اس شرط پر چیز بیچنے کا حکم کہ جب میرے پاس پیسے ہوں گے ، واپس لے لوں گا ؟

مجیب:مولانا شاکر مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-6949

تاریخ اجراء:15رجب المرجب1441 ھ/11مارچ2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زیدنے بکرکوپندرہ لاکھ روپےکی اپنی گاڑی اس شرط پرفروخت کی کہ جب میرے پاس پیسے ہوں گے، تب میں اداکرکے گاڑی واپس لے لوں گااوراس وقت تک گاڑی تم استعمال کرو۔کیاان دونوں کے درمیان مذکورہ معاہدہ شرعاجائزہے یاناجائز ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    بیچنے والے کاخریدارکواس شرط پر چیزفروخت کرناکہ جب میرے پاس پیسے ہوں گے ، تومیں آپ سے اپنی فروخت کردہ چیزواپس لے لوں گا،یہ شریعت کی اصطلاح میں بیع الوفاہےاوربیع الوفامیں فروخت کردہ چیزخریدارکے پاس رہن ہوتی ہے اوررہن کواستعمال کرنا،اس سے نفع حاصل کرناہے، جوسودہی کی صورت ہے اورگناہ ہےاورچونکہ سوال میں ذکرکردہ صورت بیع الوفاکی ہےاورفروخت کی گئی گاڑی بکرکے پاس بطورِرہن ہے ، جسے استعمال کرنا ، اس سے نفع اٹھاناہے، جوسودوگناہ ہے،لہٰذاصورتِ مسئولہ میں زیداوربکرکامعاہدہ کرنا،ناجائز،حرام،سودوگناہ ہے۔

    نیزیہ کہ اگراس معاہدے کو عقدِبیع تسلیم بھی کرلیاجائے ،توبھی یہ معاہدہ فاسد،ناجائزوگناہ ہے،کیونکہ بیع میں ایسی شرط لگاناجوبیچنے والے یاخریدنے والے میں سے کسی کے لیے مفیدہو،مگراس پرعرف جاری نہ ہو،تووہ شرط عقد کوفاسدکردیتی ہےاورچونکہ صورتِ مسئولہ میں یہ شرط”جب پیسے دوں گا،توگاڑی واپس لے لوں گا“بیچنے والے کے حق میں مفیدہے،لہذابیع فاسدہوئی،جسے ختم کرنافریقین میں سے ہرایک پرواجب ہے۔

بیع الوفا کی تعریف کے متعلق ردالمحتارمیں ہے:”ان یرد المبیع علی البائع  حین رد الثمن “یعنی: جب بائع مشتری کوثمن واپس کرے، تومشتری مبیع کوواپس کردے۔                

                           (ردالمحتار مع الدرالمختار،ج7،ص580،مطبوعہ کوئٹہ)

    بیع الوفا کے رہن ہونے کے بارے میں فتاوی رضویہ میں ہے: ”صحیح ومعتمد مذہب میں بیع الوفاء بیع نہیں ،رہن  ہے،مشتری مرتہن کو رہن سے نفع حاصل کرنا حرام  ہے۔“                                   

                       (فتاوی رضویہ،ج17،ص91،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

    بہارشریعت میں ہے:” بیع الوفاحقیقت میں رہن ہے،لوگوں نے رہن کے منافع کھانے کی یہ ترکیب نکالی ہے….اوراگراس کوبیع بھی قراردیاجائے،جیساکہ اس کانام ظاہرکرتاہے اورخودعاقدین بھی عمومالفظ ِبیع ہی سے عقد کرتے ہیں،تویہ شرط کہ ثمن واپس کرنے پرمبیع کوواپس کرناہوگایہ شرط بائع کے لیے مفیدہے اورمقتضائے عقدکے خلاف ہے اورایسی شرط بیع کوفاسدکرتی ہے،جیسا کہ معلوم ہوچکاہے، اس صورت میں بھی بائع ومشتری دونوں گنہگاربھی ہوں گےاورمبیع کے منافع مشتری کے لیے حلال نہ ہوں گے۔“

                                                             (بھارشریعت،ج2،ص835،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    سودکے حرام ہونے کے متعلق ارشادِخداوندی ہے:﴿ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ترجمہ:اور اللہ نے حلال کیابیع کواور حرام کیاسود ۔

(پارہ 3،سورۃ البقرۃ ،آیت275)

    رہن سے نفع اٹھانے کے سودہونے کے بارے میں مصنف عبد الرزاق میں ہے:”عن ابن سيرين قال: جاء رجل إلى ابن مسعود فقال : إن رجلا رهنني فرسا فركبتها قال: ما أصبت من ظهرها فهو ربا“ترجمہ:امام ابن سیرین کابیان ہے کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی ٰعنہ کے پاس آیااورکہاکہ کسی بندےنے مجھے گھوڑارہن کے طورپردیاتھا،اس پرمیں نے سواری کی،حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیاکہ جوتم نے گھوڑے کی سواری سے نفع اٹھایا،وہ سودہے۔

            (مصنف عبدالرزاق،ج8،ص245،مطبوعہ مکتبہ اسلامی،بیروت)

    ردالمحتارمیں ہے:”عن عبدﷲ بن محمد بن اسلم السمرقندی وکان من کبارعلماء سمرقندأنہ لایحل لہ ان ینتفع بشیء منہ بوجہ من الوجوہ وان اذن لہ الراھن لانہ اذن لہ فی الربا، لانہ یستوفی دینہ کاملافتبقی لہ المنفعۃ فضلافیکون ربا“ترجمہ: عبداﷲبن محمد بن اسلم سمرقندی سے منقول ہے،جوسمرقندکے بڑے علماء میں سے ایک تھےکہ مرتہن کومرہونہ چیز سے کسی طور پربھی نفع اٹھانا ، جائزنہیں،اگرچہ راہن نے اس کی اجازت دی ہو،کیونکہ یہ سُود کی اجازت ہے،اس لیے کہ مرتہن اپنا قرض پورا وصول کرتاہےاورمنفعت اسے اضافی ملتی ہے،پس یہ منفعت سودہے۔

                                                 (ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الرھن،ج10،ص86،مطبوعہ کوئٹہ)

    شرط کے مقتضائے عقدکے خلاف ہونے سے عقدکے فاسد ہونے کے بارے میں ہدایہ میں ہے:”کل شرط لایقتضیہ العقد وفیہ منفعۃ لاحد المتاقدین اوللمعقودعلیہ وھومن اھل الاستحقاق یفسدہ الاان یکون متعارفا لان العرف قاض علی القیاس ‘‘ترجمہ:ہروہ شرط جس کاعقدتقاضا نہ کرے اوراس میں متعاقدین(خریدنے اوربیچنے والے ) میں سے کسی ایک کے لیے یامعقودعلیہ (جسے بیچاگیا)کے لیے نفع نہ ہو،جبکہ معقودعلیہ اہل استحقاق میں سے ہو،تووہ شرط عقدکوفاسدکردیتی ہے،مگریہ کہ وہ شرط عرف میں متعارف ہو(توعقدکوفاسدنہیں کرتی)،کیونکہ عرف قیاس پرقاضی ہے۔

(الھدایہ مع البنایۃ ،کتاب البیوع، ج7،ص239،240، مطبوعہ  کوئٹہ)

    بیع فاسدکے حکم کے بارے میں فتاوی رضویہ میں ہے:’’کل شرط کذافاسد ودل شرط فاسدفھویفسدالبیع وکل بیع فاسدحرام واجب الفسخ علی کل من العاقدین فان لم یفسخااثماجمیعاوفسخ القاضی بالجبر‘‘ترجمہ:ہروہ شرط جوایسی ہووہ فاسدہے اورجوشرط فاسدہووہ بیع کو فاسدکردیتی ہے اوروہ فاسدبیع حرام ہے جس کافسخ کرنابائع اورمشتری میں سے ہرایک پرواجب ہے،اگر

وہ فسخ نہ کریں ،تودونوں گنہگارہوں گے اورقاضی جبراً اس بیع کوفسخ کرائے۔

 (فتاوی رضویہ،ج17،ص160،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم