Ghair Muslim Ke Janaze Mein Jana Kaisa ?

غیر مسلم کے جنازے میں جانا کیسا؟

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2192

تاریخ اجراء: 30ربیع ا الثانی1445 ھ/15نومبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کسی غیر مسلم کے جنازے میں جانا کیسا ہے ؟ رہنمائی فرما دیجیے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   غیر مسلم کے جنازے میں شرکت کرنا ، حرام ہے ، ایسا کرنے والے پر اعلانیہ توبہ لازم ہے اور اگر غیر مسلم کے لیے بخشش و مغفرت کی دعا کی ، تو کفر ہےاور ایسا کرنے والے پر  توبہ و تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح بھی فرض ہے۔

   قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے : ﴿وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖ ؕ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ ﴾ ترجمۂ کنز العرفان : ”اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور نافرمانی کی حالت میں مرگئے ۔“(پارہ10 ، سورۃ التوبة ، آیت84)

   اس آیت کی تفسیر میں جامع المعقول والمنقول شیخ احمد جِیوَن رحمۃ اللہ علیہ غیرمسلم کے جنازے میں شرکت ناجائز ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:”ھذہ الاٰیۃ صریحۃ فی انہ لا یجوز الصلاۃ علی الکافر بحال ۔۔۔ و لا تقف علی قبرہ للدفن او الزیارۃ ، ملخصا “ ترجمہ : یہ آیت اِس حکم میں صریح (واضح) ہے کہ کافر پر کسی بھی حالت میں نمازِ جنازہ ادا کرنا ، جائز نہیں اور اس کی قبر پر دفن یا زیارت کے لیے نہ کھڑا ہو۔(التفسیرات الاحمدیہ ، ص471۔472 ، پشاور)

   تفسیر خزائن العرفان میں ہے : ”اس آیت سے ثابت ہوا کہ کافِر کے جنازے کی نماز کسی حال میں جائز نہیں اور کافِر کی قبر پر دفن و زیارت کے لئے کھڑے ہونا بھی ممنوع ہے اور یہ جو فرمایا (اور فِسق ہی میں مر گئے) یہاں فِسق سے کُفر مراد ہے ۔ قرآنِ کریم میں اور جگہ بھی فِسق بمعنی کُفر وارِد ہوا ہے جیسے کہ آیت ﴿ اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً ﴾ میں ۔“(تفسیر خزائن العرفان ، پارہ10 ، سورۃ التوبة ، آیت84)

   تفسیر نعیمی میں ہے : ”مُردہ کافر و منافق کو مرحوم کہنا یا رحمۃ اللہ یا رضی اللہ عنہ کے القاب دینا یا ان کے لیے ختمِ قرآن مجید کرنا ، ان کی فاتحہ ، قُل وغیرہ کرنا حرام ہے ۔۔۔ کافر و منافق کی نمازِ جنازہ پڑھنا حرام ہے ۔ ملخصا “(تفسیر نعیمی ، ج10 ، ص475 ، مکتبہ اسلامیہ ، لاھور)

   کافر کے لیے مغفرت کی دعا کرنا کفر ہے ۔ چنانچہ قرآن پاک میں دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے : ﴿مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ یَّسْتَغْفِرُوۡا لِلْمُشْرِکِیۡنَ وَلَوْکَانُوۡۤا اُولِیۡ قُرْبٰی مِنۡۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیۡمِ ﴾ ترجمۂ کنز العرفان : نبی اور ایمان والوں کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں ، اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں ، جبکہ ان کے لئے واضح ہو چکا ہے کہ وہ دوزخی ہیں ۔(پارہ11 ، سورۃ التوبۃ، آیت113)

   رد المحتار میں ہے:”ان الدعاء بالمغفرۃ للکافر کفر“ ترجمہ : کافر کے لیے بخشش کی دعا کرنا کفر ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار ، ج2 ، ص288 ، مطلب فی الدعاء المُحرَّم ، کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”کافر کے لیے دعائے مغفرت و فاتحہ خوانی کفرِ خالص و تکذیبِ قرآنِ عظیم ہے۔“(فتاوی رضویہ،جلد 21،صفحہ 228،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”جو کسی کافر کے لیے اس کے مرنے کے بعد مغفرت کی دعا کرے یا کسی مردہ مرتد کو مرحوم یا مغفور یا کسی مردہ ہندو کو بیکنٹھ باشی (جنّتی) کہے، وہ خود کافر ہے ۔ “ (بھار شریعت ، حصہ1 ، ج 1، ص185 ، مکتبہ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم