Travel Agent Ka Corona Ka Test Par Commission Lena Kaisa?

ٹریول ایجنٹ کا کورونا کے ٹیسٹ پر کمیشن لینا کیسا؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست 2021

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارا ٹریول ایجنسی کا کام ہے ، اب جو مسافربھی بیرونِ ملک سفر پر جاتا ہے ، اس کے لئے کورونا ٹیسٹ کروانا ضروری ہوتا ہے ، ہماری ایجنسی کے ذریعے بھی لوگ باہرملک کا سفر کرتے ہیں توچند لیبارٹریوں کی طرف سے ہمیں یہ پیشکش ملی ہے کہ اگرآپ اپنی ایجنسی کے تحت سفرکرنے والے مسافروں کو ہماری لیبارٹری میں ٹیسٹ کیلئے بھیجیں گے تو ہم آپ کو کچھ فیصد کمیشن دیں گے ، یہ کمیشن بھی طے ہوگا ، اور لیبارٹری والے ٹیسٹ کروانے والے سے کوئی اضافی چارجز بھی نہیں لیں گے ، بلکہ اس سے اتنے ہی چارجز وصول کئے جائیں گے جتنے دوسری لیبارٹری والے وصول کرتے ہیں۔ کیا ہمارا یہ کمیشن لینا جائز ہوگا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں کمیشن لینا ، جائز نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کمیشن ، کام کرنے کی اجرت ہوتی ہے ، اس کے لئے کوئی ایسا کام کرنا ضروری ہوتا ہے جس کے بدلے میں اجرت کی صورت میں معاوضہ دیا جا سکے ، یہاں آپ صرف مشورہ دیں گے کہ اس لیبارٹری سے ٹیسٹ کروا لو ، تو اس موقع پر صرف مشورہ دینا کوئی ایسا کام نہیں ہے جس کے بدلے میں اجرت کا استحقاق ہوتا ہو ، اس لئے یہ کمیشن لینا جائز نہیں۔

   البتہ اگر وہ لیبارٹری واقعی قابل اعتماد ہو ، اور آپ یا آپ کا نمائندہ کسٹمر کو لے کرلیبارٹری جائے ، یوں کچھ محنت کریں اور کمیشن بھی طے ہو تو اس محنت کے بدلے میں کمیشن لے سکتے ہیں۔ لیکن طے شدہ اجرت کے مستحق نہیں ہوں گے بلکہ اجرت مثل کے مستحق ہوں گے ، اجرت مثل سے مراد یہ ہے کہ اس طرح کے کام کرنے پرجتنی اجرت کا عرف ہو اتنی اجرت لے سکتے ہیں ، البتہ اگر طے شدہ اجرت ، اجرت مثل سے کم ہو تو پھر طے شدہ اجرت ہی دی جائے گی ، اجرت مثل نہیں دی جائے گی۔

   اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمدرضا خان  علیہ رحمۃ الرحمٰن  فرماتے ہیں :” اگرکارندہ نے اس بارہ میں جو محنت و کوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی ، بائع کے لئے کوئی دوا دوش نہ کی ، اگرچہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں ، مثلاً آقا کو مشورہ دیا ہو کہ یہ چیز اچھی ہے خرید لینی چاہیے ، یا اس میں آپ کا نقصان نہیں اور مجھے اتنے روپے مل جائیں گے ، اس نے خرید لی ، جب تو یہ شخص عمرو بائع سے کسی اجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے ، محنت کرنے کی ہوتی ہے نہ بیٹھے بیٹھے دو چار باتیں کہنے ، صلاح بتانے ، مشورہ دینے کی۔ ۔ ۔ اور اگربائع کی طرف سے محنت و کوشش و دوادوش میں اپنا زمانہ صرف کیا تو صرف اجرمثل کا مستحق ہوگا ، یعنی ایسے کام اتنی سعی پرجو مزدوری ہوتی ہے اس سے زائد نہ پائے گا ، اگرچہ بائع سے قرارداد کتنے ہی زیادہ کا ہو ، اور اگرقرارداد اجرمثل سے کم کا ہو تو کم ہی دلائیں گے کہ سقوط زیادت پرخود راضی ہوچکا۔ “ (فتاویٰ رضویہ ، 19 / 453)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم