Qada Ula Bhoolne Wale Imam Ko Kab Luqma Diya Jaye ?

قعدۂ اولیٰ بھولنے والے امام کوکب لقمہ دیا جائے؟

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Har:4352

تاریخ اجراء:05صفر المظفر1439ھ/26اکتوبر2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ اگر امام چار رکعت والی نماز  میں دوسری رکعت پرنہ بیٹھا اور سیدھا کھڑا ہو گیا اب  کسی نے لقمہ  دیا اورامام نے اس کا لقمہ قبول کر لیاتو کیا حکم ہوگا؟اسی طرح اگر پورا سیدھا کھڑا نہ ہوا ہو بلکہ کھڑے ہونے کے قریب ہو یا بیٹھنے کے قریب ہو تو اب لقمہ دینے اور قبول کرنے کا کیا حکم ہوگا؟

سائل :سید ذیشان (گلشن خیر محمد،حیدر آباد)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    امام چار رکعت والی نماز میں دوسری رکعت پر نہ بیٹھا اور سیدھا کھڑا ہو گیاتو اب اس کو قعدےکی طرف لوٹنا جائز نہیں، سجدہ سہو بھی واجب ہو چکا اور لقمے  کا محل بھی نہ رہا۔لہذااب اگر کسی نے لقمہ دیا تو غیرِ محل میں  لقمہ دینے کی وجہ سے مقتدی کی نماز فاسد ہوجائے گی ۔پھرامام نے جب اس کالقمہ لے لیا اورقعدے کی طرف لو ٹاتوامام کی نماز بھی فاسد ہو جا ئے گی جس کی وجہ سے بقیہ تمام مقتد یوں کی نمازبھی فاسد ہو جائے گی۔

    یہ حکم اس صورت میں ہے جب امام پورا سیدھا کھڑا ہوگیا ہو،اگر پورا سیدھا کھڑا نہ ہوا ہو بلکہ کھڑے ہونے کے قریب ہو یعنی بدن کا نیچے کا آدھا حصہ سیدھا  ہوگیا ہو او ر پیٹھ میں خم (جھکاؤ)باقی ہوتو اس صورت میں اختلاف ہے ،ایک قوی  قول یہ ہے کہ اس صورت میں سجدہ سہو واجب ہو چکا اور واپس لوٹنا جائز نہیں ہے، اس قول کے مطابق  لقمہ دینا بھی جائز نہیں ہوگا اور لقمہ دینے سے دینے والے کی اور قبول کرنے سے امام اور تمام نمازیوں کی نماز فاسد ہو جائے گی۔دوسرا قول یہ ہے کہ  امام کو قعدے کی  طرف لوٹنے کا حکم ہے اور سجدہ سہو واجب ہوچکا، یہی قول ظاہرالروایہ،اصح و راجح قول ہے  ،لہذا اسی پر فتوی و عمل کا حکم ہوگا۔اس مفتی بہ قول کے مطابق امام کو جب لوٹنے کا حکم ہے تو مقتدی کا لقمہ دینااور امام کا اس کو قبول کر کے بیٹھنا درست ہوا ،لہذا اس صورت میں کسی کی نماز فاسد نہیں ہوگی ،البتہ سجدہ  سہو واجب ہے۔

نیز اگرامام کھڑے ہونے کےقریب نہ ہو بلکہ بیٹھنے کے قریب ہویعنی  اس کا نیچے کا آدھا حصہ ابھی سیدھا نہ ہوا ہو تو بالاتفاق اس کو قعدے کی طرف لوٹنے کا حکم ہے اورمفتی بہ و راجح قول کے مطابق سجدہ  سہو بھی واجب نہیں ہے ۔لہذا اس صورت میں  لقمہ دینا اور اس کو قبول کرنا دونوں درست ہیں اور سجدہ  سہو بھی واجب نہیں ہوگا۔در مختار میں ہے:"(سھاعن القعود الاول من الفرض ثم تذکرہ عاد الیہ) وتشھد ولا سھو علیہ فی الاصح(ما لم یستقم قائماً) فی ظاھر المذھب وھو الاصح فتح۔(والا)ای:وان استقام قائما(لا)    یعود لاشتغالہ بفرض القیام (وسجد للسھو) لترک الواجب( فلو عاد الی القعود) بعد ذلک (تفسد صلاتہ) لرفض الفرض لما لیس بفرض وصححہ الزیلعی (وقیل: لا)تفسد لکنہ یکون مسیئا ویسجدلتاخیر الواجب(وھوالاشبہ)کماحققہ الکمال وھوالحق بحر۔ملخصا"امام فرض کے پہلے قعدے سے بھول  جائےپھر اسے یاد آجائے تو قعدے کی طرف لوٹ آئے  اور تشہد پڑھے اور اصح قول کے مطابق اس پر (سجدہ) سہو نہیں جب تک کہ سیدھا کھڑا نہ ہو ظاہر مذہب کے مطابق ،اور یہی اصح ہے۔فتح۔ اور اگر وہ سیدھا کھڑا ہو گیاتووہ نہ لوٹے قیام کے فرض میں اس کےمشغول ہونے کی وجہ  سے اور سجدہ سہو کرے     واجب کے ترک کی وجہ سے ،اور اگر اس (سیدھا کھڑاہونے)کےبعد قعدہ کی طرف لوٹاتو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی فرض کو  ایسی چیز کی وجہ سے چھوڑنے کی وجہ سے جو کہ فرض نہیں اور زیلعی نے اس کو صحیح قرار دیا اور کہا گیا نماز فاسد  نہیں ہوگی لیکن  گناہگار ہوگا اور وہ سجدہ (سہو)کرے گا واجب کی تاخیرکی وجہ سے۔اوریہی مختارہے جیساکہ کمال نےاس کی تحقیق کی اوریہی حق ہے ۔بحر۔                                             

(درمختار مع ردالمحتار ،ج2،ص661،مطبوعہ:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

     رد المحتار میں ہے:"قولہ:(ولا سھو علیہ فی الاصح)یعنی اذا عاد قبل ان یستتم قائماًو کان الی القعود اقرب فانہ لا سجود علیہ فی الاصح و علیہ الاکثر،واختار فی الولوالجیۃ وجوب السجود،اما اذا عاد وھو الی القیام اقرب فعلیہ سجود السھو کما فی نورالایضاح و شرحہ بلا حکایۃ خلاف فیہ و صحح اعتبار ذلک فی الفتح بما فی الکافی ان استوی النصف الاسفل و ظھرہ بعد منحن فھو اقرب الی القیام و ان لم یستو فھو اقرب الی القعود۔"مصنف علیہ الرحمہ کا قول:(اور اس پر سجدہ سہو نہیں اصح قول کے مطابق) ان کی مراد یہ ہے کہ جب وہ سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے لوٹے اور قعود کے زیادہ قریب ہو کیونکہ اس پر اصح قول کے مطابق کوئی سجدہ نہیں اور اسی پر اکثر ہیں اور ولوالجیہ میں سجدےکے وجوب کو اختیارفرمایا،بہرحال جب وہ لوٹے اس حال میں کہ وہ قیام کے زیادہ قریب ہو تو اس پر سجدہ  سہو ہے جیسا کہ نور الایضاح اور اس کی شرح میں کسی اختلاف کی حکایت کے بغیر ہے اور فتح القدیر میں اس کے اعتبارکو صحیح قرار دیا اس کی وجہ سے جو کافی میں ہے کہ اگر نیچے (والےبدن کا) آدھا (حصہ)سیدھا ہو جائے اور اس کی پیٹھ اس کے بعد جھکی ہوئی ہو تو وہ قیام کے زیادہ قریب ہے اور (نیچے والا آدھا حصہ)سیدھا نہ ہوا ہو تو وہ قعود کے زیادہ قریب ہے۔

(رد المحتار ،ج2،ص661،مطبوعہ:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

    رد المحتار میں ہے:"قولہ:(فی ظاھر المذھب) مقابلہ ما فی الھدایۃ:ان کان الی القعود اقرب عاد الیہ ولا سھو علیہ فی الاصح ولو الی القیام اقرب فلا و علیہ السھو وھو مروی عن ابی یوسف و اختارہ مشایخ بخاری و اصحاب المتون کالکنز و غیرہ و مشی فی نور الایضاح علی الاول کالمصنف تبعا لمواھب الرحمان و شرحہ البرھان۔ قال:و لصریح ما رواہ داود عنہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم:اذا قام الامام فی الرکعتین فان ذکر قبل ان یستوی قائماً فلیجلس،وان استوی قائماً فلا یجلس و یسجد سجدتی السھو اھ۔"مصنف علیہ الرحمہ کا قول:(ظاہر مذہب کے مطابق)اس کے مقابل  وہ(قول) ہے جو ہدایہ میں ہے کہ:اگر قعود کے زیادہ قریب ہو تو اس کی طرف لوٹ آئے اور اصح قول کے مطابق اس پر (سجدہ) سہو نہیں اور اگر قیام کے زیادہ قریب ہو تو نہیں( لوٹے) اور اس پر (سجدہ) سہو ہے  اور یہ امام ابو یوسف علیہ الرحمہ سے مروی ہے اور اسے بخاری کے مشایخ اور اصحاب متون، جیسے کنز اور ان کے علاوہ نے اختیار فرمایا ہے اور نور الایضاح میں پہلے قول پر چلے ہیں مصنف علیہ الرحمہ کی طرح مواہب الرحمان اور اس کی شرح برھان کی پیروی کرتے ہوئے۔انہوں نےفرمایا اور اس صریح (حدیث)کی وجہ سے جسے امام ابو داود علیہ الرحمہ نے نبی پاک صلی اللہ تعالی سےروایت کیا کہ :امام جب دو رکعتوں پر کھڑا ہوجائے تو اگر اسے سیدھا کھڑے ہونے سے پہلے یا د آجائے تو چاہیے کہ بیٹھ جائے،اور اگر سیدھا کھڑا ہو جائے تو نہ بیٹھے اور سہو کے دو سجدے کرے۔

(رد المحتار ،ج2،ص661،مطبوعہ:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

   مراقی الفلاح میں ہے:"(و  من سھا عن القعود الاول من الفرض عاد الیہ) وجوباً( مالم یستقم قائماً فی ظاھر الروایۃ وھو الاصح) کما فی التبیین ،والبرھان والفتح لصریح قولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم :"اذا قام الامام فی الرکعتین فان ذکر قبل ان یستوی قائماً فلیجلس و ان استوی قائماً فلا یجلس ،و یسجد سجدتی السھو رواہ ابو داود و فی الھدایۃ والکنز ان کان الی القیام اقرب لا یعود ووالا عاد۔(فان عاد)من سھا عن القعود (وھو الی القیام اقرب سجد للسھو)لترک الواجب۔ملخصا"اور جو  فرض کے پہلے قعدےسےکھڑا ہو جائے تو اس کی طرف وجوبی طور پر لوٹ آئے جب تک سیدھا کھڑا نہ ہو ظاہر الروایہ کے مطابق اور یہی اصح ہے ،جیسا کی کہ تبیین ،برہان اور فتح القدیر میں ہے نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے صریح فرمان کی وجہ سے کہ :امام جب دو رکعتوں پر کھڑا ہو جائے تو اگر اسے سیدھا کھڑے ہونے سے پہلے یا د آجائے تو چاہیے کے بیٹھ جائے،اور اگر سیدھا کھڑا ہو جائے تو نہ بیٹھے اور سہو کے دو سجدے کرے۔اس حدیث پاک کو امام داود علیہ الرحمہ نے روایت کیا ہے۔اور ہدایہ و کنز میں ہے اگر قیام کے زیادہ قریب ہو تو نہ لوٹے وگرنہ لوٹ آئے۔پس اگر لوٹ آیا وہ شخص جو قعود سے بھول چکا تھا اس حال میں کہ وہ قیام کے زیادہ قریب ہو تو سہو کا سجدہ کرے واجب کے ترک کی وجہ سے۔

(مراقی الفلاح مع الطحطاوی،ص466،مطبوعہ:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

    مراقی الفلاح کی عبارت"وھو الی القیام اقرب الخ"کے تحت علامہ سید احمد طحطاوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"ظاھرہ انہ ان لم یستو قائماً یجب علیہ العود ثم یفصل فی سجود السھو فان کان الی القیام اقرب سجد لہ، وان کان الی القعود اقرب لا،فحکم السجود متعلق بالقرب و عدمہ و حکم العود متعلق بالاستواء و عدمہ۔"اس کا ظاہر یہ ہے کہ اگر وہ سیدھا کھڑا نہ ہو تو اس پر لوٹنا واجب ہے پھر تفصیل کی جائے گی سجدہ سہو کے بارے میں ،پس اگر قیام کے زیادہ قریب ہو تو سہو کا سجدہ کرے گا ،اور قعود کے زیادہ قریب ہو تو(سجدہ  سہو) نہیں (کرے گا)،لہذا سجدے کا حکم قیام کے قریب ہونے اور نہ ہونے سے متعلق ہے، اور لوٹنے کا حکم سیدھے ہونے اور نہ ہونے سے متعلق ہے۔

(حاشیۃالطحطاوی علی المراقی،ص466،مطبوعہ:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

    سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:"اگر ابھی قعود سے قریب ہے کہ نیچے کا آدھا بدن ہنوز سیدھا نہ ہونے پایا جب تو بالاتفاق لوٹ آئے اور مذہب اصح میں اس پر سجدہ سہو نہیں اور اگر قیام سے قریب ہوگیا یعنی بدن کا نصف زیریں سیدھا اور پیٹھ میں خم باقی ہے تو بھی مذہب اصح و راجح میں پلٹ آنے ہی کا حکم ہے، مگر اب اس پر سجدہ سہو واجب۔"

(فتاوی رضویہ،ج8،ص181،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن لاہور)

    سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:"اگر امام ابھی پورا سیدھا کھڑا نہ ہونے پایا تھا کہ مقتدی نے بتایا اور وہ بیٹھ گیا تو سب کی نماز ہوگئی اور سجدہ سہو کی حاجت نہ تھی، اور اگر امام پورا کھڑا ہوگیا تھا اس کے بعد مقتدی نے بتایا تو مقتدی کی نماز اسی وقت جاتی رہی ،اور جب اس کے کہنے سے امام لوٹا تو اس کی بھی گئی اور سب کی گئی،اور اگر مقتدی نے اس وقت بتایا تھا کہ امام ابھی پورا سیدھا نہ کھڑا ہوا تھا کہ اتنے میں پورا سیدھا ہوگیا اس کے بعد لوٹا تو  مذہب اصح میں نماز ہو تو سب کی گئی مگر مخالفت حکم کے سبب مکروہ ہوئی، کہ سیدھا کھڑا ہونے کے بعد قعدہ اولی کے لئے لوٹنا جائز نہیں۔"

(فتاوی رضویہ،ج8،ص214،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم