Ghair Muslim Mard Ya Aurat Ko Sadqa Dena Kaisa ?

غیر مسلم مرد یا عورت کو صدقہ دینا کیسا ؟

مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2460

تاریخ اجراء: 04شعبان المعظم1445 ھ/15فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا غیر مسلم مرد یا عورت کو صدقہ دے سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    ہمارے ہاں جوکفارہیں وہ ذمی نہیں ہیں کہ اپنے رہنے کاجزیہ بادشاہ اسلام کوادانہیں کرتے بلکہ  حربی ہیں ، لہذاان  کوکسی قسم کاصدقہ وخیرات دینے کی اجازت نہیں۔

   چنانچہ البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے"جميع الصدقات فرضا كانت او واجبة اوتطوعا لا تجوز للحربی اتفاقا كما فی غاية البيان"ترجمہ:تمام صدقات چاہے فرض ہوں یاواجبہ ہوں  یانافلہ ہوں بالاتفاق حربی کافرکودیناجائزنہیں ہے جیساکہ غایۃ البیان میں ہے ۔(البحر الرائق شرح كنز الدقائق،جلد2،صفحہ261،دار الكتاب الاسلامی، بیروت)

   درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے "جميع الصدقات فرضا ونفلا لا تجوز للحربی اتفاقا"ترجمہ:تمام صدقات فرض اورنفل بالاتفاق کافرحربی کودیناجائزنہیں ہے ۔ (درر الحكام شرح غرر الأحكام،جلد1،صفحہ191، بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے”کافروں کا صدقات وغیرہ میں کچھ حق نہیں، نہ اس کو دینے کی اجازت، غایہ سروجی و بحرالرائق ودرمختاروغیرہا میں ہے:اما الحربی ولومستأمنا فجمیع الصدقات لایجوز لہ اتفاقا(فتاوی رضویہ،ج20،ص589،رضافاونڈیشن،لاہور)

   صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشادفرماتے ہیں :"حربی کو کسی قسم کا صدقہ دینا جائز نہیں نہ واجبہ نہ نفل، اگرچہ وہ دارالاسلام میں بادشاہِ اسلام سے امان لے کر آیا ہو۔ہندوستان اگرچہ دارالاسلام ہے مگریہاں کے کفّار ذمّی نہیں، انھیں صدقات نفل مثلاً ہدیہ وغیرہ دینا بھی ناجائز ہے۔ "(بہارشریعت،ج 1،حصہ 5،ص 931،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم