بیع میں شرطِ فاسد لگانا جائز نہیں

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ صفر المظفر 1441ھ

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں بیج بیچنے کا کام کرتا ہوں۔ ہماری مارکیٹ میں جب زمیندار بیج خریدنے آتا ہے تو دکاندار اسے بیج بیچتے ہیں لیکن ساتھ میں یہ شرط لگاتے ہیں کہ آپ اپنی فصل ہمیں ہی بیچیں گےاس صورت کا کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں خریداری کے ساتھ جو شرط لگائی گئی ہے وہ ناجائز وگناہ ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ بیج کی بیع کے ساتھ فصل ، بائع (یعنی فروخت کرنے والے) کو بیچنے کی شرط ، شرطِ فاسد ہےکیونکہ اس میں بائع (فروخت کرنے والے) کا نفع ہےاورجس شرط کا عقد  یعنی سودا تقاضا نہ کرے اور اس میں معاہدہ کرنے والے دونوں فریق میں سے کسی کا نفع ہو وہ شرط فاسد ہوتی ہے اور شرطِ فاسد سے بیع فاسد ہوجاتی ہےاور بیعِ فاسد کا ارتکاب گناہ کا کام ہے۔ بہارِشریعت میں ہے : “ جو شرط مقضائے عقد کے خلاف ہو اور اس میں بائع یا مشتری یا خود مبیع کا فائدہ ہو (جبکہ مبیع اہلِ استحقاق  سے ہو) وہ بیع کو فاسد کردیتی ہے۔

(بہارشریعت ، 2 / 702)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم