخص جو آزاد شخص کو پکڑ کر فروخت کر  دے، پھر اس کی قیمت کھائے ۔تیسرا وہ شخص جو مزدور  سے کام  تو لے ،لیکن اس کی مزدوری  نہ دے۔(صحیح البخاری، ج 3، ص 82،  الحدیث 2227،  دار طوق النجاة،بیروت)

   مزدورکی اجرت کے حوالے سے حدیث پاک ہے:”قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”أعطوا الأجير أجره، قبل أن يجف عرقهترجمہ:رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلےادا کرو ۔(سنن ابن ماجہ،ج 2،ص 817،رقم الحدیث 2443،دار احیاء الکتب العربیۃ)

   اگر  اجیر نے  پوار کام نہیں کیا بلکہ  کم کام کیا تب بھی وہ  اپنے  کام کی بقدر اجرت کا مستحق ہے، چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے:”ان استأجرہ  لیحملہ الی موضع  کذا  فحملہ  بعض  الطریق  ثم طالبہ  بالأجر  بمقدارماحمل  فلہ ذلک   و کان علیہ  أن یعطیہ من الأجر  حصتہ “ترجمہ: اگر کسی نے سامان اٹھانے والے کو  اجارہ پر رکھا  کہ وہ فلاں جگہ تک اس کا سامان اٹھا ئےگا   ،تو اس نے بعض  راستے تک اس کا سامان اٹھایا ،اور پھر    اس جگہ تک سامان اٹھانے کی اجرت کا مطالبہ کیا ، تو اس کے لیے یہ جائز ہے ،اور  مستأجر پر لازم ہے کہ اسے اتنے راستے تک سامان اٹھانے کی اجرت دے۔(فتاوی ہندیہ،ج 4،ص 413،دار الفکر،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم