Videos Dekh Kar Paise Kamana, Na Jaiz Hai?

ویڈیوز دیکھ کر پیسہ کمانا،  ناجائز  ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0060

تاریخ اجراء:13صفر المظفر1445ھ/31اگست 2023ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک ویب سائٹ ہے،جس میں ایک اکاؤنٹ نمبر دیا ہوتا ہے، اس اکاؤنٹ میں پیمنٹ جمع کروانی ہوتی ہے جو کہ کم سے کم 500 روپے ہوتی ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ۔ یہ رقم ناقابل واپسی ہوتی ہے۔  رقم جمع کروانے کے بعد ان کی طرف سے اسلامک ویڈیوز ہمیں دی جاتی ہیں مثلاً تلاوت قرآن اور دیگر موضوعات پر ، ان ویڈیوز کو دیکھنے پر وہ ہمیں پروفٹ دیتے ہیں، مثلا 500 جمع کروانے والے کو روزانہ تین ویڈیوز بھیجی جائیں گی، 1000 جمع کروانے والے کو 4 اسی طرح جتنی زیادہ رقم مثلا دس ہزار، بیس ہزار جمع کروائیں گے تو اتنی زیادہ ویڈیوز آئیں گی اور انہیں دیکھنے پر اتنی ہی زیادہ انکم حاصل ہوگی۔ کیا اس طرح ویڈیوز دیکھ کر انکم حاصل کرنا جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں ویڈیوز دیکھنے پر اجارہ کرنا اور اس سے انکم حاصل کرنا، ناجائز و حرام ہے۔

   مسئلے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ اجارے کے درست ہونے کے لئے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ جس کام پر اجارہ کیا جارہا ہے وہ شریعت کی نظر میں منفعت ِمقصودہ ہو، عقل وشعور رکھنے والے لوگ اسے قابل اجارہ کام سمجھتے ہوں۔  پوچھی گئی صورت میں محض ویڈیوز دیکھنا ایسا قابل اجارہ کام نہیں جسے کرنے کے بعد کوئی شخص اجرت کامستحق ٹھہرے  لہٰذا اس ویب سائٹ سے مذکورہ طریقے پر انکم حاصل کرنا، ناجائز و حرام ہے، نیز ابتداء میں رقم جمع کروانے کی شرط لگانا شرط فاسد ہے۔

   مزید یہ کہ اس میں گناہ کے کام پر معاونت بھی ہے کہ یہاں ویڈیوز دکھا نے کا  سب سے بڑا مقصد اشتہار لگوانے والی کمپنیوں کو دھوکا دینا ہوتاہے، انہیں یہ شو کروایا جاتا ہے کہ اس ویب سائٹ کی ویڈیوز کو کثیر لوگ دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کمپنیاں اس ویب سائٹ پر اپنے اشتہار لگواتی ہیں اور اس کی مد میں کثیر رقم اس ویب سائٹ والوں  کو دیتی ہیں لہذاجب ڈمی لوگوں کو ویڈیوز دکھاکر حقیقی دلچسپی ظاہر کرنے والے لوگ  ظاہر کیے جائیں تو یہ دھوکہ ہے اورکسی کافرکوبھی دھوکہ دیناجائزنہیں ہے ۔

   گناہ کے کاموں پر تعاون کرنے سےسے متعلق قرآن کریم میں ہے:’’ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَان ‘‘ترجمہ کنز الایمان: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو ۔(پ:06، المائدہ،آيت:02)

   دھوکہ دینے والوں کے متعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” ليس منا من غش “یعنی:وہ شخص ہم میں سے نہیں جو دھوکہ دہی کرے۔(سنن ابی داود، ج3، ص:272،مطبوعه بیروت)

   اجارے کی تعریف بیان کرتے ہوئے عین شےسے منفعت مقصودہ اورغیرمقصودہ حاصل کرنے سے متعلق در مختار میں ہے:(تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استاجر ثيابا او اوانى ليتجمل بها او دابة ليجنبها بين يديه اودارا لاليسكنها او عبدا او دراهم او غيرذلك لاليستعمله بل ليظن الناس انه له فالاجارة فاسدة فى الكل، ولا اجر له لانها منفعة غير مقصودة من العين۔ یعنی:ایسی منفعت جو عین شے سے مقصود ہو اس کا عوض کے بدلے مالک بنادینا اجارہ کہلاتا ہے یہاں تک کہ اگر کسی نے کپڑے یا برتن سجاوٹ کے لئے کرائے پر لئے یا جانور کو برابر میں  چلانے کے لئے کرائے پر لیا یا  گھر ، غلام اور درہم وغیرہ کو اس غرض سے کرائے پر لیا کہ لوگ یہ سمجھیں کہ یہ سب اسی کا ہے تو ان تمام صورتوں میں اجارہ فاسد ہوگا، اس صورت میں کوئی اجرت نہیں ملے گی کیونکہ یہ ایسی منفعت ہے جو عین شے سے مقصود نہیں۔

   مقصود من العين کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’اى فى الشرع ونظر العقلاء۔“ یعنی:عین شے سے جو منفعت مقصود ہو وہ شریعت  اور عقلاء کی نظر میں منفعتِ مقصودہ ہو۔

   ولا اجر له کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’اى ولو استعملها فيما ذكره۔“ یعنی: اگرچہ مستاجر نے اجارے پر لی ہوئی چیز کو اس غیر مقصود کام میں استعمال کیا ہو( پھر بھی اسے اجرت نہیں ملے گی)۔(رد المحتار مع درمختار ، جلد6، صفحہ 04،مطبوعہ بیروت)

   اجارے کی شرائط صحت بیان کرتے ہوئے بدائع الصنائع میں علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ومنها ان تكون المنفعة مقصودة يعتاد استيفاؤها بعقد الاجارة۔“یعنی:اجارہ درست ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ جس نفع کو حاصل کرنے کے لئے اجارہ کیا جارہا ہو،  عادتاً عقد اجارہ سے وہ منفعت مقصود ہو۔(بدائع الصنائع ، جلد4، صفحہ 192،مطبوعہ بیروت)

   صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ  بہارشریعت میں فرماتے ہیں:”جس نفع پر عقد اجارہ ہو وہ ایسا ہونا چاہیے کہ اُس چیز سے وہ نفع مقصود ہواور اگرچیز سے یہ منفعت مقصود نہ ہو جس کے لیے اجارہ ہوا تو یہ اجارہ فاسد ہے مثلاکسی سے کپڑے اور ظروف کرایہ پر لیے مگر اس لیے نہیں کہ کپڑے پہنے جائیں گے،  ظروف استعمال کیے جائیں گے بلکہ اپنا مکان سجانا مقصود ہے یا گھوڑا کرایہ پر لیا مگر اس لیے نہیں کہ ا س پر سوار ہوگا بلکہ کوتل چلنے کے لیے یامکان کرایہ پر لیا اس لیے نہیں کہ اس میں رہے گابلکہ لوگوں کے کہنے کو ہوگاکہ یہ مکان فلاں کا ہے،  ان سب صورتوں میں اجارہ فاسد ہے اور مالک کو اُجرت بھی نہیں ملے گی اگرچہ مستاجر نے چیز سے وہ کام لیے جس کے لیے اجارہ کیا تھا ۔“(بہار شریعت،جلد3،صفحہ107،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم